شیخ الاسلام مرجع علم و حکمت

پروفیسر ڈاکٹر شفاقت الازہری

پندرہویں صدی ہجری کا آفتاب جب اس کرہ ارضی پر طلوع ہوا تو ہر سو جدید ترقی، ٹیکنا لوجی برق رفتاری اورانسانی زندگی کے لیے آسائشوں اور آسانیوں کا دور کئی مراحل طےکر چکا تھا۔ دوسری طرف ان گنت و کثیر نئے رجحانات وعجیب و غریب طرز و عادات نے بشری معا شرے اور سماج کے معاملات کو اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا۔ جنہوں نےحالات ومعاملات کو ہمہ اعتبار سے نقطہ منتھی تک تغیر و تبدل کے لباس میں ملبوس کر دیا تھا، یہاں تک کہ اہل فکر اپنے طرز فکر، سوچ و تخیل، خیال و تصور کو بدلنے پر مجبور نظر آرہے تھے۔ اور دین و مذہب، معیشت و تجارت معاشرت و سماجیات، حکومت و سیاست، اجتماعیت ویگانگت وغیرہ کے بارے میں نظریات و تصورات اپنے قدماء و اسلاف کی روایت سے دور جا رہے تھے۔

ضرورت اس امر کی تھی کہ ان بڑھتےدین مخالف رجحانات کی روک تھام کی جائے اور اصلاح کا کام کما حقہ ادا کیا جائے۔ لیکن اصلاح و علاج اس وقت تک کبھی ممکن نہیں ہوتا جب تک بگاڑ و بیماری کی صحیح تشخیص نہ ہوسکے اور جب درست تشخیص ہوگی تو بگاڑ و خرابی کو ختم کرنے کی کو شش ممکن ہوسکےگی۔

حکمت (Wisdom)

تجربات و مشاء اہدات، تدبر و تعقل سے حاصل شدہ معلومات اور اس سے پیدا ہونے والی سمجھ بوجھ اور درست فیصلہ کرنے کی اہلیت و استعداد کو کہا جاتا ہے، ماہرین نفسیات کے ہاں حکمت سے مراد وہ صلاحیت ہے جو تجربے، بصیرت اور انعکاس (Reflection) سے پیدا ہوتی ہے۔ سچ اور حقیقت کا فہم و ادراک کر کے درست گمان یا فیصلوں کو نافذ کر سکتی ہے حکمت انسانیت پر اللہ رب العزت کی طرف سے نعمت کبری ہے۔

قابل ذکر امر یہ ہے کہ علم و حکمت منتخب و چنیدہ بندگان خداوندی کی میراث ہے۔ الله رب العزت نے اولاً اپنے انبیاء ورسل علیہ السلام کوعلم و حکمت کے روشن اوصاف سے موصوف فرمایا، جو اپنے اپنے عہد میں خیرا لخلائق پاکیزہ اور بارگاہ الہی میں مقربین اور انسانیت کے مقتدوراہنما اور مرجع کے درجہ پر فائز تھے پھر اللہ رب العزت نے اپنےرسولوں کے پیرو کاروں، پارسا اور صالح لوگوں کو بھی دستار علم و حکمت عطا فرمائی۔

ان نامساعداور کٹھن اور کثیر الجہتی چیلنجز عہد بے باک کا مقابلہ کرنے کے لیے ایک قابل، باصلاحیت، وسعت نظری کی حامل، علم و حکمت کی پیکر شخصیت کی ضرورت تھی جو معاصر تحدیات کو اپنی وسعت علمی و فکری سے سلجھا نے اور سدھارنے کی لازوال اور نتیجہ خیز سعی و کوشش لوجہ اللہ سر انجام دینے کی استداد و صلاحیت کا مالک ہو۔

اللہ رب العزت نے پندرہویں صدی ہجری کے انسانوں پر کرم فرمایا اور انہیں حضرت شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری کی صورت میں مقتدا و پیشوا عطا کیا جس نے امت کو پیچیدہ و معقد مسائل سے نکال کر نہایت خوش اسلوبی کے ساتھ راہ مستقیم پر گامزن کیا چونکہ اللہ تعالی نے اس ہستی کو علم و معرفت سے اتنا ہمکنار کیا کہ معاصر تہذیبی عروج میں نوجوان نسل ہو یا جدید ذہن کا مالک انسان، تاجر ہو یا معلم، قانون دان ہو یا معیشت دان، حاکم ہو یا عالم الغرض ہر انسان آپ سے علمی راہنمائی اور فکری اصلاح حاصل کر رہا ہے اور شیخ الاسلام کی علمی مہارت اور دانائی کا عالم یہ ہے کہ آپ مشکل اور ادق معاملات و مسائل کو احسن انداز میں حل کر نے اور دوسروں کو دلائل و براہین دینے اور حکیمانہ اُسلوب کے ساتھ (Convince) کرنے کی عالی اہلیت کے مالک ہیں، چاہے معاشرے کو امن و اسلامتی کا پیکر بنانے کی حکمت عملی ہو یا عالمی منظر نامے پر رُونما ہونے والا کوئی تہذیبی تصادم ہو، آپ اُس کی ایسی بیخ کنی کرتے ہیں کہ عقل ششدر و دنگ رہ جاتی ہے اور زبان داد دیے بغیر نہیں رکتی، لہذا یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ جو شخص بھی عقل سلیم کا مالک ہے وہ یہ کہنے پر مجبور ہے کہ ڈاکٹرمحمد طاہر القادری اس صدی میں علم و حکمت کا بے مثال، عظیم اور ثقہ مرجع ہیں۔

مقربین کے علمی وارث

مقربین کے علمی و رحانی وارث وہ اہل اللہ ہوتے ہیں جو علم تقویٰ اور حکمت کے ساتھ معاملات کو سلجھانے کی صلاحیت رکھتے ہیں، بلاشبہ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری انہیں میں سے شُمار ہوتے ہیں، مقربین کے کئی طبقات ہیں، ان میں سب سے افضل اور اعلیٰ طبقہ انبیاء و رُسل علیہم السلام کا ہے جو بار گاہ الہیٰ میں نہایت مقرب اور محبوب شُمار ہوتے ہیں، اس کے بعد صالحین کے مختلف طبقات آتے ہیں، جو دین متین کے احیاء کے لیے کاوشیں سر انجام دیتے ہیں۔

بلا شک و شبہ اللہ رب العزت نے انبیاء علیہم السلام کو علم کی فضلیت اور عظمت سے نوازا ہے، زیر بحث عنوان کو سمجھنے کے لیے ان میں سے چند کا تذکرہ بطور نمونہ پیش ہے، سب سے پہلے حضرت آدم علیہ السلام کی فرشتوں پر فضیلت کا تذکرہ کرتے ہیں اور جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ ان کی فضیلت کی کیا وجہ تھی ؟ تو ہمیں جواب ملتا ہے وہ سبب اور وجہ ’’علم‘‘ ہے۔

جیسا کہ ارشاد باری تعالی ہے :

وَ عَلَّمَ اٰدَمَ الْاَسْمَآءَ كُلَّهَا

’’ اور اللہ نے آدم (علیہ السلام) کو تمام (اشیاء کے) نام سکھا دیے۔ ‘‘

(البقرۃ، 2: 31)

جب فرشتے جواب نہ دے سکے اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کو فرمایا:

وَ اِذْ قُلْنَا لِلْمَلٰٓىِٕكَةِ اسْجُدُوْا لِاٰدَمَ فَسَجَدُوْۤا

’’پھر آپ کے رب نے فرشتوں سے فرمایا تم آدم کو سجدہ کرو پس انہوں نے سجدہ کیا۔ ‘‘

(بنی اسرائیل، 17: 61)

کسی ہستی کو علم و حکمت کا نصیب ہونا بہت بڑی خیر کا ذریعہ ہے، اسی طرح اللہ تعالیٰ نے حضرت لوط علیہ السلام کو علم کی عظمت اور خوبیوں سے نوازا تھا، جس کا تذکرہ قرآن حکیم میں یوں فرمایا۔

وَ لُوْطًا اٰتَیْنٰهُ حُكْمًا وَّ عِلْمًا

’’اور لوط علیہ السلام کو ہم نے حکمت اور علم عطا کیا۔ ‘‘

 (الانبیاء، 21: 74)

جیسا کہ مذکورہ بالا عنوان سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ رب العزت نے سب سے پہلے ان دونوں خوبیوں اور کمالات سے اپنے انبیاء ورسل کو متصف فرمایا ہے بلخصوص نبی آخر الزماں ﷺ کو اللہ رب العزت نے کتاب و حکمت عطا فرمائی اور علم میں جملہ مخلوقات پر فضل عطا فرمایا۔

سورۃ النسا ءمیں ارشاد باری تعالٰی ہے:

وَ اَنْزَلَ اللّٰهُ عَلَیْكَ الْكِتٰبَ وَ الْحِكْمَةَ وَ عَلَّمَكَ مَا لَمْ تَكُنْ تَعْلَمُ ؕ وَ كَانَ فَضْلُ اللّٰهِ عَلَیْكَ عَظِیْمًا۝

’’اوراس اللہ نے آپ پر کتاب اور حکمت نازل فرمائی ہے اور اس نے آپ کو وہ سب علم عطا کر دیا ہے جوآپ نہیں جانتے تھے، اورآپ پر اللہ کا بہت بڑا فضل ہے۔ ‘‘

 (النساء، 4: 113)

اور آپ ﷺ نے اسی حکمت و دانائی کو بروے کار لاتے ہوئے توحید الہیٰ کی طرف بلایا اور اصلاح معاشرہ کا فریضہ سر انجام عطا فرمایا۔

اور ارشاد باری تعالی ہے :

اُدْعُ اِلٰی سَبِیْلِ رَبِّكَ بِالْحِكْمَةِ وَ الْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ وَ جَادِلْهُمْ بِالَّتِیْ هِیَ اَحْسَنُ ؕ اِنَّ رَبَّكَ هُوَ اَعْلَمُ بِمَنْ ضَلَّ عَنْ سَبِیْلِهٖ وَ هُوَ اَعْلَمُ بِالْمُهْتَدِیْنَ۝

’’اے رسولِ معظّم! آپ اپنے رب کی راہ کی طرف حکمت اور عمدہ نصیحت کے ساتھ بلائیے اور ان سے بحث (بھی) ایسے انداز سے کیجئے جو نہایت حسین ہو، بیشک آپ کا رب اس شخص کو (بھی) خوب جانتا ہے جو اس کی راہ سے بھٹک گیا اور وہ ہدایت یافتہ لوگوں کو (بھی) خوب جانتا ہے۔ ‘‘

 (النَّحْل، 16 : 125)

اسی طرح ان مقربین میں غیر انبیاء اور صالحین شامل ہیں، جیسا کہ حضرت لقمان علیہ السلام نبی نہیں ہیں لیکن ان کی علم و حکمت کا تذکرہ قرآن کریم میں یوں آیا ہے :

وَ لَقَدْ اٰتَیْنَا لُقْمٰنَ الْحِكْمَةَ اَنِ اشْكُرْ لِلّٰهِ ؕ وَ مَنْ یَّشْكُرْ فَاِنَّمَا یَشْكُرُ لِنَفْسِهٖ ۚ وَ مَنْ كَفَرَ فَاِنَّ اللّٰهَ غَنِیٌّ حَمِیْدٌ۝

’’اور بیشک ہم نے لقمان کو حکمت و دانائی عطا کی، (اور اس سے فرمایا) کہ اللہ کا شکر ادا کرو اور جو شکر کرتا ہے وہ اپنے ہی فائدہ کے لئے شکر کرتا ہے، اور جو ناشکری کرتا ہے تو بیشک اللہ بے نیاز ہے (خود ہی) سزاوارِ حمد ہے۔ ‘‘

(لقمان، 31 : 12)

مذکورہ بالا چند قرآنی شواہد سے معلوم ہوتا کہ علم و حکمت فضلیت کا ذریعہ اور سبب ہیں، اللہ تعالیٰ نے اس باب میں شیخ الاسلام پر خصوصی فضل و کرم فرمایا ہے۔

علم و حکمت عطائے ربانی ہے

اس میں کوئی شک و شبہ نہیں ہے کہ حضرت شیخ الاسلام کو الله رب العزت نے حکمت و بصیرت وافر مقدار میں عطا فرمائی ہے کیونکہ حکمت و فراست ایک مؤمن کا ورثہ ہے اور اس کی عظمت کی نشانی بھی ہے، جیسا کہ ایک حدیث کے الفاظ ہیں

الحكمة ضالة المؤمن، أنى وجدها فهو أحق بها۔

حکمت مومن کی گمشدہ میراث ہے جہاں اسے پائے وہ اس کا زیادہ حقدار ہے۔

اور جب بندہ حکمت کی صفت سے متصف ہو جاتا ہے تو اُسے حکیم کہتے ہیں اور وہ اس قول کا مصداق نظر آتا ہے۔

فعل الحکیم لا یخلو عن الحکمہ۔

حکیم کا فعل حکمت سے خالی نہیں ہوتا۔

شیخ الاسلام، قابلِ رشک شخصیت

شیخ الاسلام پروفیسر ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی شخصیت قابل رشک ہے کیونکہ آپ نے ساری زندگی علم و حکمت کو پھیلانے پر وقف کی ہے، یہ قابل ذکر بات ہے کہ اس کائنات ارضی و سماوی میں جن ہستیوں پر بھی رشک کرنا جائز قرار دیا گیا ہے، ان میں سے مندرجہ ذیل دو کا تذکرہ حدیث رسول ﷺ سے یوں ملتا ہے۔

  1. مال دار جو اللہ کی راہ میں مال خرچ کرتا ہے۔
  2. حکیم یعنی حکمت والا جو حکمت سے لوگوں میں فیصلے کرتا ہے اور لوگوں کو حکمت سکھاتا ہے۔

حضور نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا :

لا حسد إلا في اثنتين: رجل آتاه الله مالا فسلطه على هلكته في الحق، ورجل آتاه الله حكمة فهو يقضي بها ويعلمها

(متفق علیہ)

رشک کرنا صرف دو آدمیوں سے ہی جائز ہے ایک وہ شخص جسے اللہ نے مال و دولت دیا ہو اور اس کو حق اور مناسب جگہ پر خرچ کرنے کی توفیق عطا فرمائی ہو، دوسرا شخص وہ ہے جِسے اللہ نے حکمت اور معاملہ فہمی عطا فرمائی ہو اور وہ اپنی حکمت سے مناسب فیصلے کرتا ہو اور لوگوں کو حکمت سِکھاتا ہو۔

اگر اس حدیث کی روشنی میں دیکھیں تو محترم شیخ الاسلام، صاحب علم و حکمت بھی ہیں اور آپ معلم حکمت بھی ہیں، آپ کا قابل فخر کارنامہ یہ بھی ہے کہ آپ نے لاکھوں ایسے افراد کو حکمت و معاملہ فہمی سکھائی ہے جو شرق و غرب، عرب و عجم میں شیخ الاسلام کے علوم و اسرار کی دولت سے انسانی معاشرے میں

امن و آشتی اور اخلاقی اقدار کے احیاء کے لیے سرگرم عمل ہیں۔

علمی تبحر و ثقاہت اور ولایت

جب شیخ الالسلام کی حکمت و علم کو درست انداز اور صحیح طریقے سے استعمال و استدلال کرنے کی مہارت کو دیکھیں تو زبان اقرار کیے بغیر نہیں رہ سکتی کہ ایسا علم نافع صرف اور صرف ایک اللہ کے ولی کی ہی میراث ہو سکتا ہے اور اسی سے کثیر خلق اور مختلف معاشرے فائدہ و ثمر پارہے ہیں۔

اگر ہم اپنے اسلاف کی کتب کا بغور مطالعہ کریں تو ہمیں چلتا ہے کہ علم ہی وہ پختہ و بنیادی ذریعہ ہے جو اہل اللہ کو اولیاء کی صف میں شامل کرتا ہے کیونکہ جاہل اور لا علم انسان کبھی ولی اللہ نہیں بن سکتا۔ جیسا کہ حضرت امام شافعی رحمتہ اللہ سے ایک قول منقول ہے آپؒ نے فرمایا:

وما اتخذ الله وليًا جاهلًا۔

اللہ تعالٰی نے کبھی کسی جاہل کو اپنا ولی نہیں بنایا۔

اسی طرح حضرت ملا علی قاری مرقاۃ المفاتیح میں بیان فرماتے ہیں :

وما اتخذ الله وليًا جاهلًا، ولو اتخذه لعلّمه

اللہ رب العزت نے کسی جاہل کو ولی نہیں بنا یا اگر کسی کو ولی

بنانا چاہا تو اسے علم عطا فر ما دیا۔

اللہ رب العزت نے شیخ الاسلام کو علم کے زیور سے آراستہ فرمایا ہے اور علم کی منازل کو عبور کرنے والا شہسوار بنایا، آپ کو بلا شک و شبہ علم طریقت اور علم شریعت دونوں پر عبور حاصل ہے۔

اسی طرح علم اولیاء اللہ کی صف میں موجود بندوں کو مقام قطبیت پر فائز کرتا ہے۔ اس بات پر حضرت شیخ عبد القادر پر جیلانی کاقول بہترین دلیل ہے۔

ڈاکٹر طاہر القادری نے اپنی فکر کی بنیاد فکرِ قرآن کو ٹھہرایا آپ ابلاغِ اِسلام میں غزالی وقت، بُخاری عصر اور فقاہتِ ابو حنیفہؒ کے امین ہیں۔

درست العلم حتى سرت قطبا
ونلت السعد من مولى الموالي

میں نے علم حا صل کیا یہاں تک کہ قطب کا درجہ پایا اور میں نے آقا و مولا کی بارگاہ میں سے سعادت پائی۔

انہیں بندگانِ خدا کی اطاعت و پیروی کرتے کرتے حضرت شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری دین و ملت اور انسانیت کی خدمات سرانجام دے رہے ہیں، لہذا ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ آپ پندرہویں صدی ہجری میں مرجع علم و حکمت کے عالی مقام پر فائز ہیں۔

اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ وہ ہمیں شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری جیسی نیک و صالح ہستیوں کے ساتھ مضبوط سنگت و رفاقت عطا فرمائے اور مشن مصطفوی کے فروغ میں دائمی استقامت عطا فرمائے۔ آمین بجاہ سید المرسلین ﷺ