حج ایک عظیم عبادت، مقدس دینی فریضہ اور ارکانِ اسلام میں سے ایک اہم رکن ہے۔ حج کے لفظی معنی ’’قصد و ارادہ‘‘ کے ہیں۔ اسلام میں یہ لفظ رب ذوالجلال کے مقدس گھر کعبۃ اللہ کے قصد و ارادے کے لیے استعمال ہوتا ہے تاکہ مکہ مکرمہ جاکر بیت اللہ کا طواف اورمقاماتِ مقدسہ پر حاضر ہوکر مناسکِ حج ادا کیے جائیں۔ حج ہر اس مسلمان مرد و عورت پر فرض ہے جو اس کی استطاعت و طاقت رکھتا ہو۔ ارشادِ رب جلیل ہے:
وَلِلّٰهِ عَلَی النَّاسِ حِجُّ الْبَیْتِ مَنِ اسْتَطَاعَ اِلَیْهِ سَبِیْلاً.
(آل عمران، 3: 97)
’’ اور اللہ کے لیے لوگوں پر اس گھر کا حج فرض ہے جو بھی اس تک پہنچنے کی استطاعت رکھتا ہو۔‘‘
بیت الحرام جو شعائرِ اسلامی کی بقا کا ضامن ہے قرآن کریم نے اس کی فضیلت اس طرح بیان فرمائی ہے:
جَعَلَ اللهُ الْکَعْبَةَ الْبَیْتَ الْحَرَامَ قِیٰمًا لِّلنَّاسِ.
(المائدة، 5: 97)
’’اللہ نے عزت (و ادب) والے گھر کعبہ کو لوگوں کے (دینی و دنیوی امور میں) قیام (امن) کا باعث بنا دیا ہے۔‘‘
یہ مرکز یقین و مرکز مراد امت مسلمہ کے دینی تشخص اور اجتماعی وحدت کی شیرازہ بندی میں مرکزی حیثیت رکھتا ہے۔ جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَاِذْ جَعَلْنَا الْبَیْتَ مَثَابَةً لِّلنَّاسِ وَاَمْنًا.
(البقرة، 2: 125)
’’اور (یاد کرو) جب ہم نے اس گھر (خانہ کعبہ) کو لوگوں کے لیے رجوع (اور اجتماع) کا مرکز اور جائے امان بنا دیا۔‘‘
روایات کے مطابق بیت اللہ کی اولین تعمیر حضرت آدم علیہ السلام نے فرمائی۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے دور تک یہاں صرف ایک ٹیلے کی صورت میں ایک نشان باقی رہ گیا تھا۔ پھر حضرت ابراہیم اور اسماعیل نے بیت اللہ کی بنیادیں بلند فرمائیں۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَاِذْ بَوَّاْنَا لِاِبْرٰھِیْمَ مَکَانَ الْبَیْتِ اَنْ لاَّ تُشْرِکْ بِیْ شَیْئًا وَّطَھِّرْ بَیْتِیَ لِلطَّآئِفِیْنَ وَالْقَآئِمِیْنَ وَالرُّکَّعِ السُّجُوْدِ.
(الحج، 22: 26)
’’ اور (وہ وقت یاد کیجیے) جب ہم نے ابراہیم (علیہ السلام) کے لیے بیت الله (یعنی خانہ کعبہ کی تعمیر) کی جگہ کا تعین کر دیا (اور انہیں حکم فرمایا) کہ میرے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ ٹھہرانا اور میرے گھر کو (تعمیر کرنے کے بعد) طواف کرنے والوں اور قیام کرنے والوں اور رکوع کر نے والوں اور سجود کرنے والوں کے لیے پاک و صاف رکھنا۔‘‘
یہ اسی خانہ کعبہ اور اس کے حج کی برکت تھی کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے زمانہ سے لے کر نبی ﷺ کے زمانہ تک اڑھائی ہزار برس کی مدت میں عربوں کو ایک مرکز وحدت حاصل رہا۔ جس نے ان کی عربیت کو قبائلیت میں بالکل گم ہونے سے بچائے رکھا اس کے مرکز سے وابستہ ہونےا ور حج کے لیے ہر سال ملک کے تمام حصوں سے آتے رہنے کی بدولت ان کی زبان ایک ہی رہی۔ ان کی تہذیب ایک ہی رہی۔ ان کے اندر عرب ہونے کا احساس باقی رہا۔ ان کو خیالات، معلومات اور تمدنی طریقوں کی اشاعت کے مواقع ملتے رہے۔ پھر یہ بھی اسی حج کی برکت تھی کہ عرب کی عام بدامنی میں کم از کم چار مہینے ایسے امن کے میسر آجاتے تھے جن میں ملک کے ہر حصے کا آدمی سفر کرسکتا تھا اور تجارتی فاصلے بھی بخیریت گزر سکتے تھے۔ اس لیے عرب کی معاشی زندگی کے لیے بھی حج ایک رحمت تھا۔
دراصل بیت اللہ وہ مرکز امن و سلامتی ہے جہاں مسجد حرام اور اس کے اردگرد کے وسیع علاقے کو حرم قرار دیا گیا ہے۔ یہاں نہ جنگ کرنا جائز ہے اور نہ کسی جانور یا انسان کا خون بہایا جاسکتا ہے۔ کعبۃ اللہ کی اس حرمت نے اسے دینی و دنیاوی فیوض و برکات کی جاہ بنادیا ہے۔ زائرین کے قافلے تمام سال اور خاص طور پر ایام حج میں کسی ڈر اور خوف کے بغیر اس مقامِ رشد و مسکن ہدایت کی طرف رواں دواں رہتے ہیں۔ عرشِ عظیم کا رب لاکھوں فرزندانِ توحید کو اپنے آغوشِ سلامتی اس طرح رکھ لیتا ہے کہ دنیا اس کے جاہ و جلال اور بندوں کی بے لوث عبدیت کے نظاروں پر محو حیرت رہتی ہے۔ بیت اللہ کی امن و سلامتی کا ذکر کرتے ہوئے ارشادِ ربانی ہے:
وَ اِذْ جَعَلْنَا الْبَیْتَ مَثَابَةً لِّلنَّاسِ وَاَمْنًا ط وَاتَّخِذُوْا مِنْ مَّقَامِ اِبْرٰهٖمَ مُصَلًّی ط وَعَهِدْنَآ اِلٰٓی اِبْرٰهٖمَ وَاِسْمٰعِیْلَ اَنْ طَهِرَا بَیْتِیَ لِلطَّآئِفِیْنَ وَالْعٰکِفِیْنَ وَالرُّکَّعِ السُّجُوْدِ.
(البقرة، 2: 125)
’’ اور (یاد کرو) جب ہم نے اس گھر (خانہ کعبہ) کو لوگوں کے لیے رجوع (اور اجتماع) کا مرکز اور جائے امان بنا دیا، اور (حکم دیا کہ) ابراہیم (علیہ السلام) کے کھڑے ہونے کی جگہ کو مقامِ نماز بنا لو، اور ہم نے ابراہیم اور اسماعیل (علیہما السلام) کو تاکید فرمائی کہ میرے گھر کو طواف کرنے والوں اور اعتکاف کرے والوں اور رکوع و سجود کرنے والوں کے لیے پاک (صاف) کر دو۔‘‘
اس آیت مبارکہ سے اندازہ ہوتا ہے کہ حج کے بیشتر مناسک مثلاً طوافِ کعبہ رکوع و سجود و اعتکاف اور اس کے علاوہ مقام ابراہیمی، چاہ زمزم اور سعی کوہ صفا و مروہ دراصل سنتِ ابراہیمی سے ہی مستعار لیے گئے ہیں۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام سے محمد رسول اللہ ﷺ کے دور تک آتے آتے حج و عمرہ میں جو مشرکاہ عقائد و رسومات شامل ہوچکے تھے محمد رسول اللہ ﷺ نے اپنی حیاتِ طیبہ کے آخری دور میں ان کا خاتمہ کیا اور 10 ہجری کو وہ تاریخی حج مبرور ادا کیا جس میں مسلمانوں کو سنتِ ابراہیمی اور حج کے اسلامی مناسک کی تعلیم دی۔ یہ حضور ﷺ کا پہلا اور آخری حج تھا۔ اسی لیے اسے ’’حجۃ الوداع‘‘ کہا جاتاہے اور ابلاغِ اسلام کی بنا پر ’’حج الاسلام‘‘ اور ’’حج البلاغ‘‘ کے نام سے بھی موسوم کیا جاتاہے
دراصل قرآن حکیم حضرت ابراہیم علیہ السلام کی زندگی کو مومنین کے لیے ایک مثال کی حیثیت سے پیش کرتا ہے کہ اسی میں حج کی تعلیمات کا نچوڑ بھی ہے اور درس بھی پوشیدہ و پنہاں ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو عشقِ الہیٰ نے وہ بلند حوصلہ عطاکیاکہ بقول اقبال بے خطر کود پڑا آتش نمرودمیں عشق۔ ان کے اسی عشق و جنوں کے صدقے اللہ رب العزت نے دہکتی ہوئی آگ کے شعلوں کو ٹھنڈا فرمادیا۔ اس کے بعد حضرت ابراہیم علیہ السلام حکم ربی کی تکریم میں بے آب و گیاہ صحرا میں طویل اورکٹھن مسافت کے بعد شریک حیات بی بی حاجرہ اور پیرانہ سالی میں حاصل اولاد شیر خوار حضرت اسماعیل علیہ السلام کو ایمان و یقین کے سائبان میں مکے کی وادی غیر ذی زرع میں تنہا چھوڑ کر رخصت ہوجاتے ہیں۔ آخر آپ کی شفقتِ پدری حکم ربانی کی تعمیل میں سرخرو قرار پاتی ہے۔ صحرا میں شیر خوار بچے کی شدتِ پیاس اسے ایڑیاں رگڑنے پر مجبورکرتی ہے جو ماں کے لیے ناقابلِ برداشت ہوتاہےا ور وہ پانی کی تلاش میں کوہ صفا اورکوہ مروہ کے درمیان سعی کرتی ہے۔ مامتا کی اس تڑپ اور والہانہ محبت پر رحمت الہٰی جوش میں آتی ہے اورمعصوم بچے کی ایڑیوں تلے ایسے پانی کا چشمہ جاری ہوجاتاہے جو آج دن تک غذا بھی ہے، دوا بھی ہے اور شفا بھی ہے۔ یہی آب زم زم شفاعتِ الہٰی میں کوثر و سلسبیل کے مماثل قرار پاتاہے اور اس گھرانے کا عہد وفا رب العزت کو اس قدر عزیز ٹھہرتا ہے کہ قیامت تک صفا و مروہ کے درمیان سعی حج کا لازمی رکن قرار پاتی ہے۔
دراصل بیت اللہ وہ مرکز امن و سلامتی ہے جہاں مسجد حرام اور اس کے اردگرد کے وسیع علاقے کو حرم قرار دیا گیا ہے۔ یہاں نہ جنگ کرنا جائز ہے اور نہ کسی جانور یا انسان کا خون بہایا جاسکتا ہے۔ کعبۃ اللہ کی اس حرمت نے اسے دینی و دنیاوی فیوض و برکات کی جاہ بنادیا ہے۔ زائرین کے قافلے تمام سال اور خاص طور پر ایام حج میں کسی ڈر اور خوف کے بغیر اس مقامِ رشد و مسکن ہدایت کی طرف رواں دواں رہتے ہیں
اطاعت و رضا کے پیکر حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سخت ترین آزمائش اس وقت ظاہر ہوتی ہے جب حضرت اسماعیل علیہ السلام بارہ تیرہ برس کے ہوجاتے ہیں۔آپ کو مسلسل تین رات خواب میں حکم ہوتاہے کہ اپنی عزیز ترین متاع راہ خدا میں قربان کردو۔ جنابِ خلیل اللہ نے یہ حکم ربی اپنے بیٹے حضرت اسماعیل علیہ السلام کو بتایا تو عزیمت و استقامت کے اس پیکر نے فوراً سرتسلیم خم کرتے ہوئے خود کو اس عظیم قربانی کے لیے پیش کردیا اور فرمایا کہ آپ اللہ تعالیٰ کا حکم بجا لایئے کہ آپ مجھے صابروں میں پائیں گے۔ آج دنیا بھر کے بیٹوں کے لیے یہ سعادت مندی ایک عظیم مثال ہے۔ تسلیم و رضا کی اس کیفیت کو علامہ اقبال نے یوں بیان کیا ہے:
یہ فیضانِ نظر تھا کہ مکتب کی کرامت تھی
سکھائے کس نے اسماعیل کو آدابِ فرزندی
خلیل اللہ نے اپنے بیٹے کو پیشانی کے بل زمین پر لٹایا مگر کوشش کے باوجود چھری نہ چلی کیونکہ اللہ رب العزت کو اسماعیل علیہ السلام کی قربانی مقصود نہ تھی بلکہ دنیا کو اپنے خلیل کا جذبہ ایمان و اطاعت دکھانا مقصود تھا۔ چنانچہ حضرت اسماعیل علیہ السلام کی جگہ بہشت سے ایک مینڈھا بھیجا گیا جسے حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ذبح فرمایا۔ مسلمان تسلیم و رضا کے اس عظیم واقعہ کی یادمیں حج اور قربانی کا فریضہ اداکرتے ہیں۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام و حضرت اسماعیل علیہ السلام کی قربانی کا جذبہ خالقِ کائنات کو اس قدر پسند آیا کہ ہر سال 10 ذی الحج کو صاحبِ استطاعت اہل ایمان کے لیے قربانی کی عبادت لازمی قرار دی گئی ہے اور اسے حج کا رکن بنایا گیا ہے۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام سے محمد رسول اللہ ﷺ کے دور تک آتے آتے حج و عمرہ میں جو مشرکاہ عقائد و رسومات شامل ہوچکے تھے محمد رسول اللہ ﷺ نے اپنی حیاتِ طیبہ کے آخری دور میں ان کا خاتمہ کیا اور 10 ہجری کو وہ تاریخی حج مبرور ادا کیا جس میں مسلمانوں کو سنتِ ابراہیمی اور حج کے اسلامی مناسک کی تعلیم دی۔ یہ حضور ﷺ کا پہلا اور آخری حج تھا۔ اسی لیے اسے ’’حجۃ الوداع‘‘ کہا جاتاہے اور ابلاغِ اسلام کی بنا پر ’’حج الاسلام‘‘ اور ’’حج البلاغ‘‘ کے نام سے بھی موسوم کیا جاتاہے۔ حج کی حکمت بیان کرتے ہوئے آپ ﷺ نے فرمایا کہ ’’جس شخص نے اس گھر کا حج کیا اور جنسی باتوں میں انہماک اور نافرمانی سے اجتناب کیا وہ اپنے گناہوں سے اس طرح پاک صاف ہوگیا جیسا کہ وہ اس دن تھا جب اس کی ماں نے اس کو جنم دیا تھا۔‘‘ (صحیح بخاری)
حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ ’’حج کو آنے والے اللہ تعالیٰ کے معزز مہمان ہیں۔ اگر وہ اللہ تعالیٰ سے دعامانگیں تو اللہ تعالیٰ ان کی دعا قبول فرماتا ہے اور اگر وہ گناہوں کی مغفرت طلب کریں تو اللہ تعالیٰ ان کے گناہوں کو بخش دے گا۔‘‘ (سنن ابن ماجہ)
الغرض حج اسلام کا وہ بنیادی رکن اور عبادت کا اہم جزو ہے جو حکم ربی کے مطابق نبی آخرالزمان حضرت محمد ﷺ کے اسوہ حسنہ اور دینی تعلیمات کی عملی تفسیر ہے۔ ہر سال ذوالحجہ کے ابتدائی عشرہ میں حج کا عظیم اجتماع اسلام کی عالمگیر تحریک کا مظہر ہے۔ یہاں آنے والے تمام افراد رنگ و نسل، گورے کالے، عربی عجمی، سرخ و سفید، تمام گروہی و قبائلی امتیازات سے بالاتر ہوکر اخوت و اتحاد اور اجتماعیت و انسانی مساوات کا عملی نمونہ پیش کرتے ہیں۔حج کے اجتماع میں اسلامی اتحاد و یگانگت کی وہ عظیم شان کارفرما نظر آتی ہے جو نہ اس سے پہلے تاریخ مذاہب نے دیکھی اور نہ اس کے بعد اقوامِ عالم میں اس انداز و اطوار سے نظر آئی ہے۔ دنیا کے گوشے گوشے سے ہر رنگ، ہر نسل، ہر زبان اور ہر قومیت کے لاکھوں فرزندانِ توحید ظاہری شان و شوکت، لباس فاخرانہ سے بے نیاز، تصنع و بناوٹ، جاذب و حسین رنگوں سے مبرا سفید لباس یعنی احرام میں ملبوس فرمانِ الہٰی کی تکمیل میں مناسکِ حج میں مصروف نظر آتے ہیں مکے کی فضا تلبیہ کے ورد سے گونجتی ہے۔
دراصل قرآن حکیم حضرت ابراہیم علیہ السلام کی زندگی کو مومنین کے لیے ایک مثال کی حیثیت سے پیش کرتا ہے کہ اسی میں حج کی تعلیمات کا نچوڑ بھی ہے اور درس بھی پوشیدہ و پنہاں ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو عشقِ الہیٰ نے وہ بلند حوصلہ عطاکیاکہ بقول اقبال بے خطر کود پڑا آتش نمرودمیں عشق۔ ان کے اسی عشق و جنوں کے صدقے اللہ رب العزت نے دہکتی ہوئی آگ کے شعلوں کو ٹھنڈا فرمادیا
’’لبیک اللهم لبیک، لبیک لا شریک لک لبیک. ان الحمد والنعمة لک و الملک لاشریک لک.‘‘
’’میں حاضر ہوں اے اللہ میں حاضر ہوں۔ تیرا کوئی شریک نہیں۔ سب خوبیاں اور سب نعمتیں تیری ہی ہیں اور سلطنت تیری ہے۔ تیرا کوئی شریک نہیں۔‘‘
حج کا یہ مقدس ترانہ اعتراف بندگی بھی ہے اور رب العزت سے عہد و پیماں کا اقرار بھی ہے کہ اے دونوں جہانوں کے مالک ہم تیرے ہر حکم پر لبیک کہتے ہیں ہم تیری نعمتوں کے شکر گزار اور شان کبریائی سے آشنا ہیں۔ تیرے حکم اور تیرے نبی آخرالزماں کے سکھائے ہوئے مناسکِ حج پر عمل پیرا ہوتے ہوئے حج کو ایک جامع اجتماعی عبادت کے طور پر ادا کریں گے۔
میقات شریف پر احرام باندھنا، طوافِ کعبہ، سعی صفا و مروہ، وقوفِ عرفات، مزدلفہ منی اور طوافِ زیارت اور پھر منیٰ، رحمی، جمرات اور طوافِ وداع گویا حرام پہننے سے سنت ابراہیمی کی ادائیگی تک تمام مناسکِ حج میں گہرا فلسفہ اور پیغام پوشیدہ ہے۔ سنتِ ابراہیمی کی ادائیگی کا مقصد نفس اور انا کی قربانی ہے۔ اللہ کی راہ میں خود پرستی اور خود پسندی کے بچھڑے کی قربانی ہے۔ کسی دنیاوی طلب اور تقاضے کے بغیر اللہ کی راہ میں دیوانہ وار مشقت کے ایام گزارنا اللہ تعالیٰ کے حضور بندے کی عجزو انکساری کا اعتراف ہے۔ طوافِ کعبہ رب عرشِ عظیم کے گھر کو مرکز نگاہ اورمنزل مراد قرار دینے کا نام ہے۔ سعی صفا ومروہ جو شعائرِ اسلام میں حضرت ہاجرہ کے اسوہ کی پیروی اورماں کے عظیم جذبے کو سلام پیش کرنے کی جسارت ہے۔ مزدلفہ، منیٰ اور عرفات کے میدانوں میں کھلے آسمان تلے ایام عسرت گزارنے کامقصد اللہ کے دین کو سربلند کرنے میں تن من دھن قربان کرنے کا عزم ہے۔ رمی میں شیطانی حربوں سے کنارہ کشی کرتے ہوئے کھلی جنگ کا اعلان ہے۔ گویا حج میں انفرادی اور اجتماعی طور پر عبادات میں خشوع و خضوع کے ذریعے روحانی لطافت کا اہتمام اور تزکیہ قلب و نظر کا سامان کیا جاتا ہے۔