کسی بھی قوم کے لیے منصبِ قیادت ہر دور میں بڑا ہی اہم رہا ہے۔ قوموں کی تاریخ عروج و زوال اس منصب کے ساتھ جڑی رہی ہے۔ قیادت ہی قوم کی تقدیر خیر اور شر بنتی ہے اور قیادت صالح قوم کو ترقی و عروج کی بلندیوں تک لے جاتی ہے اور قیادت سوء قوم کو تباہی و ہلاکت کے گڑھوں میں پھینک دیتی ہے۔ قیادت کا قوم سے تعلق ایسے ہی ہے جیسا روح اور جسم کا باہم تعلق ہے۔ قیادت قوم میں روح کی طرح کام کرتی ہے۔ اگر یہ قیادت زندہ روح کی مثل ہوجائے تو یہی قوم دیگر اقوام کے لیے مشعلِ راہ ہوجاتی ہے اور اگر یہ مثل مردہ جسم کے ہوجائے تو پھر قوم ہر قدم پر ذلت و رسوائی دیکھتی ہے۔
قیادت اور قوم باہم لازم و ملزوم ہیں۔ قیادت کو قوم سےجدا نہیں کیا جاسکتا اور قوم کو قیادت سے الگ نہیں کیا جاسکتا، قوم اور قیادت کی خوبیاں مل کر قوم کا اجتماعی تشخص بنتی ہیں۔ قیادت کا سب اہم وصف اس میں قوم کا درد ہونا ہے اور قوم کے دکھوں کا مداوا کرنا ہے اور قوم کے غموں کو دور کرنا ہے اور قوم کے مسائل کو حل کرنا ہے اور قوم کی اذیتوں کا خاتمہ کرنا ہے۔ قوم کے لیے راحت و سکون کا ہر اقدام کرنا ہے، قوم کو باعزت جینے کا ہرحق فراہم کرنا ہے۔ قوم کی تکلیف کو اپنی تکلیف سمجھنا ہے اور حقیقی قیادت وہ ہے جو قوم کے لیے زندہ رہے اور قوم کی خاطر اپنی جان سے بھی گذر جائے۔ اس لیے مثالی قیادت وہ ہے جو اپنی قوم کی ہر حال میں مددگار ہو، قوم کی مصیبت کا نہ صرف اس کے پاس حل ہو بلکہ وہ اس مصیبت کو قوم سے رفع کرنے کے لیے سب سے آگے آگے ہو۔ وہ قوم کی آنکھوں میں خوشیاں دیکھنے کے لیے بے تاب ہو، وہ قائد قوم، ہر شخص کی حاجات پوری کرنے کے لیے ایسا ہی تڑپتا ہو جیسے اپنے زیرِ کفالت افراد کے لیے فکر مند رہتا ہے۔
رسول اللہ ﷺ کا احساسِ امت
قرآن نے قائد الانس اور رہبر ذریت آدم اور قائدِ سیدالاولین و الآخرین کے اس وصف قیادت کا یوں تذکرہ کیا ہے۔ ارشاد فرمایا:
عَزِیْزٌ عَلَیْهِ مَا عَنِتُّمْ۔
’’ تمہارا تکلیف و مشقت میں پڑنا ان پر سخت گراں (گزرتا) ہے۔ ‘‘
(التوبۃ، 9 : 128)
رسول اللہ ﷺ جب بھی کسی انسان کافر اور انسان مومن کو دیکھتے تو اس کے احوال کے مطابق اس کی تکالیف کو محسوس کرتے تھے، عزیر کا معنی ہی مشقت، ہلاکت اور فساد میں پڑنے پر تکلیف محسوس کرنے کے ہیں رسول اللہ ﷺ ہر امتی کی تکلیف کو رب کی اس عطا کردہ شان کے ساتھ محسوس کرتے تھے۔ اس لیے امتی کی تکلیف نبی کی تکلیف بنتی ہے، امتی کی مشقت نبی کی مشقت بنتی ہے۔ رسول اللہ ﷺ جب کسی کافر کو دیکھتے تو اس کا کفر اور شرک میں پڑنا آپ پر شاق گزرتا اور ان کا انجام بد آپ کو تکلیف دیتا اور ان کا ہلاکت میں پڑنا رسول اللہ ﷺ کے قلبِ اطہر کو حزیں کرتا، کفر سب سے بڑی لعنت اور انسانی ہلاکت ہے۔ کفر کے مرتکب انسانوں کا یہ عمل رسول اللہ ﷺ پر اتنا شاق گذرتا کہ باری تعالیٰ کو اپنے رسول کو مخاطب کرکے یہ کہنا پڑتا۔
وَ لَا یَحْزُنْكَ الَّذِیْنَ یُسَارِعُوْنَ فِی الْكُفْرِ ۚ
’’ (اے غمگسارِ عالم!) جو لوگ کفر (کی مدد کرنے) میں بہت تیزی کرتے ہیں آپ ان کا غم نہ کریں۔ ‘‘
(آل عمران، 3: 176)
غزوہ بدر کے قیدیوں کو جب مسجد نبوی کے پاس قید کیاگیا، ان قیدیوں کے کراہنے کی آوازوں کی وجہ سے رسول اللہ ﷺ کو رات بھر نیند نہ آئی۔ رسول اللہ ﷺ کا کرب و اضطراب ہر لمحہ بڑھتا رہا، ایک انصاری صحابی نےپوچھا یارسول اللہ ﷺ آپ کی طبیعت میں کچھ تکلیف کا احساس ہورہا ہے۔ فرمایا عباس کے کراہنے کی آوازیں کانوں میں پڑ رہی ہے۔ اس لیے میں بے چین ہوں، اس انصاری صحابی نے چپکے سےحضرت عباس کی مشک کو کھول دیا انہیں آرام مل گیا تو وہ آرام کرنے لگے۔ وہ انصاری صحابی اب دوبارہ حاضر خدمت ہوا، تو رسول اللہ ﷺ نے پوچھا اب عباس کی آواز نہیں آرہی ہے۔
انصاری صحابی نے عرض کیا میں نے ان کے بندھن کھول دیئے ہیں۔ فرمایا جاؤسب قیدیوں کے ساتھ ایسا ہی کرو چنانچہ سب قیدیوں کے ساتھ ایسا ہی کیا گیا۔ تب رسول اللہ ﷺ نے آرام و استراحت کیا، آپ کا کرب و اضطراب دور ہوا اس کے بعد آپ ﷺ خواب شیریں سے استراحت گزیں ہوئے۔ اگر دیکھا جائے تو یہ وہی قیدی ہیں جنھوں نے 13 سال تک متواتر اہل ایمان کو تڑپایا تھا اور رسول اللہ ﷺ کو بھی مسلسل ستایا تھا۔ انھوں نے ہی ہر کمزور مسلمان کو آگ پر لٹایا تھا اور کسی مسلمان کو خون میں نہلایا تھا۔ کسی کو بھاری پتھروں کے نیچے دبایا تھا۔ کسی کو سخت اذیتوں کے بعد خاک خون میں سلایا تھا۔ پھر بھی رحمت عالم کی طرف ان کے لیے یہ انتہائی نرمی، بے پناہ کرم نوازی اور یہ سلوک رحمدلی کیوں تھا۔ اس لیے کہ یہ آپ ﷺ کے منصب کا تقاضا تھا اور آپ کے کردار احسن سے مشیت ایزدی کا یہی مطالبہ تھا۔ وماارسلنک الا رحمۃ للعالمین۔
قیادت سب کا احساس رکھنے والی ہوتی ہے
رسول اللہ ﷺ کی مہربانی سب کے لیے بلا امتیاز تھی، حضرت عباس کے بندھن کھولے گئے تو فرمایا سب قیدیوں کے ساتھ بھی ایسا ہی کیا جائے۔ جب سب کے سب قیدیوں کے بندھن کھولے گئے تو آپ کی جان میں جان آئی۔ اس لیے قائد و رہبر وہی ہے جس کو قوم کی تکلیف اپنی ذات کی تکلیف لگتی ہے۔ اس قائد و رہبر کو ہر حال میں چشمہ عزیزٌ علیہ ماعنتم سے فیضیاب ہونا چاہیے۔ اگر قوم کا احساس جدا رہا اور اس کا احساس الگ رہا تو وہ قوم کا سچا رہبر اور مخلص راہنما نہیں ہے۔
قیادت کا وصفِ کمال، دشمن کا بھی احساس ہونا
اہلِ مکہ قحط کا شکار ہوتے ہیں سردار مکہ ابوسفیان مدینہ منورہ حاضر ہوتا ہے اور رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں عرض کرتا ہے۔ آپ ﷺ نے ہمیشہ احسان اور صلہ رحمی کی تعلیم دی ہے۔ ہم آپ ﷺ کے قرابتی ہیں اس وقت مکہ میں قحط کی وجہ سے آپ سے ملتجی اور خواستگار مددو نصرت ہیں، احسان فرمایئے۔ ہمیں کچھ ساز و سامان بھجوایئے۔ رسول اللہ ﷺ نے سردار نجد ثمامہ بن اثال کو جو دولت ایمان سے مشرف ہوچکا تھا اسے پیغام بھجوایا، اہل مکہ کو غلہ بھجوانے کا فوری اہتمام کرے۔ اس کے علاقے میں اناج کثرت سے تھا، اس نے غلے کو روک رکھا تھا۔ اس لیے اہل مکہ دشمن رسول بنے ہوئے تھے۔ اگرچہ اس نے منفعت تجارت کو بھی نظر انداز کردیا تھا مگر جوں ہی حکمِ رسول ﷺ ملا اہل مکہ کی طرف غلے کی ترسیل کو یقینی بنادیا۔ یوں ان کی طرف سے غلہ پہنچنے پر اہل مکہ کی قحط کی وجہ سے جسم سے نکلتی ہوئی جان پھر جان بدن ہوئی۔ رسول اللہ کا یہ کردار، قائد الانسان اور الرسول ھو القائد کی بنا پر عزیز علیہ ماعنتم کی روح کا آئینہ دار تھا۔ (قاضی محمد سلیمان، منصور پوری، رحمۃا للعالمین، مکتبہ اسلامیہ لاہور، ص96)
وصف قیادت، قوم کی خیر خواہی اور مفادات سے بے نیازی
قوم کا سچا راہنما وہی ہے جو قوم کے لیے اسوہ رسول ﷺ کی پیروی میں حریصٌ علیکم کا پیکر بھی ہو، رسول اللہ ﷺ بحیثیت، قائد اپنی قوم اور سب لوگوں کے لیے نفع رسائی کے شدید طالب تھے، آپ کو سب کی صلاح و فلاح اور رفاہ کی شدید آرزو تھی۔ آپ سب کے دلوں میں ایمان کی شمع جلتے ہوئے دیکھنا چاہتے تھے۔
وَ مَاۤ اَكْثَرُ النَّاسِ وَ لَوْ حَرَصْتَ بِمُؤْمِنِیْنَ
’’ اور اکثر لوگ ایمان لانے والے نہیں ہیں اگرچہ آپ (کتنی ہی) خواہش کریں۔ ‘‘
(یوسف، 12: 103)
یہ آیہ کریمہ اسی حقیقت کو بیان کرتی ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی منتہائے نظر اور کمال آرزو یہی تھا کہ تمام خلق کی جبینیں مالک حقیقی وحدہ لاشریک کے حضور جھک جائیں، رب واحد کا دین واحد ہی تمام لوگوں کو متحد و متفق کرنے والا ہو۔ رسول اللہ ﷺ کو اس آرزو اور اس مقصد اور اس نصب العین سے ہٹانے کے لیے سردارقریش عقبہ نے ایک بہت بڑی آفر آپ کے سامنے رکھی اور اس نے کہا اگر آپ کو دنیا کی دولت درکار ہے تو آپ کے پاس سب سے زیادہ مال و زر جمع کردیں گے۔
اگر آپ ﷺ ریاست کے حاکم بننا چاہتے ہیں تو ہمارے رئیس و حاکم آپ ﷺ ہی ہوں گے، اگر آپ سارے عرب کی سرداری چاہتے ہیں تو آپ ﷺ ہی ہماری طرف سے سارے عرب کے سردار ہوں گے۔ رسول اللہ ﷺ نے اس آفر کے جواب میں اتنا فرمایا نہ مجھے زر و دولت کی ضرورت ہے نہ ریاست و حکومت کی آرزو ہے میں تو رب العالمین کا پیغام توحید لے کر آیا ہوں۔ اسی پیغام کو ہر سننے والے کان تک پہنچانا میری زندگی کا مقصد وحیدہے۔
قیادت کی کارکنوں کے لیے شفقت و محبت
اس طرح قائد و راہنما وہ ہے جو اپنے لوگوں، اپنے ساتھیوں اپنے کارکنوں کے ساتھ انتہائی پیار کرنے والا ہوا اور ان کے لیے نہایت مہربان ہو۔ سب انسانوں کے لیے قابل مثال اور قابل تقلید اور قابل رشک ہو۔ اس کی سیرت و شخصیت سب کے لیے قابل تقلید ہو۔ باری تعالیٰ نے فرمایا:
بِالْمُؤْمِنِیْنَ رَءُوْفٌ رَّحِیْمٌ
’’ (اور) مومنوں کے لیے نہایت (ہی) شفیق بے حد رحم فرمانے والے ہیں۔ ‘‘
(التوبۃ، 9: 128)
اس آیہ کریمہ میں رسول اللہ ﷺ کا وصف بحیثیت قائد و رہبر رؤف اور وصف رحیم کا ذکر کیا گیا ہے۔ لفظ رؤف، رافت سے، اسم مبالغہ کا صیغہ ہے اور لفظ رحیم، رحم سے صفت مشبہ کا صیغہ ہے۔ لفظ رؤف اسم مبالغہ کی وجہ سے اپنے معنی رافت میں محبت پیار اور چاہت کی کثرت اور فراوانی کا تقاضا کرتا ہے۔ رؤف انسان کی اس حالت کو بیان کرتا ہے جس میں وہ دوسرے انسانوں سے بہت زیادہ پیار کرنے والا ہو اور دوسروں کو بہت زیادہ چاہنے والا ہو اور دوسروں سے بے پناہ محبت کرنے والا ہو۔ ایسا انسان ہی منصب قیادت کے لائق اور قابل اعتبار ہوتا ہے جبکہ دوسرا لفظ رحیم اپنے معنی میں صفت مشبہ کا صیغہ ہونے کی وجہ سے یہ مفہوم رکھتا ہے کہ وہ ذات جس کی ذات کے ساتھ لفظ رحیم و رحمت لازم و ملزوم ہیں اور وہ ذات جس کے وجود میں رحمت کا حقیقی اور کامل معنی اس طرح پایا جاتا ہے کہ وہ ذات رحمت سے جدا نہیں اور رحمت اس سے الگ نہیں ہے۔
اس لیے باری تعالیٰ نے آپ ﷺ کی سب سے بڑی اور عظیم شان کا تذکرہ کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:
وَ مَاۤ اَرْسَلْنٰكَ اِلَّا رَحْمَةً لِّلْعٰلَمِیْنَ
’’ہم نے آپ کو سارے جہانوں کے لیے رحمت بناکر بھیجا ہے۔ ‘‘
(الانبیاء، 21: 107)
رحیم اس ذات کو کہتے ہیں جو دائم الرحمت ہو، جس کی ذات میں رحمت کا غلبہ ہو، رحمت کا تقاضا ہے۔ ہر امر عام اس طرح بجا لایا جائے کہ وہ دوسروں کے لیے زحمت نہ رہے اور وہ امر دوسروں کے لیے اذیت نہ رہے اور وہ مسئلہ دوسروں کے لیے مصیبت اور آفت نہ رہے۔ اس بنا پر رسول اللہ ﷺ وعظ کو طوالت سے بچایا کرتے تھے تاکہ آپ کا وعظ دوسروں کےلیے تکلیف و اذیت نہ بنے اور نہ ہی دوسروں کی طبیعتوں پر گراں گذرے۔ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ روایت کرتے ہیں:
کان النبی اللہ یتخولنا بالموعظۃ مخافۃ السامۃ علینا۔
نبی اکرم ﷺ ہمیں گاہے بگاہے وعظ کیا کرتے تھے اس اندیشے سے کہ روز روز کا وعظ سننا ہم پر گراں نہ گزرے۔
قیادت کے لیے وصف رحمت و رافت کا لزوم
رسول اللہ ﷺ کا یہ اصول از راہ شفقت و رافت تھا کہ سامعین جس قدر بھی سنیں وہ نشاط طبع کے ساتھ سنیں اور حضور قلب و ذہن کے ساتھ سنیں تاکہ آئندہ کے لیے بھی شوق تمام باقی رہے، اس طرح جب آپ ﷺ حالت نماز میں کسی بچے کے رونے کی آواز سنتے تو نماز کو مختصر کردیتے تھے تاکہ ماں بچے کی خبرگیری کرلے، اسی طرح آپ خود سوار ہوکر کسی پاپیادہ کو ہمرکاب چلنے کی اجازت نہ دیتے تھے۔ اگرچہ صحابہ کرامؓ اس کی پرزور تمنا ہی کرتے رہتے تھے اس کے باوجود ان کو منع کردیتے تھے یا اپنے ساتھ سوار کرلیتے تھے یا واپس لوٹادیتے تھے۔
اسی طرح عادت مبارکہ یہ تھی جب کوئی مسلمان مقروض فوت ہوجاتا تو اس کا قرض بیت المال سے تدفین سے قبل ادا کردیا کرتے تھے مگر خود کسی مردہ کا مال قبول نہ کیا کرتے تھے۔ کوئی کسی کی غیبت کرتا تو اس کو منع کردیتے تھے۔ فرمایا کرتے میرے سامنے کسی کی غیبت نہ کیا کرو میں نہیں چاہتا کسی کی طرف سے میری صاف دلی میں فرق آئے۔ (قاضی سلیمان منصور پوری، رحمۃ للعالمین، مکتبہ اسلامیہ لاہور، ص 103)
قیادت عصر اور وصف رحمت و رافت کا اظہار
رسول اللہ ﷺ کی یہ شان روف رحیم، ہر منصب قیادت پر فائز ہونے والی شخصیت، قائد و رہبر سے تقاضا کرتی ہے کہ وہ مخلص و جانثار ساتھیوں اور وفادار و محنت شعار کارکنوں کے ساتھ رحمت و رافت کا سلوک کرے، ان کے ساتھ اس کا یہ برتاؤ مثالی ہو۔ جب ہم قیادت عصر کے پیکر عظیم شیخ الاسلام کو قیادت کے اس معیار پر دیکھتے ہیں تو وہ اپنے کارکنوں کے لیے ہمیشہ ایک سائبان رحمت اور ایک پاسبان رافت بنے ہوئے نظر آتے ہیں، وہ اپنے کارکنوں کو اپنی جان سمجھتے ہیں ان کی ضرورت کا بے پناہ احساس رکھتے ہیں۔ ان کی تکلیف کو اپنی تکلیف جانتے ہیں۔
پریشانی کی گھڑی میں ان کی خبر گیری کو اپنی اولین ذمہ داری سمجھتے ہیں، ان کے دکھوں اور غموں کو دور کرنا اپنی ترجیح حیات جانتے ہیں، اپنے کارکنوں کی ذہنی، فکری، عملی اور اخلاقی تربیت ہی اس طرح کرتے ہیں کہ وہ اپنی ذات کے علاوہ دوسروں کے بھی خیر خواہ نظر آتے ہیں۔ مختلف مہمات اور مختلف واقعات اور مختلف حادثات میں متاثر کارکنوں کی دلجوئی، ان کی ہمدردی و خیرخواہی کو اپنا فرض اولین بنالیتے ہیں۔ اپنے کارکنوں سے ان کا پیارو محبت بھی مثالی ہے۔ جانثار کارکنوں کی قربانیاں ان کو مہ و سال گزرنے کے باوجود بھی بھولنے نہیں پاتیں۔ کارکن سے ان کا رشتہ جسم و روح کی طرح کا ہے۔ ان کی محبت اور ان کی چاہت، کارکنوں کے لیے سرمایہ حیات ہوتی ہے، کارکن ان پر جانثار ہوتے ہیں اور وہ کارکنوں پر فدا ہوتے ہیں۔ (قاضی سلیمان منصور پوری، رحمۃ للعالمین، مکتبہ اسلامیہ لاہور، ص 104)
شیخ الاسلام میں عرفانِ الہٰی کا وصف کمال
اسی طرح قیادت کے لیے اصل خوبی اور ارفع کمال یہ ہے کہ وہ عرفانِ الہٰی کی نعمت سے بھی مالا مال ہو، عرفان و معرفت کا چراغ اس کو شاہراہ حیات پر صحیح سمت مرتکز رکھے، اور وہ صراط مستقیم پر ہی ثابت قدم ہو اور وہی عرفان اسے دنیوی اور اخروی زندگی میں بھی کامیابی سے ہمکنار کرے۔ جب ہم شیخ الاسلام کی ذات میں اس وصف قیادت کا مطالعہ کرتے ہیں تو ان کی ذات میں عرفان الہٰی کا چراغ اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ جل رہا ہے اور اسی عرفان الہٰی کے چراغ سے ان کی ساری منازل طے ہورہی ہیں اور اس معرفت کے دیے کو جلانے کے لیے انھوں نے بڑی محنت وریاضت اور عبادت و مجاہدے کیے ہیں اور اپنی ابتدائی حیات کو معرفت کی مضبوط راہوں پر استوار کیا ہے۔ جس میں ثابت قدمی کی وجہ سے وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ قوت ان میں ناقابل شکست ہوگئی ہے اور اسی قوت عرفان سے ہی وہ تحریکی زندگی کی کٹھن راہوں میں آگے بڑھے ہیں۔
اور اب وہ معرفت کا سلسلہ بحر بے کناراں کی طرح ان کی حیات میں موجزن ہے۔ معرفت کا یہ چراغ زہدو ورع، تقویٰ و للہیت کے جن اسباب اور مجاہدوں سے روشن ہوتا ہے انھوں نے ان کا خوب اور بے مثال ہر دور میں بے حساب اہتمام کیا ہے۔ اسی عرفان الہٰی کی برکت سے وہ اپنے اندر علم ظاہر اور عالم باطن کی دولت جمع کرتے چلے گئے ہیں۔ علم ظاہر بھی ان میں ایک بہت بڑی قوت کے ساتھ ظاہر ہوا ہے اور علم باطن بھی ان میں زمانے کی ایک بہت بڑی حقیقت کے ساتھ موجزن ہوا ہے۔
شیخ الاسلام کا امتیاز و تفرد
انھوں نے اپنے علم سے بہت سے مسائل کو حل کیا ہے اور علم باطن سے بہت عذروں کو واہ کیا ہے۔ انھوں نے اپنے علم ظاہر کو علم عصر کی ہر صنف سے مزین اور مستنیر کیا ہے اور اپنے علم باطن کے ذریعے معاشرے میں زندہ کردار پیدا کیے ہیں۔ انھوں نے معرفت کو جزوی نہیں بلکہ کلی حیثیت سے دیکھا ہے۔ ان کے عرفان الہٰی کے چراغ نے اپنے ہر ہمنشین کی تمام تر طبعی مقنضیات کو مکمل کیا ہے۔ کسی کو تشنہ نہیں رہنے دیا۔ ان کی منزل عرفان نے ان کو دنیا داروں کے سامنے مرعوب نہیں ہونے دیا بلکہ ان کے اندر جلنے والا عرفان الہٰی کا چراغ ہمیشہ نصرت بالرعب سے مستنیر رہا ہے۔ اسی چراغ معرفت نے انہیں فضلت علی الناس میں ایسا منفرد بنایا ہے کہ وہ بڑے سے بڑے مجمع کو ایک ہی آواز کے ساتھ جامد و سکت کردیتے ہیں۔
کلہم علی یدہ واحد علی من سواھم کی قوت وحدت بن جاتے ہیں۔ اتحاد و یگانگت کی ایک مثال زندہ بن جاتے ہیں، انھوں نے اپنے علم باطن کو ذریعہ رشد و ہدایت بنایا ہے۔ ہزاروں لوگوں کو بذریعہ رویا و منام راہ حق پر گامزن کیا ہے۔ یہ سبب ظاہری نہیں ہے بلکہ سبب باطن ہے۔ یہ منام ہر کسی کے لیے حجت نہیں ہے مگر جس پر اس رویت و منام کا ورود ہوا ہے یہ اس کے یقین و اعتماد کا لازوال ذریعہ ہے اور اس کے اعتقاد و اعتماد کو زمانہ آج تک نہ شکست دے سکا ہے اور نہ اس میں معمولی سا بھی تغیر کرسکا ہے۔ رویا و منام کے سلسلہ ہدایت نے ہی اس کو وہ یقین عطا کیا ہے جس کے سامنے علم ظاہر اتنی زیادہ طاقت و قوت نہیں رکھتا ہے۔
میں نے خود ایسے بے شمار نوجوانوں سے ان کے احوال حیات سنے ہیں جن کی رات، شراب اور کباب میں بسر ہوتی تھی۔ ان کی زندگی میں شیخ الاسلام کی روحانی راہنمائی سے وہ تغیر آیا کہ ان کا چہرہ یورپ کے نائٹ کلب سے نہ ہٹنے والا سجدے کی معرفت اور لذت سے آشنا ہوگیا۔ جن نوجوانوں کو اپنے بھٹکنے پر یقین تھا وہ راہ راست اور صراط مستقیم پر آگئے جو اجڑ چکے تھے وہ پھر سے آباد ہوگئے۔ زمانے کا حقیقی لیڈر وہی ہے جو علم ظاہر میں بھی طاق ہو اور مستند بھی ہو اور مسلم بھی ہو۔ خود اس کا وجود علم کی دنیا میں بھی حجت و دلیل ہوجائے اور اس کا نام خود ایک حوالہ بن جائے۔ باری تعالیٰ نے یہ ساری صفات قیادت شیخ الاسلام کی ذات بابرکات میں بدرجہ اتم رکھی ہیں اور اس طرح آپ علم باطن میں بھی اپنے اسلاف کی زندہ تصویر ہیں اور آپ کی صحبت کیمیا سے زندہ کردار تشکیل پاتے ہیں اور زمانے نے اس منظر پر بھی اب تک شہادتوں کے انبار لگادیئے ہیں۔ علم معرفت کے اس بہتے ہوئے بے کنار سمندر کے لیے اتنا ہی کہا جاسکتا ہے۔
ذٰلِكَ فَضْلُ اللّٰهِ یُؤْتِیْهِ مَنْ یَّشَآءُ ؕ
’’یہ اللہ کا فضل ہے جسے چاہتا ہے عطا کرتا ہے۔ ‘‘
(الجمعۃ، 62: 4)
ہر مسئلے کا عرفان قیادت کا وصف برہان ہے
قیادت میں عرفان الہٰی کا چشمہ جب جاری ہوتا ہے تو اس کی آنکھیں اس نور معرفت کی وجہ سے برسات نما ہوجاتی ہیں۔ ان سے سوز و گداز کی وجہ سے آنسوؤں کی ایک جڑی شروع ہوجاتی ہے اور ان کی پہچان
تَفِیْضُ مِنَ الدَّمْعِ۔
’’ان کی آنکھوں سے آنسو بہتے ہیں۔ ‘‘
(المائدۃ، 5: 83)
اسی عرفان الہٰی کی منزل کو پاکر وہ ہستی بندوں کو بھی حقیقی عرفان اور اس کی ظاہری صورتوں سے ہمکنار کرتی ہے۔ اس وجہ سے کہ
مِمَّا عَرَفُوْا مِنَ الْحَقِّ ۚ
’’کیونکہ انہوں نے حق کو پالیا ہے۔ ‘‘
(المائدۃ، 5: 83)
معرفت کسی شے کی ذاتی شناخت ہے۔ علم اُس شے کے اندر کے احوال کو پالیناہے۔ معرفت محض تصور ہے جبکہ علم اس کی تصدیق ہے۔ معرفت میں بندے کا راس مال یہی ہے کہ وہ اپنے مقام بندگی سے آشنا ہوتا ہے اور اپنے خالق و مالک کا عرفان پاتا ہے۔ یہی احساس اور یہی شناخت ہی بندے کے لیے رہبر و راہنما بن جاتی ہے۔ معرفت ہی ہے جو بندے کے لیے لون و الوان عبدیت بنتی ہے۔ کبھی بندے میں صبر کا رنگ پایا جاتا ہے اور کبھی بندے میں نعمت الہٰیہ پر شکر گزاری پائی جاتی ہے۔ کبھی بندہ وعدہ صدق کی بنا پر اپنے قلب میں بشارت کی نوید سنتا ہے۔ کبھی وہ وعدہ الہٰی کی تکمیل پر عاجزی و انکساری کا اظہار کرتا ہوا نظر آتا ہے۔ یہ معرفت قیادت کے منصب پر فائز ذات و شخصیت کے لیے ایک نور عرفان بن جاتی ہے جس سے ہر خاص و عام قیادت کا شناسا بن جاتا ہے۔
قیادت کا مقام عرفانِ تام ہے
قیادت کی سب سے بڑی خوبی یہی ہے کہ اپنے چاہنے والوں کی چاہت سے باخبر ہو اور ان کی تمناؤں سے آشنا ہو اور وہ قیادت اپنے کارکنوں کی آرزوؤں کا حاصل ہو۔ قیادت کو عرفان کارکن یا عرفان ہو اور کارکن کو عرفان قائد ہو۔ جب ہم اس وصف عرفان کو شیخ الاسلام کی قیادت میں ان کے کارکنوں کے حوالے سے دیکھتے ہیں تو یہ وصف بڑا ہی منفرد اور ممتاز نظر آتا ہے۔ وہ اپنے کارکنوں، عہدیداروں اور اپنے جانثاروں کو اسی طرح پہچانتے ہیں جیسے اپنے قریبی لوگوں کو جانتے ہیں۔ ہر ایک کے ساتھ جڑی یادوں کو وہ ایسے بیان کرتے ہیں جیسے ان کے خاندانی فرد کی کوئی یاد ہو۔ اس لیے کہ وہ مشن کے لوگوں کو اپنا خاندان ہی سمجھتے ہیں۔ قیادت کا یہ عمل انتہائی قابل رشک ہے۔ قیادت اور کارکن کا یہ تعلق ان کے باہمی روابط کو اور انسانی زندگیوں کو بھی مختلف جہتوں کی طرف منتقل کردیتا ہے۔
قیادت عقل و حکمت کی آئینہ دار ہو
اسی طرح سچی، سُچی، قابل اور باصلاحیت قیادت وہ ہے جو عقل سے بھرپور ہو اور جس کا ہر قول اور ہر فعل اور ہر خلق عقل سے معمور ہو اور اس کی عقل قدم قدم پر حکمت سے پرنور ہو۔ اس کا ہر فیصلہ عقل و بینش سے مزین ہو، اس کا ہر اقدام عقل کی بلندیوں کو چھونے والا ہو۔ اس کا ہر تعارف عقل و حکمت کا جامع ہو۔ اس کا کوئی بھی فعل عقل سے عاری نہ ہو۔ یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے عقل کو اپنے دین کی اصل اور جڑ قرار دیاہے۔ گویادین کی ساری بنیادیں عقل پر کھڑی ہیں، دین کا ہر حکم عقل کو اپنی اساس رکھتا ہے۔ دین کے ہر امر کو عقل کے میزان پر تولا اور پرکھا جاتا ہے۔ عقل انسان کا شرف امتیاز ہے اور دین اسلام کا سبب افتخار بھی عقل ہی ہے۔ ہر حکم کی علت انسانی عقل کو اپیل کرتی ہے۔ دین کی ہر حکمت عقل پر استوار ہے۔ قرآن تو واضح اعلان کرتا ہے کہ اس کی ہر آیت کی کامل تفہیم، کامل عقل والوں کے لیے ہی ممکن ہے۔ اس لیے ارشاد فرمایا:
كَذٰلِكَ نُفَصِّلُ الْاٰیٰتِ لِقَوْمٍ یَّعْلَمُوْنَ
’’ اس طرح ہم جاننے والوں کے لیے آیتیں تفصیل سے بیان کرتے ہیں۔ ‘‘
(الاعراف، 7: 32)
اسی طرح ایک اور مقام پر ارشاد فرمایا ہم نے روشن نشانات ان کے لیے چھوڑے ہیں جو عقل والے ہیں ارشاد فرمایا:
وَ لَقَدْ تَّرَكْنَا مِنْهَاۤ اٰیَةًۢ بَیِّنَةً لِّقَوْمٍ یَّعْقِلُوْنَ
’’ اور بے شک ہم نے اس بستی سے (ویران مکانوں کو) ایک واضح نشانی کے طور پر عقلمند لوگوں کے لیے برقرار رکھا۔ ‘‘
(العنکبوت، 29: 35)
عقل اور علم باہم لازم و ملزوم ہیں، اسلام کا ہر حکم علم اور عقل کی نشاندہی کرتا ہے۔ اس لیے ارشاد فرمایا:
وَ مَا یَعْقِلُهَاۤ اِلَّا الْعٰلِمُوْنَ
’’ اورانہیں اہلِ علم کے سوا کوئی نہیں سمجھتا۔ ‘‘
(العنکبوت، 29: 43)
دین کا ہر امر انسان کو عقل کی گہرائیوں کی طرف لے جاتا ہے اور دین کی معرفت انسانی عقل کو تیز سے تیز تر کرتی ہے۔ دین کا گہرا فہم انسانی عقل پر بھی منحصر ہے۔ جس قدر انسانی عقل کامل ہوگئی اس قدر دین کی بصیرت و فراست میں بھی اضافہ ہوگا۔
شیخ الاسلام کا وصف قیادت اور عقل انسانی کا بھرپور استعمال
اسی بنا پر قیادت پھر وہ ہے جو اپنے زمانے کی انسانی عقل پر حاوی ہو، اس کا ہر فعل اور ہر اقدام انسانی عقل کو روشن و تاباں کرتا جائے۔ جب ہم شیخ الاسلام کی شخصیت اور ان کی قیادت کو انسانی عقل کے تناظر میں دیکھتے اور پرکھتے ہیں تو انھوں نے اپنی تحریک کو اہل زمانہ کے سامنے پیش کرنے کے حوالے ایک لازمی عنصر The Rational and scientific presentation of islam سائنٹفک انداز سے اسلام کا فروع کیا ہے۔
یہی وجہ ہے ان کی تقریر ہو یا تحریر ہو، ان کا کوئی بھی قول ہویا فعل ہو۔ تحریک کے لیے ان کا کوئی جلسہ ہو یا مرحلہ ہو۔ ہر ہر چیز عقل سے معمور اور بھرپور دکھائی دیتی ہے۔ وہ اپنی ہر بات عقل کے میزان پر تول کر بولتے ہیں وہ اپنا ہر جملہ عقل کے پیمانے پر پرکھ کر تحریر کرتے ہیں۔ وہ اپنی ہر تقریر کو عقل کا آئینہ دار بناتے ہیں۔ وہ اپنی دعوت کی اساس اور بنیاد ہمیشہ عقل پر استوار کرتے ہیں۔ وہ خود کو عقل سے جدا نہیں کرتے اور عقل اس بنا پر ان کو خود سے جدا نہیں کرتی۔ انھوں نے اپنوں اور غیروں کو عقل کی قوت کے ساتھ تسخیر کیا ہے۔ عقل والوں کے ذہنوں پر ان کی دستک ہمیشہ کامیاب ہوئی ہے۔ عقل کی بات شیخ الاسلام کو کہنے کا بڑا فن ہے۔ انھوں نے عقل کی قوت سے اپنے زمانے کی بڑی بڑی عقل والوں کو حیران کیا ہے۔
ہر انسان کا دوسرے انسان سے مایہ الامتیاز فکری پہلو عقل ہی ہے۔ اگر عقل سے روشنی لی جائے اور عقل کو اپنا قول کا لازمی جامہ بنایا جائے تو پھر عقل بے شمار معاملات میں کامیابی سے ہمکنار کرتی ہے۔ شیخ الاسلام نے عصر حاضر میں عقل انسانی سے خوب سے خوب کام لے کر عقل اور اسلام کو اپنی تحریر اور تقریر میں باہم لازم و ملزوم کیا ہے۔ یہی وجہ ہے انھوں نے اپنے ناقد فکر کو بھی اپنا عاقد نظر بنایا ہے۔ تنقید پسند کو بھی عقیدت مند بنایا ہے۔ معترض کو بھی محب بنایا ہے۔ منکر کو بھی معترف کیا ہے۔ ہر ناممکن عمل و تعلق کو بھی ممکن بنایا ہے۔ مشکل کو بھی آسان بنایا ہے۔ جامد کو بھی متحرک بنایا ہے۔ غیر متغیر کو بھی متغیر بنایا ہے۔ بے شعور کو باشعور بنایا ہے۔ انھوں نے انسانی عقل سے عقل انسانی کو فزوں تر کیا ہے۔ بداعتماد کو بے پناہ اعتماد دیا ہے، بے بس کو طاقتور بنایاہے۔
شیخ الاسلام کی دعوت دین اور انسانی عقل
انسانی عقل بہت بڑی قوت ہے اور یہ انسانی زندگی میں ایک ناقل تسخیر قوت بھی ہے اور یہ ہمیشہ سے انسانوں کے پاس ایک زندہ قوت رہی ہے۔ شیخ الاسلام نے اس زندہ قوت کو استعمال کرکے اپنی تحریک کو ایک نئی شان اور ایک نئی آن عطا کی ہے۔ اس لیے وہ اطاعت و اتباع رسول ﷺ میں یہی کہتے پھرتے ہیں۔
العقل اصل دینی، میرے دین کی اصل عقل ہے۔
اس حدیث مبارکہ سے اکتساب فیض کرتے ہوئے انھوں نے لوگوں کو باور کرایا ہے۔ میری دعوت دین اور میری تحریک دین اسلام کے فروغ و اشاعت کے لیے عقل کی مضبوط بنیادوں کے ساتھ کھڑی ہے۔ انھوں نے دعوت دین کو عقل کے تناظر میں لوگوں کے سامنے پیش کیا ہے تاکہ عقلی سطح پر لوگوں کے لیے اس دعوت کو قبول کرنا آسان ہو اور اس دعوت کی عقلی توجیہات تک رسائی ممکن ہو اور اس دعوت کو عقل کے تقاضوں اور عقل کے پیمانوں پر پرکھنا ہر عاقل کے لیے ممکن ہو، وہ فرد کسی بھی معاشرے کا عقل پرور کیوں نہ ہو۔ اس کو بھی عصر جدید میں عقل کی روشنی میں بھی دین اسلام کی تعلیمات کو سمجھنا اور جاننا ممکن ہو۔
عصر حاضر میں عقل کو انسان نے بہت زیادہ ترجیح دی ہے اور اس زمانے کی ساری اختراعات اسی انسانی عقل کے کرشمے ہیں اور آج کا انسان اس عقل کی حکمرانی کو بہت زیادہ آئے روز تسلیم کرتا رہتا ہے اور ہر نئی چیز اس کی عقل پر دستک دیتی ہے اور جو چیز اس کی عقل میں آتی ہے۔ یہ اس کو مان لیتا ہے اور اس کو دل و جان سے تسلیم کرلیتا ہے اور وہی چیز اس کی سمجھ میں جاگزیں ہوجاتی ہے۔ اس لیے وہ اس کا قائل ہوجاتا ہے اور اسی کی طرف دل و جان سے مائل ہوجاتا ہے۔
شیخ الاسلام کی دعوت اور نوجوانوں پر اس کے اثرات
آج دوسرے انسان کی قوت اختیار اور اس کی قوت رضا اور اس کی قوت ارادہ اور اس کی قوت عمل کو عقل کے ذریعے ہی تسخیر کیا جاسکتا ہے۔ شیخ الاسلام کی دعوت نے بڑی تعداد میں نوجوانوں کو متاثر کیا ہے۔ عموماً نوجوان اپنی جوانی کے نشے میں دین دعوت کی طرف زیادہ سرعت کے ساتھ مائل نہیں ہوتے ہیں مگر ان کی دعوت کے اسلوب تعقل کی وجہ سے Rational presentation of Islam
نوجوان ان کی آواز کے دلدادہ ہیں اور وہ ان سے بے پناہ محبت و عقیدت ان کے اسلوب دعوت کی بنا پر کرتے ہیں ان کا اسلوب دعوت ان کے دلوں اور ذہنوں کو بیک وقت متاثر کرتا ہے۔ وہ احکام اسلام کو عقلی توجیہات اور عقلی مقتضیات کے ساتھ پیش کرتے ہیں۔
شیخ الاسلام کے دعوتی اسلوب کی بے پناہ مقبولیت
شیخ الاسلام کا دعوتی اسلوب آج کے تمام نوجوان دینی سکالرز کو بھی اپنی طرف متوجہ کرتا ہے اور وہ اسلام کو معاشرے کی ایک زندہ قوت بنارہے ہیں اور وہ آپ کے اسلوب دعوت کو اختیار کررہے ہیں اُن کا یہ اسلوب ہی معاشرے میں بڑا ہی موثر ہے اور نتیجہ خیز ہے۔
عقل انسانی فطرت کی آواز ہے عقل ہی انسانی زندگی میں دلیل اور برہان کی قوت کو تسلیم کرتی ہے۔ اس لیے صدق کے ثبوت کے لیے برہان اور دلیل پیش کی جاتی ہے۔ اس برہان و دلیل کو ماننے اور نہ ماننے، قبول کرنے اور قبول نہ کرنے کا فیصلہ انسانی عقل ہی کرتی ہے۔ اس لیے قرآن نے صدق کے اثبات کے لیے دلیل عقل کا تقاضا کیا ہے:
قُلْ هَاتُوْا بُرْهَانَكُمْ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ
’’ آپ فرما دیں کہ اگر تم (اپنے دعوے میں) سچے ہو تو اپنی (اس خواہش پر) سند لاؤ۔ ‘‘
(البقرہ، 2: 111)
اس دعوت دین کے معاملے میں ایک طرف زور و زبردستی ہو اور جبر واکراہ ہو اور دوسری طرف عقل و دانش ہو۔ اسلام قبولیت حق کے لیے اور اپنی دعوت کی قبولیت کے لیے، عقل و دانش کو ترجیح دیتا ہے اور اسلام اپنے ماننے والوں پر زور دیتا ہے۔ ظاہری و مادی قوت و طاقت سے زیادہ عقل و دانش کی قوت و طاقت کو متحرک کرو۔ عقل انسانی ذہن کو فتح کرتی ہے۔ ذہن کی فتح ہی دوسرے شخص کی سوچ کی فتح ہے اور اس سوچ کو ہی اپنی سوچ کے تابع کرنا ہے۔ سوچ کی تابعیت ارادے اور عزم کی تابعیت اور اطاعت کی یکسانیت میں بدلتی ہے۔
اس لیے کہ عقل کی قوت انسانوں کے لیے عموماً ناقابل تسخیر رہی ہے۔ عام انسان کے پاس عقل کی قوت ہے اور عارف باللہ لوگوں کے پاس دل کی قوت ہے۔ عام انسان انسانی عقل کے دروازے پر دستک دیتا ہے۔ کسی کو اپنا ہمنوا بناتا ہے اور کسی کو اپنا ہمسفر بناتا ہے۔ کسی کو اپنا ہم جلیس بناتا ہے جب اہل اللہ انسانی دلوں پر دستک دے کر ان کے دلوں میں اللہ کی محبت ڈالتے ہیں اور ان دلوں کو اللہ کی معرفت سے آشنا کرتے ہیں اور ان دلوں کو ان کی اصل سےا ٓباد کرتے ہیں اور پھر جہاں انسانی دل جھک جائے۔ وہاں اس کا پورا انسانی وجود اور اس کی ساری انسانی سوچ و فکر جھک جاتی ہے۔ اور اس کا عمل حیات اسی سوچ و فکر پر استوار ہوجاتا ہے۔
شیخ الاسلام کا مابہ الامتیاز وصف
شیخ الاسلام کی قیادت کا وصف امتیاز یہ ہے کہ انھوں نے عصر حاضر میں وقت انسانی عقول کو اپنی طرف بڑے پیمانے پر مائل کیاہے اور جن لوگوں کے لیے عقل کی بات موثر تھی۔ ان کو اپنا بنایا ہے جو عقل کی بات ماننے سے آگے گذر گئے تھے۔ ان کے دلوں پر دستک دی ہے اور وہ ان کے دلوں میں اپنی سوچ، اپنی فکر، اپنی دعوت کے ساتھ ایسے اترا ہے کہ ان کو اس تحریک کا جانثار، مخلص، محب، مخلص ورکراور لیڈر بنادیا ہے۔ گویا انہوں نے طریق عقل کے ذریعے اپنی دعوت کو بڑا ہی موثر اور نتیجہ خیز بنایا ہے اور اپنے زمانے کے نوجوان کو اپنی دعوت کی طرف بہت زیادہ متوجہ کیا ہے۔
میں ایسے بے شمار نوجوانوں کو جانتا ہوں اور جو بذریعہ عقل ان کے قافلے میں جانثار ورکر کے طور پر شامل ہوئے ہیں اور ان لاتعداد نوجوانوں سے بھی واقف ہوں جو بذریعہ دل ان کے کاروان میں نامور ورکر اور عہدیدار ہوئے ہیں۔ اس لیے کہ شیخ الاسلام نے ان کو بذریعہ عقل اور بذریعہ دل قائل کیا ہے اور بلاشبہ ہر دور میں اچھی بات اور عمدہ نصیحت کو ماننے کا کم از کم معیار عقل ہے۔ جہاں عقل ہے وہاں ہی بہترین عمل ہے۔ جہاں عقل نہیں وہاں اعلیٰ عمل بھی نہیں ہے۔ اس لیے قرآن کہتا ہے:
وَ مَا یَذَّكَّرُ اِلَّاۤ اُولُوا الْاَلْبَابِ
’’ اور صرف وہی لوگ نصیحت حاصل کرتے ہیں جو صاحبِ عقل و دانش ہیں۔ ‘‘
(البقرہ، 2: 269)
جب نصیحت عقل کے بغیر قبول نہیں ہوتی اور نصیحت عقل کے بغیر دل میں اترتی نہیں۔ اور نصیحت عقل کی صلاحیت کے بغیر بے حیثیت رہتی ہے تو دین تو سب سے بڑی نصیحت کا نام ہے۔ اس لیے ارشاد الذین النصیحۃ۔
دین تو سراسر نصیحت و خیر خواہی کا نام ہے۔
اس لیے وہ دعوت دین جس میں لوگوں کی اصلاح و فلاح ہوا جس میں لوگوں کی خیرو بہتری ہو، وہی کارگر ہے۔ وہی موثر ہے، اگر دین کی دعوت میں خیر و فلاح نہ ہو۔ تو یہ کیسے ممکن ہے کہ یہ دعوت دین لوگوں کے ذہنوں اور دلوں میں اتر جائے اور پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ دین کا داعی اپنے اندر خیرو بھلائی اور اصلاح و فلاح کے احساسات، جذبات اور افکار نہ رکھتا ہو۔ اس کے باوجود وہ لوگوں کی عقلوں میں سما جائے اور وہ لوگوں کے دلوں میں اتر جائے۔ بلاشبہ دعوت دین کی حقیقت کو ممکن اور ناممکن، مشکل اور آسان، قابل عمل اور ناقابل عمل خود داعی کا کردار ہی بناتا ہے۔ قابل اور اہل داعی زمانے کا قائد و رہبر ہوتا ہے۔
قیادت کا لازمی وصف محبت ہے
اس طرح قیادت کی زمین کا خمیر اور اس کا ضمیر محبت کا ہے، قیادت کا خمیر محبت سے اٹھتا ہے، قیادت کا سفر محبت سے تہہ ہوتا ہے۔ قیادت کا کارواں محبت سے تشکیل پاتا ہے۔ قیادت کے ورکر اور عہدیدار کی غذا محبت ہوتی ہے۔ قیادت کا زاد راہ محبت ہوتا ہے اور کارکنوں اور عہدیداروں کا سامان تحریک محبت ہوتا ہے۔ تحریکی لوگوں کے جسم میں روح، محبت کی قوت سے تقویت پاتی ہے، روح انسانی کو جب تک محبت کے چشمے سے پانی ملتا رہتا ہے وہ ترو تازہ، خوشنما اور متحرک و فعال رہتی ہے۔ جوں ہی محبت کے خوشگوار جھونکے اور محبت کی ہوائیں کم ہوتی ہیں۔ وہ روح تحریک ذرا ذرا سی مرجھا جاتی ہے۔ جوں ہی محبت کے چھینٹے اور محبت کی رم جھم اور محبت کی بارش روح کی زمین پر برستی ہے۔ اس میں پھر سے ترو تازگی اور خوشحالی آجاتی ہے۔
اسلامی تہذیب و تمدن میں قائد وہ ہے جو اپنے اندر اللہ کی بے پناہ و بے حساب محبت رکھتا ہو اور جو رسول اللہ ﷺ کی محبت میں فنا ہو۔ اس لیے کہ محبت کا اصل مصدر اور مخزن، محبت الہٰی ہے اور محبت رسول ﷺ ہے۔ قیادت کا اصل کمال یہ ہے کہ وہ محبت الہٰیہ اور محبت رسول ﷺ سے ہمیشہ خود کو مکتب پائے اور خود کو ہمیشہ مخلوق خدا کے لیے فیض رساں بنائے۔ محبت اپنے اصل معنی میں روشن اور صاف کرنے والی ہے۔ یہ انسان کے تعلق کو صاف اور روشن کردیتی ہے۔ یہ انسان کے تعلق کی حقیقت کو اوروں میں عیاں کردیتی ہے۔ یہ محبت ہر قسم کے ابہام اور وہم کا خاتمہ کردیتی ہے۔ یہ حب الاسنان سے مشتق ہے جیسے دانت روشن اور صاف نظر آتے ہیں۔ ایسے ہی محبت والے کا تعلق خاطر ہر کسی کو صاف اور روشن دکھائی دینے لگتا ہے۔ (قاضی سلیمان منصوری پوری، رحمۃ للعالمین، مکتبہ اسلامیہ لاہور، ص 257)
لفظ محبت کے معانی کا اطلاق کامل، خود انسان ہے
اسی طرح یہ لفظ محبت حب الماء سے بھی مشتق ہے۔ جس کا معنی ہے پاک صاف و شفاف اور شفاف و ستھرا پانی ہے۔ جس پانی کو ہر قسم کے میل، کچیل اور گند وغلاظت اور ضرر رساں چیزوں سے پاک کرلیا گیا ہو۔ اس پانی میں بے انتہا صفائی و ستھرائی ہو تو اس کو حب الماء کہتے ہیں۔ اسی طرح محبت بھی تعلق خاطر اور تعلق قلب کی اس کیفیت کا نام ہے جو انسانی تعلق پر آنےوالے ہر غبار، ہر گرد اور ہر بوجھ اور ہر وزن اور ہر میل و کچیل کو دور کردیتی ہے۔ کسی کے لیے کسی کے دل کو انتہائی اجلا و ستھرا اور صاف و شفاف بنادیتی ہے۔
انسان کے دل میں اگنے والا اور اس کے دل میں لگنے والا اور اس کے دل کی زمین میں ظاہر ہونے والا وہ تخم بھی ہے اور وہ دانہ بھی ہے اور اس کے دل کا وہ اصل بھی ہے جس سے دل کو حیات نو ملتی ہے۔ جس سے دل کو تقویت میسر آتی ہے۔ جس سے دل کی زندگی کو تسلسل ملتا ہے۔ اسے حبۃ القلب کہتے ہیں۔ اسی طرح حب کا لفظ حب الماء سے بھی مشتق ہے، وہ جوہڑ اور وہ تالاب ہے جہاں پانی ٹھہر جاتا ہے جہاں محبت کا پانی بھی محفوظ ہوجاتا ہے جہاں پر اس پانی کی حفاظت و نگہداشت ہوتی ہے۔
غرضیکہ لفظ حُبَّ میں معنی صفا و بہا بھی ہے اور اس میں معنی علو و ارتقا بھی ہے اور اس میں معنی لزوم و ثبات بھی ہے اور لفظ حُبّ ہی جملہ فضائل کا اصل الاصول ہے اور لفظ حُبَّ ہی میں حفظ الماء بھی ہے۔ اسی لفظ حُبّ میں ہی حیاۃ القلوب کا راز بھی مضمر ہے۔ اللہ کی محبت کا مرکز بھی انسان کے وجود میں قلب ہی ہے۔ یہ قلب ہی انوار و تجلیات الہٰیہ کا مھبط ہے اور یہی قلب ہی مسکن الہٰی ہے اور یہی قلب ہی آمد رب جلیل ہے۔
ہر کسی سے محبت، کل دین کی شناخت ہے
اللہ کی محبت انسانی دلوں میں کیسے قرار، کیسے ثبوت اور کیسے اثبات کی منزلیں طے کرتی ہے۔ قرآن اہل محبت کا تذکرہ یوں کرتا ہے۔ ارشاد فرمایا:
یُّحِبُّوْنَهُمْ كَحُبِّ اللّٰهِ ؕ وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اَشَدُّ حُبًّا لِّلّٰهِ ؕ
’’ اور ان سے ’اﷲ سے محبت‘ جیسی محبت کرتے ہیں، اور جو لوگ ایمان والے ہیں وہ (ہر ایک سے بڑھ کر) اﷲ سے بہت ہی زیادہ محبت کرتے ہیں۔ ‘‘
(البقرہ، 2: 165)
محبت اپنے کامل معنی و مفہوم میں ہمیشہ دو طرفہ ہوتی ہے۔ اگرچہ اس کا آغاز یک طرفہ ہوسکتا ہے مگر جب یہ اپنے کمال کو پہنچتی ہے تو اس کے اثرات سے یہ دو طرفہ ہوجاتی ہے۔ اسی حقیقت کا اظہار قرآن یوں کرتا ہے:
فَسَوْفَ یَاْتِی اللّٰهُ بِقَوْمٍ یُّحِبُّهُمْ وَ یُحِبُّوْنَهٗۤ ۙ
’’ تو عنقریب اﷲ (ان کی جگہ) ایسی قوم کو لائے گا جن سے وہ (خود) محبت فرماتا ہوگا اور وہ اس سے محبت کرتے ہوں گے۔ ‘‘
(المائدۃ، 5: 54)
محبت اپنے اظہار میں یحبھم اور یحبونہ کے عوامل سے فروغ پاتی ہے۔ یہ دو طرفہ اور دونوں جوانب سے اپنے عروج اور کمال کو پہنچتی ہے۔ اتنا ضرورہے۔ محبت کا اصل مرکز محبوب ہی ہوتا ہے اور وہی محبت کا ذریعہ اور سبب بنتا ہے، محبت اسی محبوب کی وجہ سے ظہور پذیر ہوتی ہے۔ وہ محبوب ہی انسان کی محبت کا مرکز و محور ہوتا ہے۔ محبت کا بیج بھی محبوب کی وجہ سے دل میں لگتا ہے اور محبوب کی وجہ سے وہ محبت کونپل و شاخ اور تنا آور درخت کی صورت میں ڈھلتی ہے۔
اسی بنا پر قرآن محبوب کی محبت کو محب کا کل سرمایہ محبت قرار دیتا ہے۔ اس محبت کو محبت کے تمام ذرائع و عوامل پر فائق و برتر تسلیم کرتا ہے۔ اس لیے ارشاد فرمایا:
قُلْ اِنْ كَانَ اٰبَآؤُكُمْ وَ اَبْنَآؤُكُمْ وَ اِخْوَانُكُمْ وَ اَزْوَاجُكُمْ وَ عَشِیْرَتُكُمْ وَ اَمْوَالُ ِ۟اقْتَرَفْتُمُوْهَا وَ تِجَارَةٌ تَخْشَوْنَ كَسَادَهَا وَ مَسٰكِنُ تَرْضَوْنَهَاۤ اَحَبَّ اِلَیْكُمْ مِّنَ اللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ وَ جِهَادٍ فِیْ سَبِیْلِهٖ فَتَرَبَّصُوْا حَتّٰی یَاْتِیَ اللّٰهُ بِاَمْرِهٖ ؕ
(التوبۃ، 9: 24)
’’ (اے نبی مکرم!) آپ فرما دیں: اگر تمہارے باپ (دادا) اور تمہارے بیٹے (بیٹیاں) اور تمہارے بھائی (بہنیں) اور تمہاری بیویاں اور تمہارے (دیگر) رشتہ دار اور تمہارے اموال جو تم نے (محنت سے) کمائے اور تجارت و کاروبار جس کے نقصان سے تم ڈرتے رہتے ہو اور وہ مکانات جنہیں تم پسند کرتے ہو، تمہارے نزدیک اللہ اور اس کے رسول (ﷺ) اور اس کی راہ میں جہاد سے زیادہ محبوب ہیں تو پھر انتظار کرو یہاں تک کہ اللہ اپنا حکمِ (عذاب) لے آئے۔ ‘‘
اس آیہ کریمہ نے تمام دنیوی محبتوں کا ذکر کیا ہے اور ساتھ ہی یہ واضح کردیا ہے کہ یہ ساری محبتیں بجا ہیں مگر یہ سب محبتیں مل کر اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی محبت سے پست رہیں۔ ان سے زیادہ نہ ہوں۔ اگر یہ زیادہ ہوجائیں تو پھر یہ قابل گرفت ہیں اور قابلِ عتاب ہیں۔
محبت ہی قیادت کا اصل خمیر ہے
محبت الہٰی کا عملی اظہار صورت عبدیت ہے، یہ عبدیت احکام الہٰی کی اطاعت میں ہر لمحہ اور ہر لحظہ متشکل ہو تو یہ کل محاسن انسانیت کا مظہر بنتی ہے اور جملہ اعلیٰ اعمال کا سرچشمہ ثابت ہوتی ہے۔ یہ محبت الہٰیہ ہی انسان کو انابت الہٰیہ کے مقام پر فائز کرتی ہے۔ یہ محبت الہٰیہ ہی ہمارے ایمان میں خوف و رجا کا معدن بنتی ہے اور یہ محبت الہٰیہ ہی انسان کو کبھی مقام رضا پر فائز کرتی ہے اور یہ محبت الہٰیہ ہی کبھی انسان کو مقام شکر پر متمکن کرتی ہے۔
انسان کا صبر وہی قابل شمار صبر ہے جو محبت الہٰیہ کی وجہ سے ظہور پذیر ہو۔ وگرنہ یہ صبر نہیں ہے بلکہ بے چارگی ہے اور انسان کا زہد بھی وہی ہے جس کا منشا محبت الہٰیہ ہو، وگرنہ یہ عدم دسترس ہے اور اسی طرح حیاء بھی وہ قابل مثال ہے۔ جو ادب و تعظیم میں ڈھلا ہو وگرنہ یہ حیاء صرف طبع انفعال ہے۔ فقر بھی وہی فقر ہے جو محب کو بجانب محبوب ملتفت کرے وگرنہ یہ نام بھی تنگ دستی ہے۔ محبت اپنی حقیقت میں قوت القلوب ہے، محبت اپنی اصلیت میں غذا الارواح ہے۔ محبت اپنی فیض رسانی میں قرۃ العیون ہے۔ محبت اپنی اساس میں حیوۃ الابدان ہے۔ محبت اپنے وجود میں حیاۃ القلوب ہے۔ محبت اپنے حصول میں فوز و فلاح ہے۔ محبت کا کمال، دوام و بقا میں ہے، محبت کا سفر، بقاء کو درجہ ارتقاء پر فائز کرتا ہے۔
دل کی چاہت کا نام محبت ہے
محبت کو جب ہم اس کے ارتقائی مدارج کے اعتبار سے دیکھتے ہیں تو کسی سے بھی محبت کی ابتدا ایک علاقہ قلب سے ہوتی ہے۔ دل کسی جگہ اپنا ٹھکانہ طلب کرنے لگتا ہے۔ دل کسی کی جانب جھک جاتا ہے۔ جب یہ تعلق قلب پیدا ہوجاتا ہے۔ پھر اس تعلق کو ارادے کی قوت شامل ہوجاتی ہے جو اس تعلق کو قوی کردیتی ہے۔ بعد ازاں اس ارادہ دل میں کشش پیدا ہوجاتی ہے جس طرح پانی نشیب کی طرف خود بخود جاتا ہے۔ اسی طرح محب محبوب کی کشش کے باعث اس کی جانب چلنے لگتا ہے۔ اس کی خیال کی کشمکش اور اس کی یاد کی کشش، اس کو تڑپانے لگتی ہے اور اس کی یاد ہی اس کی یادوں اور اس کے خیالوں میں مچلنے لگتی ہے۔ یہ کشش، سوزش میں بدل جاتی ہے۔ دل میں ہر وقت اپنے محبوب کی ایک امنگ سی بیدار رہتی ہے اور دل ہر وقت اس کی یاد کی سوزش سے جلتا رہتا ہے۔ محبت کا اگلا درجہ اس سوزش دل سے محبوب کی نسبت، انسان کے قلب میں پیار نمودار ہوتا ہے اور انسان صفت و داد سے آشنا ہوجاتا ہے۔ اس میں مزید ترقی ہوتی ہے تو دل پر مشغولیت کا غلبہ ہوجاتا ہےاور محبت کا اثر دل کی گہرائیوں میں پہنچ جاتا ہے۔ پھر انسان مصائب کو بآسانی برداشت کرنے لگتا ہے اور موانعات کا بھی سامنا کرنے لگتا ہے اور اس کے ساتھ تدابیر قرب کو تلاش کرنے لگتا ہے اور مواصلات وصل کی ہر سبیل کو ڈھونڈتا ہے۔ رفتہ رفتہ وہ اس منزل پر پہنچتا ہے کہ تفکر محبوب کے سواء ہر تفکر سے منقطع ہوجاتا ہے۔ محبوب کا تصور جسم و روح پر حکمران بن جاتا ہے۔ یہی منزل محبت خالص کی ہے۔
قیادت کا اپنے مقصد اور اپنی منزل سے محبت و عشق
عشق کی منزل تو محبت سے بھی آگے کی ہے۔ لفظ عشق، عشقہ سے بنا ہے۔ ایک زرد پھولوں کی بیل ہوتی ہے یہ جس درخت پر چڑھ جاتی ہے اس کو زر دکردیتی ہے اور اسے خشک کردیتی ہے۔ یہی حال مریض عشق کا بھی ہوتا ہے۔ وہ ہجر محبوب میں تڑپتا رہتا ہے اور اسی میں بھڑکتا رہتا ہے۔ عشق بڑھتا بڑھتا انسان کا خیال بن جاتا ہے انسان اپنے ہی خیالوں کا غلام ہوجاتا ہے۔ اس سے رہائی پانا اس کے لیے بہت مشکل ہوتا ہے۔
اگر یہ محبت اور یہ عشق جب وادی عبدیت میں انسان کو اپنے کامل تصورات کے ساتھ داخل کردیں تو انسان کی عبدیت اسے رشک ملائک بنادیتی ہے۔ مقام عبدیت میں بندہ ہر غیراللہ کی محبت سے دستبردار ہوجاتا ہے۔ دنیا کی ہر محبت سے بندہ کٹ جاتا ہے۔ دنیا کی کوئی ہستی اس کی نہیں رہتی، جب اس کا جسم، اس کا دل، اس کی روح اس کی تمنا، اس کی مراد اپنے لیے نہیں رہ جاتی اور وہ ان سب چیزوں کو خوشی بخوشی چھوڑ کر محبوب حقیقی کی طرف اپنا سفر شروع کردیتا ہے تو تب وہ حقیقی معنی میں عبد بن جاتا ہے اور اس کا سفر عبدیت شروع ہوجاتا ہے۔ (قاضی سلیمان منصور پوری، رحمۃ للعالمین، مکتبہ اسلامیہ لاہور، ص263)
محبت و عشق کا شیخ الاسلام کا تصور
شیخ الاسلام نے اپنی تحریک کی پہچان محبت و عشق کے ان ہی تصورات پر رکھی ہے۔ وہ محبت و عشق الہٰی کو تحریک کی روح قرار دیتے ہیں اور محبت و عشق رسول کو تحریک کی جان قرار دیتے ہیں۔ انھوں نے امت کے سب سے بڑے افرادی اثاثے، نوجوانوں کو اپنی تحریک کا ہر اول دستہ بنایا ہے۔ انھوں نے نوجوانوں کی نفسیات کا گہرا مطالعہ کرتے ہوئے ان میں موجود جذبات محبت و عشق کو محبت الہٰی اور عشق رسول ﷺ کی راہ دکھائی ہے۔ بلاشبہ ہر ایک نوجوان کی نوجوانی کا طرہ امتیاز اس میں قوت و طاقت کا ہونا ہے اور اس میں محبت و عشق کے احساس کا پایا جانا ہے اور اس میں خود کی تلاش و جستجو اور کسی مقصد کے ساتھ وابستہ ہوکر منزل حیات پر پہنچنا ہے۔ وہ اپنی نوجوانی کو اپنی کامیابی کے طرح طرح کے خوابوں میں سموتا ہے اور اپنی آرزوؤں کو تکمیل دینے اور اپنے خوابوں کو شرمندہ تعبیر کرنے کے لیے اپنی ساری توانائیاں صرف کردیتا ہے اور وہ اپنی تمناؤں کے حصول کے لیے اپنے وجود میں موجود طاقت کو قربان کردیتا ہے۔ وہ خدشات اور خطرات کے کوہ ہمالیہ کے سامنے ڈٹ جاتا ہے۔ وہ اپنی جان سے اور اپنی قوت سے کل جہاں کو بدلنا چاہتا ہے۔ وہ اپنی آواز کو کل عالم کی آواز بنانا چاہتا ہے۔ وہ اپنی سوچ کو کل عوام کی سوچ بنانا چاہتا ہے۔
شیخ الاسلام کی دعوت کا مخاطب اولین، نوجوان عصر
نوجوان اپنی ذات میں تنہا ہوکر ہر دور میں ایک کارواں، ایک لشکر، ایک قوم بننا چاہتا ہے۔ ایسے نوجوان کو اگر مقصد کا صحیح شعور اور منزل کی صائب فکر اور صراط مستقیم دکھا دیا جائے تو وہ صحیح معنوں میں قوم کا معمار بن جاتا ہے۔ شیخ الاسلام نے اپنے تحریکی کارواں کے ماتھے کا جھومر نوجوانوں کو بنایا ہے اور ان کو محبت و عشق الہٰی اور محبت و عشق رسول ﷺ اور اطاعت و اتباع رسول ﷺ کے تصور کے ساتھ، راہ حق کا ایسا مسافر بنایا ہے جن کا جینا و مرنا، دین اسلام ہوگیا ہے اور جن کی آنکھوں سے آنسو محبت و خشیت الہٰی کے برستے ہیں جن کے وجود میں کل توانائی کا مرکز اللہ کی بندگی اور رسول اللہ ﷺ کی نسبت اطاعت ہے جو رسول اللہ ﷺ کی محبت و عشق کے تصورات میں مچلتے ہیں، ان کی آنکھوں میں اگر کوئی حسن سما جاتا ہے تو وہ حسن محبوب خدا ہے۔ ان کی نگاہیں اسی حسن مصطفی کی ہر وقت متلاشی رہتی ہیں۔ اس لیے وہ حضرت براء کے اس بیان حسن پر ایمان رکھتے ہیں کہ
کان رسول اللہ احسن الناس وجھاً واحسنھم خلقاً۔
(بخاری، الصحیح، کتاب المناقب، 3: 1330، رقم 3356)
رسول اللہ ﷺ کا چہرہ اقدس سب سے زیادہ حسین تھا اور آپ کے اخلاق سب سے اعلیٰ تھے۔
حضرت سیدنا ابوہریرہؓ اس چہرہ مصطفی ﷺ کے حسن وجمال اور اس چہرہ کی ضیاء پاشیوں کا تذکرہ یوں کرتے ہیں:
مارایت شیئا احسن من رسول اللہ کان الشمس تجری فی وجھہ۔
(احمد بن حنبل، المسند، 3: 380، رقم 8930)
میں نے رسول اللہ ﷺ سے بڑھ کر حسین وجمیل کسی اور کس نہیں پایا۔ آپ ﷺ کے رخ انور کی زیارت کرکے یوں محسوس ہوتا تھا کہ آفتاب روشن محو خرام ہے۔
شیخ الاسلام کی رہبری اور نوجوانوں کی منزل آشنائی
شیخ الاسلام کی مجلس و صحبت میں ایسے نوجوانوں کو کثرت سے دیکھا گیا ہے جو اس مادی دنیا کی رنگینیوں اور اس کی خود فریبیوں میں بری طرح سے کھوچکے تھے۔ شیخ الاسلام نے ان کے دل کے تار اس طرح چھیڑے کہ ان کو گنبد خضریٰ کے مکین کے ساتھ بے پناہ قلبی و حبی تعلق کے ساتھ وابستہ کردیا۔ اب کوئی دنیوی حسن بھی ان کو اپنی طرف نہ راغب کرسکا اور نہ ہی اپنی چکا چوند سے ان کو راہ حق سے ڈگمگا سکا۔ اس لیے کہ
خیرہ نہ کرسکا مجھے جلوہ دانش فرنگ
سر مہ ہے میری آنکھ کا خاک مدینہ و نجف
شیخ الاسلام نے نوجوانوں کے جذبہ محبت و عشق کو محبت الہٰی اور عشقِ رسول ﷺ کی سمت دی ہے۔ انھوں نے نوجوانوں کے اس ناقابل تسخیر جذبے کو تعمیر ملت کی جانب پھیر دیا ہے۔ انھوں نے اس جذبہ محبت کے ذریعے نوجوانوں کی خودی کو مضبوط کیا ہے اور انہیں احیائے اسلام اور غلبہ دین حق کی بحالی کے خواب کو شرمندہ تعبیرکرنے کی طرف گامزن کیا ہے۔ ان کی نوجوانی کو ہی صراط مستقیم پر کاربند کرکے اپنی تحریک کی بہت بڑی قوت اور بہت بڑی پہچان بنایا ہے اور ان کی زندگیوں کو دوسرے نوجوانوں کے لیے مشعل راہ بنایا ہے۔ ان کی قوت عشق سے زمانے کے بگاڑ کو سنوارا ہے۔
شیخ الاسلام نے نوجوانوں کے کردا رکی احسن طریق سے اصلاح کی ہے، ان کی ہستی کو زمانے کی آنکھ کا تارا بنایا ہے۔ ان کے قول و فعل کو قول احسن اور فعل صالح میں بدلہ ہے۔ ان کو مقصد حیات کی تڑپ میں جینا سکھایا ہے اور ان کو معاشرے کی تمام فرسودہ اور باطل رسومات کے خاتمے کا شعور دیا ہے اور ان کو امت اور قوم کو جوڑنے اور اکٹھا، یکجا کرنے کا درس حیات دیا ہے۔ ان کو ساری قوم کا خیر خواہ اور ہمدرد بنایا ہے، ان کو یہ فکر بزبان اقبال دی ہے کہ
قوت عشق سے ہر پست کو بالاکردے
دہر میں اسم محمدؐ سے اجالا کردے