اسناد و اجازات اسلامی علوم کی تاریخ کا ایک اہم حصہ ہیں اور ان کا تعلق ایک استاد سے دوسرے استاد تک علم کی منتقلی سے ہے۔ اس موضوع کا مطالعہ ہمیں نہ صرف دینی تعلیمات کے حوالے سے معلومات فراہم کرتا ہے، بلکہ یہ ہمیں اسلامی تعلیمی نظام کی ساخت، طریقہ کار اور تدریسی روایات کو بھی سمجھنے کا موقع دیتا ہے۔ اس آرٹیکل میں ہم اسناد و اجازات کی تاریخ، ان کے مروجہ طریقوں اور ان سے متعلق شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کے کردار پر گفتگو کریں گے۔
اسناد اور اجازات کی تاریخ اسلامی تاریخ سے جڑی ہوئی ہے۔ ابتدائی دور میں جب علم کا حصول زیادہ تر زبانی تھا، اس وقت اسناد و اجازات کی شکل میں تدریسی سلسلے کا آغاز نہیں ہوا تھا۔ لیکن جیسے ہی مسلمان اُمت نے علمی مضامین میں گہرائی حاصل کرنا شروع کی، اس وقت اسناد اور اجازات کی ضرورت محسوس ہوئی تاکہ علم کے سلسلے کو ایک مضبوط اور معتبر شکل دی جا سکے۔
اسلامی تعلیمات میں سب سے اہم عمل علم کی صحیح منتقلی تھا۔ ابتدائی دور میں علمی اسناد اور اجازات کی شکل میں علماء کی موجودگی اور علم کی تصدیق کا عمل بہت اہم تھا۔ جب کسی شخص نے کسی خاص موضوع پر علم حاصل کیا تو اسے اس علم کے سلسلے میں اپنے استاد سے سند حاصل ہوتی تھی، جو اس بات کی گواہی تھی کہ وہ اس علم میں ماہر ہے۔ جبکہ زمانہ جدید میں اسناد ایک ایسا دستاویز ہوتا ہے جو کسی شخص کو کسی خاص علم یا مضمون میں مہارت کی تصدیق کرتا ہے۔ اس میں استاد کا نام، مضمون کی نوعیت اور پڑھنے والے کی مہارت کا ذکر کیا جاتا ہے۔ اسناد میں اکثر اساتذہ کی ایک تسلسل ہوتی ہے جسے "اسناد کا سلسلہ" کہا جاتا ہے، اور اس میں ہر استاد کو کسی دوسرے استاد سے علم حاصل کرنے کی تصدیق کی جاتی ہے۔
روایت حدیث میں اسناد کی اہمیت
اسناد کا معنی و مفہوم اور اہمیت و مرتبہ
ہم جانتے ہیں کہ اسلام میں اِسناد کو ایک خاص اَہمیت اور مقام و مرتبہ حاصل ہے، کیونکہ سند کے ذریعے درحقیقت اِس اُمت کا دین کو صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے حاصل کرنا مراد ہے، اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے رب العالمین کے رسول حضرت محمد ﷺ سے حاصل کیا ہے، اور آپ ﷺ کا رب العزت و الجلال سے بالواسطہ یا بلا واسطہ حاصل کرنا ہے، جیسا کہ یہ بات وحی کی اقسام سے معلوم ہے۔ اِسی طرح اِسناد صحیح احادیث کو ضعیف احادیث سے الگ کرنے کا وسیلہ اور ذریعہ ہے۔ اور یہ ایسی چیز ہے جس پر دین اسلام کے اَحکامات اور تعلیمات مترتب ہوتی ہیں۔
اِسناد کی فضیلت و اَہمیت کے مختلف گوشوں کو سمجھنے سے پہلے اگر لفظ ’سند‘ اور ’اِسناد‘ کی لغوی و اِصطلاحی وضاحت اور ان کی تعریفات کی تفہیم کر لی جائے تو اِسناد اور سلف صالحین اور علماء کاملین سے علم لینے کی اَہمیت مزید نکھر کر سامنے آتی ہے۔
لغت میں اِسناد، أَسْنَدَ کا مصدر ہے اور یہ ’سند‘ سے مشتق ہے۔ ابن منظور افریقی
نے ’لسان العرب‘ میں اور ابن الاثیر نے ’النہایۃ فی غریب
الاثر‘ میں لکھا ہے: لغت
میں سند سے مراد پہاڑ یا وادی کاسامنے والا وہ حصہ جو زمین سے بلند ہو، اور اسی سے
سُنُودُ الْقَومِ فِي الْجَبَلِ کا معنی ہے لوگوں
کا پہاڑ پر چڑھنا۔ اصطلاحاًسند سے مراد: طریقِ متن کے بارے میں خبر دینا ہے، اور یہ
عربوں کے قول ’فُـلَانٌ سَنَدٌ‘ سے ماخوذ ہے، جس کا مطلب ہے: فلاں قابلِ اعتماد ہے۔
اسے سند کا نام اس لیے دیا جاتا ہے کہ حفاظِ حدیث، حدیث کی صحت اور ضعف میں اس پر اعتماد
کرتے ہیں۔ اور رہا ’اِسناد‘ تو اس سے مراد حدیث کو اس کے قائلِ اَوّل (یعنی پہلے راوی)
تک پہنچانا ہے، اور بعض اَوقات یہ دونوں (الفاظ یعنی سند اور اِسناد) ایک دوسرے کی
جگہ پر بھی استعمال ہوتے ہیں۔
اِسناد کا دین میں سے ہونے کا بیان
حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جب تم حدیث لکھو تو اسے اس کی سند کے ساتھ لکھا کرو۔ پس اگر وہ حق ہوا تو تم (اسے آگے پہنچانے کے) اجر میں شریک ہو جاؤ گے اور اگر باطل ہوا تو اس کا بوجھ (تم پر نہیں، ) اسے بیان کرنے والے پر ہو گا۔امام ترمذیؒ نے ان الفاظ کے ساتھ امام عبد اللہ بن مبارک کا قول روایت کیا ہے: میرے نزدیک اسناد امورِ دین میں سے ہے، اگر سند کا علم نہ ہوتا تو ہر کوئی جو چاہتا کہتا پھرتا۔ کسی راوی سے جب کہا جاتا ہے: تجھے کس نے بیان کیا ہے؟ تو وہ اس طرح (اپنی مرضی سے کچھ کہنے سے) رک جاتا ہے۔ امام بیہقی نے علی بن حجر کے طریق سے (عبد اللہ) بن مبارک کے قول کی تخریج کی ہے۔ انہوں نے فرمایا: اگر (علم) اسناد نہ ہوتا تو دین ضائع ہو جاتا اور ہر شخص جو چاہتا کہتا پھرتا، لیکن جب تو اس سے پوچھتا ہے: یہ سب کچھ کس سے اخذ کر رہا ہے؟ تو وہ لاجواب ہو جاتا ہے۔
اسناد، امت محمدیہﷺ کی خصوصیات میں سے ہے
قاسم بن بندار روایت کرتے ہیں: میں نے ابو حاتم رازی کو یہ بیان کرتے سنا ہے: جب سے اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام کو پیدا کیا ہے، کسی امت میں اس قدر امناء (امانت دار لوگ) نہیں تھے جو رسولوں کے آثار کی حفاظت کرتے مگر امت محمدیہﷺ میں ہیں۔ انہیں ایک آدمی نے کہا: اے ابو حاتم! شاید وہ ایسی حدیث بھی روایت کرتے ہوں جس کی نہ تو اصل ہو اور نہ ہی وہ صحیح ہو۔ اس پر آپ نے کہا: امتِ محمدیﷺ کے علماء سقیم (غیر صحیح) کے مقابلہ میں صحیح کی معرفت رکھتے ہیں، ان کا اس طرح روایت کرنا اسی معرفت کی بنیاد پر ہوتا ہے تاکہ ان کے بعد آنے والوں کے لیے یہ چیز واضح ہو جائے کہ انہوں نے آثار کو نمایاں کیا اور انہیں محفوظ کیا۔ پھر ابو حاتم رازی نے کہا: اللہ تعالیٰ ابو زُرعہ پر رحم فرمائے۔ وہ رسول اللہ ﷺ کے آثار و اَقوال کو حفظ کرنے میں بڑی تگ و دو کیا کرتے تھے۔
جن شیوخ سے علم حاصل کیا ہو، اُن کے حوالے سے آگے بیان کرنا مستحب ہے
حضرت عبد اللہ بن مبارک سے مروی ہے، وہ بیان کرتے ہیں: امام ابو حنیفہ سے مروی ہے، آپ نے فرمایا: اس میں کوئی حرج نہیں اگر کوئی شخص علماء کے سامنے علم (حدیث) کی قرأت کرے، پھر اسے آگے روایت کر دے، نیز اس میں بھی کوئی حرج نہیں کہ وہ (روایت کرتے وقت) أَخْبَرَنَا کہے کہ ہمیں فلاں شیخ نے بتایا ہے۔
بلا اسناد علم حاصل کرنے اور روایت کرنے کا نقصان اور اس کی ممانعت
امام شافعی (م204ھ) نے فرمایا ہے: اس شخص کی مثال جو بلا تحقیق و بلا دلیل علم طلب کرتا ہے، رات کے وقت لکڑیاں اکٹھی کرنے والے کی طرح ہے، جو لکڑیوں کا ایسا گٹھا اٹھاتا ہے جس میں سانپ بھی ہوتاہے، جس سے وہ بے خبر ہے، اور وہ سانپ اُسے (بے خبری میں) ڈس لیتا ہے۔
ابن عیینہ سے مروی ہے، انہوں نے فرمایا: بلا اِسناد حدیث کی کوئی حیثیت نہیں۔ اور بے شک سند کی حیثیت متون کی سیڑھی کی ہے، اسی کے ذریعے ہی ان متون تک پہنچا جاتا ہے۔
نااہل شخص سے علم لینے کی ممانعت
امام ترمذی نے یحییٰ بن آدم سے روایت کیا ہے، وہ بیان کرتے ہیں کہ ابوبکر بن عیاش
سے کہا گیا: بے شک بعض لوگ (مسندِ علم پر) بیٹھتے ہیں اور لوگ بھی سیکھنے کے لیے ان
کے پاس بیٹھتے ہیں حالانکہ وہ اس چیز کے اہل نہیں ہوتے۔ آپ بیان کرتے ہیں کہ اس پر
ابوبکر بن عیاش نے کہا: ہر وہ شخص جو(مسندِ علم پر) بیٹھا ہو اور لوگ بھی اس کے پاس
(حصولِ علم کے لیے) بیٹھتے ہوں اس سے وہ معتمد اور ثقہ عالم نہیں قرار پاتا۔ اللہ تعالی
صاحبِ سنت و سیرت عالم کا ذکر
(اُس کے دنیا سے چلے جانے کے بعد بھی) زندہ رکھتا ہے جب کہ بدعتی کا ذکر (پسِ مرگ)
ختم ہوجاتا ہے۔
شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری کا کردار
ڈاکٹر طاہر القادری کا شمار ان علماء میں ہوتا ہے جنہوں نے مختلف دینی علوم میں گہری مہارت حاصل کی ہے، خاص طور پر اسلامی فقہ، تفسیر، حدیث، اور تصوف کے شعبے میں۔ ان کی تعلیمات کی بنیاد قرآن و سنت کی صحیح تفہیم پر ہے، اور انہوں نے اپنے علمی سفر میں نہ صرف ان علوم کو سیکھا بلکہ ان کی تدریس کا عمل بھی جاری رکھا۔
ڈاکٹر طاہر القادری نے اپنے تدریسی عمل میں احادیث کی اسناد دینے کا عمل بہت اہمیت دی ہے۔ وہ علمی اعتبار سے اس بات کو یقینی بناتے ہیں کہ جب کوئی طالب علم یا محقق کسی حدیث کو نقل کرے یا اس پر تحقیق کرے، تو اس کی سند بالکل مستند اور مضبوط ہو۔ اس عمل کے ذریعے، انہوں نے نہ صرف حدیث کی صحیح تفہیم کی اہمیت کو اجاگر کیا ہے بلکہ اس بات کو بھی یقینی بنایا ہے کہ جو علم امت تک پہنچے وہ صرف صحیح اور معتبر ہو۔
ڈاکٹر طاہر القادری کی اسناد دینے کی روایات میں یہ شامل ہے کہ وہ اپنے طلباء اور محققین کو اس بات کی اجازت دیتے ہیں کہ وہ علم حدیث کی تدریس کریں اور اس پر تحقیق کریں، بشرطیکہ وہ اس علم میں سچی امانتداری اور احتیاط سے کام لیں۔ اس کے علاوہ، وہ اسناد کے تسلسل کی پیروی کرتے ہوئے ایک مضبوط علمی سلسلے کی بنیاد رکھتے ہیں۔
اجازات دینے کا طریقہ
شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری نے اجازات دینے کے عمل کو بھی بہت سنجیدگی سے لیا ہے۔ وہ اپنے شاگردوں کو نہ صرف علم سکھاتے ہیں بلکہ انہیں دینی مجالس میں تدریس کا اختیار دیتے ہیں۔ اجازات دینے کے عمل میں وہ اس بات کا خیال رکھتے ہیں کہ شاگرد علمی لحاظ سے اس مقام تک پہنچ چکا ہو جہاں وہ علمی حیثیت اور تدریسی ذمہ داریوں کو سمجھ سکے۔
شیخ الاسلام نے اپنی علمی زندگی میں نہ صرف احادیث کی اسناد دینے اور اجازات دینے کا عمل جاری رکھا ہے بلکہ انہوں نے اس عمل کو ایک منظم اور مستند طریقہ کار کے تحت انجام دیا ہے۔ ان کا تدریسی عمل اور اجازات دینا اسلامی تعلیمات کی صحیح منتقلی کے لیے ایک مضبوط بنیاد فراہم کرتا ہے۔ اس کے ذریعے انہوں نے علوم الحدیث اور دیگر اسلامی علوم کو دنیا بھر میں پھیلایا اور نئی نسل کو اسلامی علوم میں مہارت حاصل کرنے کا موقع فراہم کیا۔