کسی بھی شخصیت کی عظمت اس کے علمی توسّع اور فکری معراج سے عبارت ہوتی ہے۔ بلاشبہ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری کی حیثیت دور حاضر میں ایک ایسی دانش گاہ کی سی ہے جس کا ہر گوشہ روشن و تابناک مستقبل کی نوید کا حامل ہے۔ آپ کے کارہائے نمایاں، علمی محاسن اور تحقیقی مقالات امت مسلمہ کے لئے ذریعہ رہنمائی، قابلِ تقلید و قابل فخر ہیں۔ آپ کا شمار ان نابغہ روزگار تاریخی شخصیات میں سے ہے جن کی سوچ و فکر سے علم و دانش کی نئی راہیں دریافت ہوتی ہیں۔ جن کے جولانی قلم کی روانی سے فکری مغالطوں کی گرد چھٹتی اور صحیح سمت میں رہنمائی حاصل ہوتی ہے۔
شیخ الاسلام اپنے زمانے کے ایسے عظیم مدبر و رہنما، معلم ومصنف اور ایسی صاحب بصیرت شخصیت ہیں جنہوں نے دین کو زمانے کے در پیش چیلنجز، شکوک و شبہات اور باطل عقائد کی دھول کو عقلی و نقلی دلائل کی طاقت سے نہ صرف رد کر دیا ہے بلکہ دین پر اٹھنے والے اعتراضات اور فتنوں کا بر وقت سدباب کرکے درپیش مسائل کا حل بھی دیا ہے۔
عصری ضرورت پر اچھوتے موضوعات کا انتخاب
شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے شہر اعتکاف 2024ء میں خطابات کیلئے عصری ضرورت کے تحت بالکل اچھوتے موضوع کا انتخاب کیا۔ سائنسی علوم کو نئی نسل کےسامنے دین اِسلام کی ضد کے طور پر پیش کرنے والے ملحدین (خدا کا اِنکار کرنے والے) مختلف محاذوں پر دین کے خلاف نفرت پیدا کرکے انہیں خدا اور دین سے بیزار و برگشتہ کر رہے ہیں۔ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری نے شہرِ اعتکاف 2024ء میں ان کا علمی و فکری محاکمہ کیا ہے۔ ’’خُدا کو کیوں مانیں؟ اور مذہب کو کیوں اپنائیں؟‘‘، جسے گمراہ کُن فتنۂ اِلحاد (atheism)، لامذہبیت (agnosticism) اور دہریّت پر مبنی دین گریز رجحان و نظریات کا تسلی بخش جواب دیا، آپ نے عقلی تردید اور فلسفۂ توحید کے شرح و بسط کے ساتھ ایمان اَفروز دلائل کے ذریعہ عقلی بنیادوں پر قلع قمع کیا۔
حضور شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری نے دلنشین اور خوبصورت انداز میں حاضرین و سامعین کو دعوت فکر دیتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ :
’’وہ لوگ جو غلط مصادر اور صحبتوں کے برے اثر سے اپنے اذہان اور دل و دماغ میں تشکیک، شکوک و شبہات پیدا کر بیٹھے ہیں، جن کی دولت ایمان لٹ گئی ہے یا لٹنے کو ہے، جو ایمان کی دنیا سے اپنا یقین متزلزل کر بیٹھے ہیں، وہ اپنی آنکھیں کھولیں اور احساس بندگی سے اپنے ایمان کو مضبوط و مستحکم کر کے ایقان کے درجے پر پہنچیں۔ اللہ پر جس قدر آپ کا ایمان کامل، مضبوط اور مستحکم ہوتا چلا جائے گا اتنا ہی آپ اللہ کے قریب ہوں گے اور جتنا قریب ہوتے چلے جائیں گے اتنا ہی اللہ کے احکام آپ کی زندگی میں داخل ہوں گے اور ان احکام کی پیروی میں آپ کو لطف، لذت اور سرور ملے گا اور آپ کی بندگی نکھرتی چلی جائے گی۔ ‘‘
حضور شیخ الاسلام کی دعوت فکر و عمل سے انسان کے اندر ایک سچی کھوج کا داعیہ پیدا ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کو کہاں اور کیسے تلاش کریں؟
شہرِ اعتکاف2024ء کے خطابات کے ذریعے فکرو تدبر کی دعوت
غور و خوض اور تفکر و تدبراشرف المخلوقات کے لیے امرِ الٰہی ہے۔ تفکر کے بغیر سوچ کے دروازے نہیں کھلتے اور اگر یہ دروازے مقفّل رہیں تو تاریخ کا سفر رُک جاتا ہے اور اِرتقائے نسلِ اِنسانی کی تاریخ اندھیروں میں گم ہو جاتی ہے۔ اسلامی تعلیمات میں تدبر اور غور فکر کو بلند مقام حاصل ہے۔ اللہ رب العزت نے اپنے پاک کلام میں جا بجا اہل عقل و دانش کو خصوصی طور پر اپنی نشانیوں اور کائنات میں تدبر اورغور فکر کی دعوت دی ہے۔ اللہ رب العزت کی تخلیق کے مظاہر اور کائنات کی وسعت میں غور وفکر کرنے سے اللہ رب العزت کی معرفت اور دین اسلام کی حقانیت ثابت ہوتی ہے۔ ارشاد باری تعالی ہے:
كِتٰبٌ اَنْزَلْنٰهُ اِلَیْكَ مُبٰرَكٌ لِّیَدَّبَّرُوْۤا اٰیٰتِهٖ وَ لِیَتَذَكَّرَ اُولُوا الْاَلْبَابِ
’’یہ کتاب برکت والی ہے جسے ہم نے آپ کی طرف نازل فرمایا ہے تاکہ دانش مند لوگ اس کی آیتوں میں غور و فکر کریں اور نصیحت حاصل کریں۔ ‘‘
(ص، 29/38)
قرآن مجید پر غور وفکر کریں اور تحقیقی موازنہ کی طرف آئیں قرآن میں 856 آیات ایسی ہیں جن میں اللہ نے علم کی ضرورت واہمیت پر زور دیا ہے، جب کہ ایک ہزار کے قریب آیات میں بالواسطہ یا بلا واسطہ سائنسی حقائق بیان کیے گئے ہیں۔ قرآن مجید میں پونے دو ہزار آیات ایسی ہیں جن میں علم اور سائنس کی بات کی گئی ہے۔ ‘‘
حضور شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری نے سیاسی الحادکی بات کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ :
’’ یہ مسلمہ حقیقت ہر طالب علم جانتا ہے کہ west اور یورپ میں ان ہزار سال کو dark ages کہتے ہیں۔ یعنی یورپ میں سائنس کا سفر ایک ہزار سال رکا رہا، سائنس اور تحقیقات کو آگے نہیں بڑھنے دیا گیا۔ اگر تحقیق کو آگے بڑھایا جاتا تو علم و شعور میں ہی اضافہ ہوتا اور جب علم و شعور آتا تو جو ماحول ان طبقات نے اپنے مفادات کے لیے اور اپنے خدائی نمائندگان کی حیثیت کو برقرار رکھنے کے لیے بنا رکھا تھا اس کو چیلنج threat ہوتا لہذا وہ علم و شعور کو دبا تے رہے۔ چونکہ سٹیٹ کو طاقت کی ضرورت تھی اور یہ طاقت سائنسدان نہیں بلکہ کلیسا دیتا تھا اس لئے اس زمانے میں کلیسا اور سٹیٹ کا گٹھ جوڑ تھا۔ ‘‘
آپ نے مزید کہا:
’’موجودہ دور میں یورپ اور Western World ترقی کرکے غالب آگئی ہے اور مسلم دنیا سیاسی اور ریاستی طور پہ شکست کھا کر کمزور ہو گئی ہے۔ دنیا کی ریت ہے کہ جب کوئی سلطنت کمزور ہو جاتی ہے تو ان کا کلچر civilization، نالج سب کچھ زوال پذیر ہو جاتا ہے۔ یورپ کے ہزار سال اس لئے dark ages ہیں کہ ان میں حکمرانوں نے مذہب کے ساتھ گٹھ جوڑ کر کے سائنسی علوم کو منجمد کردیا تھا۔ اس کے مقابلہ میں اسلام سائنس کو سپورٹ کرتا تھا، حضورﷺ پر غار حرا میں جبرائیل امین جو پہلی وحی لے کر اترے وہ سائنس اور علم کے موضوع پر تھی۔
اِقْرَاْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِیْ خَلَقَۚخَلَقَ الْاِنْسَانَ مِنْ عَلَقٍۚ
’’(اے حبیب!) پڑھئے اپنے رب کے نام سے جس نے (ہر چیز کو) پیدا فرمایا۔ اس نے انسان کو (رحمِ مادر میں) جونک کی طرح معلّق وجود سے پیدا کیا۔ ‘‘
[العلق، 96: 1-2]
پہلی وحی ہی Science of Embryology کو بیان کر رہی ہے۔ جس مذہب کی پہلی وحی علم اور سائنس پر مبنی ہو وہ سائنس کو کس طرح روک سکتا تھا؟ یعنی پہلی صدیوں میں جب یورپ بالکل اندھیروں میں ڈوبا ہوا تھا تو اس وقت مسلمان پوری دنیا میں سائنس کے چراغ جلا رہے تھے۔ یوں مسلمانوں کے سائنسی کام نے صدیوں تک یورپ کو روشنیوں سے منور کیا۔ ‘‘(اقتباس از خطاب شیخ الاسلام، خطاب نمبر: Ca-17، 6 اپریل 2024ء)
چنانچہ شیخ الاسلام نے اپنے خطابات میں ایسی سائنسی دریافتوں کو پیش کیا ہے جو سائنسدانوں کو تو بیسویں صدی میں معلوم ہوئی مگر قرآن مجید ان حقیقتوں کو آج سے 1445سال پہلے متعدد مقامات پر بیان کر چکا ہے جو قرآن مجید کے کلامِ الہٰی ہونے کا بیّن ثبوت ہے۔ اگر خدا نہ ہوتا تو یہ کیسے معلوم ہوا ؟ جیسے اِرشاد فرمایاگیا ہے:
یَزِیۡدُ فِی الۡخَلۡقِ مَا یَشَآءُ
اور تخلیق میں جس قدر چاہتا ہے اضافہ (اور توسیع) فرماتا رہتا ہے۔
[فاطر، 1/35]
پھر فرمایا:
وَ السَّمَآءَ بَنَیْنٰهَا بِاَیْىدٍ وَّ اِنَّا لَمُوْسِعُوْنَ
اور آسمانی کائنات کو ہم نے بڑی قوت کے ذریعہ سے بنایا اور یقینا ہم (اس کائنات کو) وسعت اور پھیلاؤ دیتے جا رہے ہیںo
[الذّاریات،47/51]
شیخ الاسلام نے اپنے خطابات میں اِنسانی خلیوں کی اَقسام اور DNA پر بھی تفصیل سے روشنی ڈال کر فتنہ الحاد کا رد کیا ہے۔ (خطاب شیخ الاسلام، خطاب نمبر: Ca-16، 5 اپریل 2024ء)
فتنہ الحاد اور جدید سائنسی علوم
سائنسی افکار و نظریات کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ سائنس دان یہ سوچنے پر مجبور ہو گئے ہیں کہ دنیا میں جو کچھ بھی ہو رہا ہے، اس کا محرک آخر کوئی تو ہے؟ گویا سائنس نے اپنے طریقے سے اللہ تعالیٰ کے وجود کو ثابت کرنے کا راستہ دکھایا ہے کہ خدا کے وجود کے بغیر کائنات خود بخود چل ہی نہیں سکتی۔
شیخ الاسلام کے ان خطابات میں معاشرے کے تمام طبقات کے لئے غور و فکر کی کئی جہات ہیں۔ بلا شبہ یہ خطابات فتنہ الحاد کے رد میں اکسیر کی حیثیت رکھتے ہیں۔
شیخ الاسلام نے ان خطاباب میں فتنہ الحاد سے نمٹنے کے لئے دوبڑے راہنما اصول پیش کئے:
1۔ دین اسلام ایک مکمل نظام زندگی ہے اس میں کسی پرائیوٹ اور انفرادی معاملہ کا کوئی تصور نہیں ہے۔
2۔ معاشرے میں رہ کر مذہب سے لا تعلق رہنا اسلامی تصورنہیں۔
ملحدین (خدا کا اِنکار کرنے والے) جن مختلف محاذوں پر دین کے خلاف نفرت پیدا کرکے سادہ لوح لوگوں کو بیوقوف بنا رہے ہیں، اُن میں سے ایک یہ کہ وہ مذہب کو ایک پرائیویٹ اور انفرادی معاملہ قرار دے کر ذہنوں کو خدا اور مذہب سے انکار پر لے آتے ہیں۔
شیخ الاسلام نے نہایت فکر انگیز گفتگو کرتے ہوئے فرمایا:
’’بعض لوگ دوسروں کو قائل کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ پر اپنے ایمان رکھنے کا دعویٰ کرتے ہیں لیکن اپنی بے عملی کو اپنے اور اللہ تعالیٰ کے درمیان ذاتی معاملہ قرار دیتے دے کر دروغ گوئی سے کام لیتے ہیں دین پر عمل کرنا ہرگز پرائیویٹ معاملہ نہیں ہے
تو لا محالہ ایک خدا کو ماننے والا باقی دنیا سے بے خوف ہوتاہے۔ دین دشمن طاقتوں کےسامنے وہ سیسہ پلائی دیوار کی مانند ہوتا ہے۔ ان کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر جرأت کے ساتھ بات کرسکتا ہے۔ لہذا اس دور میں نوجوان نسل کو شک اور ابہام کے گرداب سے نکالنے اور ہدایت کی پر یقین راہوں پر ڈالنے کا جو فریضہ حضور شیخ الاسلام نے اپنے امسال کے خطابات 2024ء کے ذریعے ادا کیا ہے وہ انسانیت کو بے چینی سے نکال کر حالت یقین میں لانے کے لئے اپنی مثال آپ ہے۔ کیونکہ ہدایت کی ابتداء شک کے ختم ہونے سے ہوتی ہے۔ اس کے حصول کے لئے حضور شیخ الاسلام نے جو تدبیر عطا کی وہ یہ ہے کہ ایسی ساری جگہیں، دوستیاں، تعلقات، محبتیں، سنگتیں اور وہ سارا سننا اور دیکھنا جن سے تشکیک و تذبذب پیدا ہونے کا امکان ہو ان کو خیر باد کہنا ہوگا۔ اس کے سوا کوئی اور آپشن نہیں ہے۔ اگر ان کو برقرار رکھ کر ہم ایمان بالغیب، تقویٰ، یقین، کامیابیاں اور ہدایت لینا چاہیں تو یہ بات قطعی نا ممکن اور اللہ تعالیٰ کے قانون کے خلاف ہے۔
انسان خدا کی ایک منفرد اور بے مثال تخلیق ہے خدا نے ہمارے وجود میں ابدیت کا جو سافٹ وئیر انسٹال کیا ہوا ہے وہ ہماری روحانی و اخلاقی بلندی سے ہی اپ ڈیٹ رہ سکتا ہے۔ اسی لیے لازوال منزل کا شعور صرف خدا کے وجود پر یقین کے ساتھ ہی تکمیل پاسکتا ہے۔
اللہ کی رضا پر راضی رہنا درحقیقت وجودِ باری تعالیٰ پر ایمان کے ثمرات میں سے اعلی درجے کا ثمرہ ہے۔ اس امتحان اور آزمائش پر پورا اترنے کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ یہ تکالیف آزمائشیں اور مصیبتیں درجہ بدرجہ انسان کی دینی، ایمانی، روحانی ترقی کا ذریعہ بنتی ہیں۔ جتنا اس میں صبر، یقین ہو گا اتنا ترقی کرتا چلا جائے گا۔ دنیا میں تکالیف بڑے نفع کا سودا ہے۔ یہ تکالیف انسان کے لیے گناہوں کا کفارہ بن جاتی ہیں۔
توحید اور وجودِ باری تعالیٰ
عقیدہ توحید ماننے کا ایک ثمر یہ بھی ہے کہ رب تعالیٰ جو چاہے گا، جتنا چاہے گا جس کو چاہے گا اپنے فضل سے عطا فرمائے گا۔ نبی کریم ﷺ نے مکمل محنت کا حکم دیا جدوجہد کی تعلیم دی، ہمت پکڑنے کی ترغیب دی۔ لیکن فرق یہ ہے کہ غیر مسلم اسباب سے نتیجہ چاہتا ہے مومن کی شان یہ ہے کہ وہ محنت کر کے نتیجہ اپنے رب کریم پر چھوڑ دیتا ہے۔ مسلمان کی توجہات کا مکمل مرکز اللہ رب العزت کی ذات ہوتی ہے۔ ہمیں یہ حکم دیا گیا ہے کہ تم نے اپنا ہر یہ معاملہ رب تعالیٰ کے سپرد کر دینا ہے۔
حضور ﷺ فرماتے ہیں کہ اگر تم رب پر بھروسہ کرو گے تو وہ تمہیں ویسے ہی رزق دے گا جیسے پرندے کو دیتا ہے۔
عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:
لَوْ أَنَّكُمْ كُنْتُمْ تَوَكَّلُونَ عَلَى اللَّهِ حَقَّ تَوَكُّلِهِ لَرُزِقْتُمْ كَمَا يُرْزَقُ الطَّيْرُ تَغْدُو خِمَاصًا وَتَرُوحُ بِطَانًا.
(ترمذي، الصحيح، كتاب الزهد، باب في التوكل على الله، 4/373، الرقم/2344، أحمد بن حنبل، المسند، 1: 30، الرقم: 205)
’’اگر تم اللہ پر ویسے بھروسہ کرو جیسا کہ بھروسہ کرنے کا حق ہے تو تمہیں ایسے رزق دیا جائے جیسے پرندوں کو رزق دیا جاتا ہے۔ وہ صبح خالی پیٹ نکلتے ہیں اور شام کو آسودہ حال واپس آتے ہیں۔ ‘‘
رسول اللہ ﷺ ہمیں اس بات کی ترغیب دے رہے ہیں کہ ہم دنیا اور دین سے متعلق تمام کاموں میں نفع حاصل کرنے اور نقصان سے بچنے کے معاملے میں اللہ پر مکمل بھروسہ کریں جبکہ ہمارا سارا توکل بندوں پرہے۔ ایک رب کو ماننے والا انسان عزم و حوصلہ اور صبر و استقامت کا پہاڑ ہوتا ہے۔
اللہ کی ربوبیت پر جب انسان کو یقین ہو جاتا ہے کہ’’رَبَّی الله‘‘ میرا رب اللہ ہے تو اُسے نہ کوئی خوف کھا تا ہے اور نہ اسے کسی حزن کا کھٹکا ہوتا ہے۔ جو کچھ ہو رہا ہے اللہ کے اذن سے ہو رہا ہے۔ تو ضروری ہے کہ ہم اپنے رب پر بھروسہ کر کے اپنے جملہ معاملات کو اس کے سپرد کر دیں۔ اللہ تعالیٰ کبھی بھی اپنے ایسے بندو ں کو ضائع نہیں کرے گا۔ ہماری خرابی یہ ہے کہ ہم نے اللہ تعالیٰ کو چھوڑ کر اپنے آپ کو اپنی سوچ کے حوالے کیا ہے۔ نتیجتاً ہم نفسیاتی مریض بن گئے۔ اسی لئے ہم ڈپریشن اور ٹینشن کا شکار ہیں۔ اگر ہم اللہ کے دوست بن جائیں تو وہ اپنے دوستوں کو نور عطا کرتا ہے۔ فرمایا:
اَللّٰہُ وَلِیُّ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا ۙ یُخۡرِجُہُمۡ مِّنَ الظُّلُمٰتِ اِلَی النُّوۡرِ۬ؕ
’’اللہ ایمان والوں کا کارساز (دوست)ہے وہ انہیں تاریکیوں سے نکال کر نور کی طرف لے جاتا ہے۔ ‘‘
[البقرة، 2: 257]
جو لوگ یہ مان جائیں جو کچھ ہو رہا ہے ا س کے اذن سے ہو رہا ہے۔ اس کائنات کو چلانے والا وہ سمیع و بصیر ہے۔ اہل ایمان کا ولی، پشت پناہ، مددگار اور حمایتی اللہ ہے تو وہ در در کی ٹھوکریں نہیں کھاتا۔
کارکنان پر لازم ہے کہ وہ حضور شیخ الاسلام کے ان مواعظ حسنہ کو اپنی زندگی کا اوڑھنا بچھونا بنائیں اور ان کے ذریعہ معاشرے میں موجود غلط تصورات کا قلع قمع کریں۔ قول و عمل کے تضاد سے معاشرے میں کوئی مثبت تبدیلی نہیں آسکتی۔ جب بھی آپ کہیں جاتے ہیں، کسی نہ کسی کی نمائندگی کر رہے ہوتے ہیں۔ آپ نے جہاں جانا ہے وہاں آپ نے اپنی اصل کی حفاظت بھی کرنی ہے۔ یہ ذمہ داری اللہ کے دین کے نمائندوں پر زیادہ بھاری ہے کہ ان کے ہر عمل کو ان کی جماعت، مسلک اور مذہب کے ساتھ جوڑا جائے گا۔ وہ جیسے ہی کوئی غلط عمل کریں گے تو کہا جائے گا: صرف یہ نہیں بلکہ اس کی جماعت، مسلک، مذہب اور خدا ہی غلط ہے۔ جگہ جگہ جا کر ماتھا رگڑنے سے بچیں، دنیا داروں اور ظالم و جابر کے سامنے جانے سے باز رہیں۔ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری مدظلہ العالی کے خطابات 2024ء سے ہماری زندگی پر یہ اثر مرتب ہوتا ہے کہ جو بند ۂ خدا تنگی و سختی اور مصائب وآلام میں مبتلا ہوا اور اس نے صبر و عزیمت کے ساتھ سخت حالات کو برداشت کیا تو اسے کامیابی و کامرانی اور عزت و خوشحالی کی نعمتِ عظمی حاصل ہوگی۔ اس لئے کہ عزتیں اور ذلتیں اللہ تعالیٰ کی ملکیت میں ہیں۔ وہ رب تعالیٰ ہی بندے کو صحت، عمر اور رزق میں برکت عطا فرماتا ہے۔
راقمہ نے شیخ الاسلام پروفیسر ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کے شہرِ اعتکاف 2024ء کے فکر انگیز خطابات کا خلاصہ قارئین کے لیے پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔ جس میں ان خطابات کی اہمیت اور عصری ضرورت پر اظہار خیال کیا ہے۔
درج ذیل لنکس قارئین کی سہولت کے لیے دیئے جارہے ہیں جن کو وزٹ کرکے شیخ الاسلام کے شہر اعتکاف کے خطابات 2024ء سے متعلق راقمہ کے تحریر کردہ تفصیلی آرٹیکلز سے استفادہ حاصل کیا جاسکتا ہے جن کا خلاصہ اس تحریر میں پیش کیا گیا ہے۔