شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری مد ظلہ العالی ایک متنوّع اور کثیر الجہت شخصیت ہیں۔ آپ نے انسانی زندگی کے معروف شعبہ ہائے حیات کے تقریباً ہر پہلو پرعلمی اور تحقیقی مباحث کی ہیں۔ آپ نے عالم اسلام کے معاشرتی، اخلاقی، اقتصادی، معاشی اور سیاسی حالات کا تجزیہ کرکے اپنی مجددانہ بصیرت کو بروئے کار لاتے ہوئے حکمت و بصیرت اور دور اندیشی کے ساتھ جدید حالات و واقعات کے تناظر میں نہ صرف مسلمانوں بلکہ تمام نوعِ انسانی کو درپیش مسائل اور چیلنجز کے حل کے لیے قابلِ عمل تجاویز دنیا کے سامنے پیش کی ہیں۔ آپ کی شخصیت کا کمال یہ ہے کہ آپ بیک وقت کئی محاذوں پر مصروفِ عمل رہتے ہیں اور کسی بھی محاذ کو نظر انداز نہیں ہونے دیتے۔
بلا تمہید موضوع کی مناسبت سے ہم یہاں شیخ الاسلام کی خدمات کو ان چیلنجز کے تناظر میں اِحاطہ تحریر میں لانے کی سعی کریں گے جو بیسویں صدی کے اختتام اور اکیسویں صدی کے آغاز سے تاحال درپیش ہوئے اور ہو رہے ہیں۔ ان پیش آمدہ چیلنجز کواگر غیرجانبدرانہ انداز سے دیکھا جائے تو معلوم ہو گا کہ ان کا حل ہمیں شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری مد ظلہ العالی کی وساطت سے ہی نصیب ہوا۔ ذیل میں چند نمایاں چیلنجز اور ان سے نبرد آزما ہونے کے لیے شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری مد ظلہ العالی کی خدمات اور اقدامات قارئین کے پیشِ نذر ہیں۔
فکری تنگ نظری اور فرقہ واریت کا چیلنج
شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری مد ظلہ العالی نے اعلائے کلمۃ الحق کا پرچم سر بلند کیا اور عالمگیر تحریک منہاج القرآن کی بنیاد رکھی تو اس وقت فکری و نظریاتی سطح پر امت کو درپیش چیلنجز میں انتہا پسندی، تنگ نظری، تکفیریت، مسلکی منافرت، فرقہ واریت سرِ فہرست تھے۔ دشمنانِ اسلام اور نادان دوست مل کر تنگ نظری اور اِنتہا پسندی کے بیج بو رہے تھے۔ تکفیری رویہ تبلیغ کا لازمی نِصاب بن چکا تھا۔ جس کے نتیجے میں فکری اعتبار سے اختلاف رکھنے والوں پر کفر و شرک کے فتوے لگائے جاتے تھے۔ مسلمانانِ پاکستان متعدد فرقوں میں بٹ چکے تھے۔ دوسرے مکاتبِ فکر کی بات سننا، ان کی کتاب پڑھنا، ان کی مجالس میں جانا حرام سمجھا جاتا تھا۔ دوسرے مسالک پر طعن و تشنیع کرنا، تنقید کرنا اور گالیاں دینا اپنے عقیدے کی تصدیق سمجھا جاتا تھا۔ تمام مسالک اور فرقوں کو ایک جگہ پر بٹھانا ایک بہت بڑا چیلنج تھا۔ آپ نے اس چیلنج کا مقابلہ کرتے ہوئے درج ذیل اقدامت کیے۔
1۔ بین المسالک ہم آہنگی اور رواداری کو فروغ دیا، بین المسالک افہام وتفہیم اور مکالمہ کی فضا قائم کی۔
2۔ فکری تنگ نظری اور فرقہ واریت کے خاتمے کے لیے آپ نے کتاب وسنت کی تشریحات پیش کیں۔ سیکڑوں کتب اور مدلل خطابات کے ذریعے اسلام کا رواداری، اعتدال اور توازن پر مبنی تصور پیش کیا اور انتہا پسندی کو شکست دی۔
3۔ باہمی محبت و یگانگت اور اپنائیت کا احساس دینے کے لیے آپ نے اپنی جماعت تحریک منہاج القرآن کے دروازے ہر مسلک اور مکتبہ فکر کے لیے نہ صرف کھلے رکھے بلکہ مختلف مکاتب فکر سے وابستہ احباب آپ کی جماعت کے مختلف پلیٹ فارمز پر اپنی خدمت بخوبی سر انجام دیتے نظر آتے ہیں۔ آپ نے کبھی 1990ء میں ’’اعلامیہ وحدت‘‘ کی شکل میں مسالک کو یکجا کیا تو کبھی تحفظِ ناموس اہلبیت اور تحفظِ ناموسِ صحابہ کی صورت میں منافرت پھیلانے والے ہر فتنے کا تدارک کیا۔ کبھی دفاع شانِ علی علیہ السلام کی صورت میں گستاخی اہلبیت کے فتنے کا خاتمہ کیا تو کبھی دفاع شانِ صدیق اکبر و عمر فاروقؓ کی صورت میں صحابہ کی بارگاہ میں کھلنے والی دراز زبانوں کا ناطقہ بند کیا۔
حقیقی فکر و نظریہ کا احیاء ایک بہت بڑا چیلنج
حقیقی فکر و نظریہ کا احیاء ایک بہت بڑا چیلنج تھا۔ جس کی بدولت لوگوں کی زندگیوں سے اخلاقی اقدار و روایات اور فکر و نظریات مٹ رہے تھے۔ ان کی جگہ ذاتی مفادات، حرص و ہوس، لالچ اور کرپشن نے لے لی تھی۔ اقدار مٹ گئیں تھیں۔ ۔ ۔ جیسے مغربی دنیا God less ہے، اسی طرح یہ معاشرہ Ideology less ہوگیا تھا۔ ہر وہ نظریہ، فکر اور تصور جس پر اقدار اور کردار قائم ہوتے ہیں، وہ کلیتاً ختم ہوگیا۔ اقدار و کردار پچھلے زمانے کی داستان بن گیا اورنیا کلچر اور نیا زمانہ غالب آگیا۔
ایسے دور میں جب انفرادی اور اجتماعی زندگی سے نظریہ کا تعلق ختم ہو گیا تو چیلنج یہ تھا کہ اُس نظریہ کو دوبارہ بحال اور قائم کرتے ہوئے اُس پر تمسک اور استقامت اختیار کی جائے، لوگوں کو نظریہ اور فکر پر پختہ رکھا جائے اور نظریہ و فکر کو فروغ دیا جائے۔ کیوں کہ جب سیاسی اور مذہبی طور پر نظریہ معاشرے سے متعلقہ نہیں رہتا، اُس وقت نظریے کو زندہ رکھنا اور اُس کو قوت دینا بہت بڑا چیلنج ہوتا ہے۔ اس وقت شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری نے تحریک منہاج القرآن کے پلیٹ فارم سے گراس روٹ لیول تک عوام کی بالعموم اور رفقاء و کارکنانِ تحریک کی بالخصوص تعلیم و تربیت کا اہتمام بایں طور کیا کہ انھیں دین کے حقیقی نظریہ و فکر کے ساتھ ثابت قدمی عطا کی۔ آپ نے پوری قوم کو دعوت عام دی کہ آؤ ہم مردہ اقدار حیات کو پھر سے زندگی بخشیں اور انتشار و افتراق اور تفرقہ پرستی کی دلدل سے نکل کر پھر سے اتحاد امت اور وحدت و یگانگت کا خواب شرمندہ تعبیر کریں۔
جدید و قدیم علوم میں بُعد کا چیلنج
شیخ الاِسلام نہ صرف قدیم علوم اسلامیہ پردسترس رکھتے ہیں بلکہ انہیں جدید علومِ عصریہ پر بھی مہارت تامہ حاصل ہے۔ قدیم و جدید علوم پر دسترس کے اس حسین امتزاج کے باعث آپ مشرق و مغرب کے مابین علمی و فکری بُعد اور فاصلوں کو کم کرنے میں اہم کردار ادا کررہے ہیں۔ آپ اپنے علمی و فکری اور تجدیدی و اجتہادی کام کی ثقاہت و ثروت کی بدولت عالمِ عرب و عجم میں اسلامی فکر و فلسفہ کے حوالے سے مستند اور معتبر جانے جاتے ہیں۔ عصر حاضر میں ان کا وجودِ مسعود نعمتِ غیر مترقبہ اور عطیۂ الٰہی ہے۔
اگر ہم گزشتہ نصف صدی قبل پاکستانی معاشرے پر نگاہ ڈالیں تو ہمیں نظر آتا ہے کہ علم دینی اور عصری دو مختلف اکائیوں میں بٹ چکا تھا اور دونوں کے درمیان ایک وسیع خلیج حائل ہو چکی تھی۔ یہ روش ایک طرف تو معاشرے کو دین سے بیزار سیکولر بنا رہی تھی تو دوسری جانب دینی طبقہ صدیوں پرانے سلیبس کی تدریس اور عصری تقاضوں سے بے خبر ہونے کے باعث تنگ نظری کا شکار ہو رہا تھا۔ اس چیلنج سے نبرد آزما ہونے کے لیے آپ نے درج ذیل اقدامات کیے۔
1۔ آپ نے دینی و عصری علوم کو یکجا کرنے کے لئے 1985 میں جامعہ اسلامیہ منہاج القرآن کی بنیاد رکھی۔ بحمد اللہ تعالیٰ آج وہ جامعہ ایک چارٹرڈ یو نیورسٹی کی شکل اختیار کر چکی ہے۔
2۔ آپ نے اپنی تحریک تحریکِ منہاج القرآن کے پلیٹ فارم سے پاکستانی معاشرے کوعصری اور دینی تقاضوں سے ہم آہنگ ایک مکمل تعلیمی نظام اور سیکڑوں تعلیمی ادارے دیے۔ یہ آپ کی عظیم جدوجہد کا ثمر ہے کہ آج سیکڑوں تعلیمی اداروں میں دینی و عصری تعلیم کو یکجا کیا جا چکا ہے۔
دینی علوم میں جمود و تعطّل ایک بہت بڑا چیلنج
دورِ زوال کے چیلنجز میں سے ایک بڑا چیلنج دینی علوم میں جمود و تعطل کا تھا۔ 1857 کی جنگ آزادی میں شکست کے بعد جہاں مسلمانوں کے اقتدار کا خاتمہ ہو گیا وہاں دینی علوم اور ان کا دائرہ کار بھی محدود ہوتا گیا۔ نوبت یہاں تک آ پہنچی کہ دینی علوم فقط عبادات کے مسائل تک محدود ہوگئے جبکہ سارے سیاسی، معاشی اور معاشرتی مسائل اور جھگڑے عدالتوں میں اور جدید علوم کالجز اور یونیورسٹیز میں منتقل ہو گئے۔ اس تقسیم کے باعث دینی علوم میں تحقیق و اجتہاد کے دروازے بند ہوچکے تھے۔ سیکڑوں سال پرانی کتب اور ان میں تحریر کئے گئے مسائل کو دورِ حاضر میں بھی مسائل کا حل سمجھا جانے لگا۔ قرآن و حدیث سے بات کرنے کو تقلید کے خلاف سمجھا جاتا تھا۔ قرآن کا مطالعہ دینی علوم کے نصاب میں شامل ہی نہ تھا اور حدیث رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دینی تعلیمی نصاب میں اختتام پر منتخب حصے کی تدریس (محض عبارت پڑھنے)کو کافی سمجھا جاتا تھا۔
تقلید محض کے اس دور میں شیخ الاسلام نے اپنی تمام تر تحقیق کا ماخذ قرآن و حدیث کو بنایا۔ آپ کی جملہ کتب اور آٹھ جلدوں پر مشتمل قرآنی انسائیکلو پیڈیا اور قرآن و حدیث سے مزین ہزاروں خطابات کے نتیجے میں معاشرے میں تحقیق کا ذوق پیدا ہوا اور آج الحمد للہ قرآن و حدیث کے بغیر بات کرنے کو معیوب سمجھا جانے لگا ہے۔ آج علماء اور سکالرز قرآن و سنت سے تحقیق کو قبول کر رہے ہیں جبکہ جمود کے قفل ٹوٹ چکے ہیں۔ خصوصاً قرآنی انسائیکلو پیڈیا کی اشاعت کے بعد اب قرآن مجید سے براہ راست راہنمائی لینا عوام الناس کے لیے بھی نہایت آسان ہو گیا ہے۔
عقائد کے باب میں فتنوں کے قلع قمع کا چیلنج
دورِ زوال میں پیش آمدہ ان گنت چیلنجز میں سے انتہائی خطرناک چیلنج اسلام دشمن عناصر کی طرف سے عقائد کے باب میں پیش آیا۔ اس چیلنج نے عقیدہ توحید کو فوکس کرتے ہوئے عقیدہ رسالت کے حوالے سے عام مسلمان کے اذہان کو تشکیک کا شکار کیا۔ ذاتِ مصطفیٰ ﷺ کے حوالے سے شکوک و شبہات پیدا کیے گئے جس کے نتیجے میں تنقیص کا پہلو غالب ہو گیا، امت کا اپنے کریم نبی ﷺکی ذات کے ساتھ تعلق کمزور کرنے کے لیے خارجی فکر کو فروغ دیا گیا۔ قرآن کو قرآن سے سمجھنے پر فوکس کرتے ہوئے احادیث نبویہ کا رد کیا جانے لگا، اولیاء و صالحین سے تعلق و نسبت کو کمزور کرنے کے لیے نت نئے پروپیگنڈے کیے جانے لگے۔ الغرض عقائدِ صحیحیہ کے خلاف ایک طوفون بپا ہو گیا۔ ان حالات میں صحیح العقیدہ شخص کے لیے تنہا اپنے عقیدے کا دفاع مشکل ترین ہو گیا۔ یوں عقائد کے باب سر اٹھانے والے فتنوں کا قلع قمع کرنا ایک بہت بڑا چیلنج بن گیا۔ اس مقام پر امتِ مسلمہ کو اس بھنور سے نکالنے اور قرآن و حدیث کی درست تعبیرو تشریح کے ذریعے عقائدِ اسلامیہ کے تحفظ کے لیے شیخ الاسلام نے اقدام اٹھایا اور اپنی تحریک قیام کے ساتھ ہی آپ نے علمی و عملی ہر دو پہلوؤں کو مدِ نظر رکھتے ہوئے انتہائی حکمت و دانش مندی کے ساتھ ان چیلنجز سے نبرد آزما ہوئے اور دین اسلام کے تشخص کو اُجاگر کرنے اور فروغ و ابلاغ کے لئے ہر محاذ پر خدمت سر انجام دی۔
شیخ الاسلام نے آٹھ جلدوں پر مشتمل انسائیکلوپیڈیا آف حدیث سٹڈیز ”الموسوعتہ القادریہ“ تالیف کر کے بھی امت کو علوم الحدیث کا انمول تحفہ عطا کیا ہے۔ اس نادر مجموعۂ علوم الحدیث کی گذشتہ چار صدیوں میں کوئی مثال نہیں ملتی۔ علوم الحدیث کی اہم ترین مدلل ومحقق ابحاث پرمشتمل یہ موسوعہ گذشتہ سات آٹھ سو سال کے ائمہ محدثین کی تصانیف کے مطالعہ کا نچوڑ ہے۔ جسے نئے اِستشہادات اور نئے شواہد کے اضافہ جات سے مزین کرکے پیش کیا گیا ہے۔
اسلامی عقائد کے ذیل میں ایک اہم باب صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اور اہلِ بیت اطہارعلیہم السلام
کی شان ہے۔ گزشتہ کئی دھائیوں سے مسلمانوں کو اس حوالے سے بھی مختلف چیلنجز کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ تاریخ انسانی کے ان منتخب اور اسلام کے اس محسن طبقے کی شان میں ہرزہ سرائی کرنے کا سلسلہ جاری ہے۔ ان حالات میں ضروری تھا کہ ان شخصیات کی عزت و عظمت کا دفاع کیا جائے۔ مجدد رواں صدی شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے علمی وفکری، تحقیقی و تاریخی دلائل و براہین کے ساتھ حضرات صحابہ کرام اور اہل بیت اطہار رضوان اللہ علیہم اجمعین پر ہونے والے حملوں کا تدارک کرتے ہوئے ان کی شان کا دفاع کرنے کی سعادت حاصل کی۔ آپ نے عظمت و شان صحابہ اور عظمتِ اہلِ بیت اطہار رضوان اللہ علیہم اجمعین اور دین اسلام میں ان نفوس قدسیہ کے مقام و مرتبہ اور حیثیت اور دینِ حق کے لئے ان کی خدمات سے کماحقہ آگاہی کے لئے متعدد کتب تصنیف فرمائیں۔
نسبتِ رسالت کے تحفظ اور فروغ کا چیلنج
تحریک منہاج القرآن کے قیام کے وقت دیگر مذہبی و اعتقادی فتنوں کے ساتھ حضور نبی اکرم ﷺ کی شان و عظمت کے حوالے سے انکار زوروں پر تھا۔ شیخ الاسلام نے اس حوالے سے اعتقادی اصلاح کا علم بلند کیا اور قرآن و حدیث کی نصوص پر مشتمل علمی دلائل کے ذریعے محبت رسول ﷺ کے چراغ روشن کیے۔ آپ نے حضور نبی اکرم ﷺ کی نسبت اور محبت و ادب کے متفقہ اور مسلمہ عقیدہ کو نہ صرف واضح کیا بلکہ اس پر اٹھائے گئے اشکالات و اعتراضات کو عقلی و نقلی دلائل کے ساتھ رد کیا۔
نسبت رسول ﷺ کے فروغ و استحکام کے لئے شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی کاوشیں راہِ محبت و ادبِ مصطفی ﷺ میں ایک تاریخی سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہیں۔ آپ نے عشق رسول ﷺ کے فروغ کو اپنا مقصد حیات بنا کر نعرۂ حریت بلند کیا یہ نعرۂ مستانہ تحریک منہاج القرآن کے قیام کی شکل میں دنیا والوں کے سامنے آیا کیونکہ حضور ﷺ کی پہچان اور آپ ﷺ کے ساتھ تعلق غلامی ہی قرآن کا منہاج ہے۔ یہ منہاج علاقائی یا مسلکی نہیں بلکہ ہمہ گیر اور آفاقی ہے۔ اس کا اطلاق صرف اہل پاکستان پر یا صرف بر صغیر کے مسلمانوں پر یا صرف اہل عرب پر نہیں بلکہ پوری دنیا پر ہوتا ہے۔ اس کے معانی محدود نہیں بلکہ لامحدود ہیں۔ انتہا پسندی کے اس تاریک ماحول میں عقیدہ رسالت سے متعلقہ شیخ الاسلام مدظلہ کی جملہ کتب اور خطابات اپنے اندر فکر و آگہی کے کئی جہاں سموئے ہوئے ہے اور عقیدہ رسالت سے کماحقہ آشنائی کے لئے شیخ الاسلام کی نادر علمی تحقیقات کا اہم کردار ہے۔
مدارس میں رائج صدیوں پرانا نصابِ تعلیم ایک چیلنج
اسی طرح برصغیر کی تاریخ میں مدارس میں رائج صدیوں پرانا نصابِ تعلیم جو یقیناً اپنے زمانے کے حالات کے مطابق درست ہوگا مگر یہ نصابی ماڈل عصرِ حاضر کے تقاضوں سے ہم آہنگ نہ ہونے اور موجودہ دور کے جدید علوم کے فقدان کی وجہ سے آج ایک بہت بڑا چیلنج تھا کہ یہ نصاب موجودہ عمرانی ضرورت کی کفالت کی وہ صلاحیت نہیں رکھتا کہ اس کو پڑھ کر مدارس سے نکلنے والی کھیپ برق رفتار سائنسی ترقی کے دور میں تیز رو قافلۂ زندگی کا ساتھ دے سکے۔
بلاشبہ ان حالات میں دینی مدارس کی بقاء اور علومِ دینیہ کی جدید خطوط پر تدریس وتبلیغ یہ ایک بہت بڑا چیلنج تھا جس سے شیخ الاسلام نے بخوبی نبرد آزما ہوتے ہوئے نظام المدارس کی صورت میں ایک مثالی نظام العمل اور عصری تقاضوں سے ہم آہنگ ایسا نصابِِ تعلیم ترتیب دیا ہے جو کئی جہتوں سے اپنے معاصر رائج نصابات سے ممتاز ہے۔ جس کی تکمیل کر کے میدانِ عمل میں آنے والے نو نہالانِ قوم کا ایسا گروہ کارگہ حیات میں قدم رکھ سکے گا جس کا علم سمندر کی طرح بیکراں اور جن کی سیرت مہر عالم تاب کی طرح روشن اور بے داغ ہو گی۔ عقیدہ کی صلابت، علم کی ثقاہت اور فکرونظر کی گہرائی ان کی پہچان ہو اور وہ فرزندانِ قوم آفاق عالم کی وسعتوں کے ایسے امین ہوں گے کہ جن کا میزانِ فہم وفراست مشرق ومغرب کی وسعتوں کا احاطہ کرسکے گا۔
تہذیبی و ثقافتی چیلنج
عصرِ حاضر میں مغربی تہذیب و ثقافت کی یلغار سے کون شخص آگاہ نہیں ہے۔ اس تہذیبی حملے نے سب سے بڑا نقصان نوجوان نسل کا کیا۔ جس کے زیر اثر نوجوان نسل کے معاشی اور سماجی تصوراتِ زندگی بدل رہے ہیں۔ اخلاقی، عائلی، سماجی اور معاشرتی قدریں کمزور پڑتی جا رہی ہیں اور نوبت یہاں تک آ پہنچی ہے کہ فحاشی، عریانی اور بے راہ روی کے سیلاب نے پورے معاشرے کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ والدین اپنے بچوں کی اخلاقی اقدار کے تحفظ کے حوالے سے پریشان نظر آتے ہیں۔ اس صورتِ حال میں دور جدید کی تہذیب و ثقافت کی تند و تیز آندھیوں سے نوجوان نسل کے ایمان کی بجھتی ہوئی شمع کو محفوظ کرنے میں شیخ الاسلام کے عظیم کردار کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا ہے۔ آپ نے مختلف پراجیکٹس کے ذریعے نہ صرف پاکستان بلکہ ملکِ پاکستان سے باہر بسنے والے لاکھوں کروڑوں نوجوانوں کی زندگیوں میں ایک انقلاب بپا کیا ہے، آپ نے انہیں اخلاقی و روحانی بے راہ روی سے بچاکر ہدایت کی روشن راہ پر گامزن کیا۔ انہیں مقصدِ حیات سے روشناس کرایا۔ معاشرے کی بگڑی قدروں کو پامال ہونے سے بچایا۔ بے راہ روی، دین سے دوری اور اخلاقی و روحانی اقدار سے بیگانگی کو ختم کرنے کے لیے مکمل راہنمائی فراہم کی۔ ان کے فکرو نظر کو انقلاب آشنا کردیا۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا بھر میں تحریکِ منہاج القرآن کے پلیٹ فارم پر منعقدہ تربیت و روحانی اور علمی پروگراموں میں مسلم نوجوانوں کی کثیر تعداد دیکھنے کو ملتی ہے جو اپنے اصلاحِ احوال اور اخلاقی و روحانی تربیت کی غرض سے شیخ الاسلام کی صحبت سے فیض یاب ہونے کے لیے حاضر ہوتے ہیں۔
نسلِ نو کی فکری و نظریاتی تربیت کا چیلنج
عصرِ حاضر کا ایک بڑا چیلنج نسلِ نو کی فکری و نظریاتی تربیت کی صورت میں در پیش ہے۔ نام نہاد جدیدیت، ملحدیت، دین سے دوری اور بے رغبتی نے نسلِ نو کو نہ صرف اپنے دین اور بنیادی عقائد و نظریات سے متنفر کر دیا ہے بلکہ انہیں عقائد و نظریات کے حوالے سے تشکیک و ابہام کا شکار بھی کیا۔ جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ دینِ اسلام کے بنیادی عقائد جن پر ایک مسلمان کی مکمل زندگی کا دارومدار قائم ہوتا ہے ان سے متعلق بھی وہ تذبذب کاشکار ہو رہے ہیں۔ اس چیلنج سے نبرد آزما ہونے کے لیے شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری مدظلہ العالی نے فکر و فلسفہ اور نظریاتی اصولوں کی پاسداری کا اقدام اٹھایا۔ آپ نے نوجوان نسل کی اَخلاقی و روحانی تربیت کے ساتھ ساتھ اُنہیں عصری چیلنجز سے نبرد آزما ہونے کی ایک مکمل گائیڈ لائن مہیا کی۔ اس کے ساتھ ساتھ مادیت پرستی، انتہا پسندی، فرقہ واریت اور اسلاموفوبیا جیسے مسائل سے نمٹنے کے لئے انہیں فکری و نظریاتی واضحیت فراہم کی۔ اقبال کے اس شعر کے مصداق
نوا پیرا ہو اے بلبل کہ ہو تیرے ترنم سے
کبوتر کے تن نازک میں شاہیں کا جگر پیدا
بیشک مال و اسباب اور ساز و سامان کے اعتبار سے مسلمانوں کی حالت کبوتر کی سی ہے اور وہ حالات کا مقابلہ کرنے کی سَکَت نہیں رکھتے لیکن اگر انہیں کوئی نغمہ خواں، مربی و معلم ایسا میسر آ جائے جو بہادر و جری اور قوی ہوتو اس کی صحبتوں اور سنگتوں اور علمی نشستوں سے حاصل ہونے والے ولولے اور ہمت کے باعث یہی لوگ بہادر اور دلیر ہو کر اپنے حقوق کی حفاظت کر سکتے ہیں۔ معاشرے میں ایک انقلاب بپا کر سکتے ہیں۔ بلاشبہ نوجوانانِ ملت کو شیخ الاسلام نے ایسی انقلابی فکر سے آشنا کیا کہ پھر ان کی زندگیوں کا مقصد دینِ متین کی خدمت اور سر بلندی قرار پا گیا۔ شیخ الاسلام کی صحبت سے فیض یاب ہونے والا جوان گویا اپنے زبانِ حال سے یہ کہہ رہا ہو کہ
میری زندگی کا مقصد تیرے دین کی سرفرازی
میں اسی لیے مسلمان میں اسی لیے نمازی
عصرِ حاضر میں مسلم خواتین کی درست سمت رہنمائی ایک چیلنج
دورِ زوال نے امت مسلمہ کے جہاں ہر پہلو کو متاثر کیا وہاں خواتین کا حلقہ بھی محفوظ نہیں رہا۔ اس حوالے سے الاّ ماشاءاللہ وطنِ عزیز میں خواتین کے کچھ طبقات سامنے آئے جن میں ایک طبقہ ایسا بنا جسے تنگ نظری کے باعث گھر کی چادر اور چار دیواری میں قید رہنے پر مجبور کر دیا گیا گویا گھر سے باہر قدم اس کے لیے موت کا پروانہ ہویا ایسی خواتین بھی ہیں جن کے لیے بنیادی تعلیم کا حاصل کرنا بھی جُرم ہے، اسی کے مدِ مقابل ایک طبقہ ان خواتین کا وجود میں آیا جنہوں نے آزادی نسواں کی آڑ میں اپنے اوپر عائد ہونے والی ذمہ داریوں سے کنارہ کشی کرتے ہوئے چادر و چاردیواری کی حرمت کو پامال کر دیا اور خود سرِعام بازاروں کی زینت بننے لگیں۔ باقی ماندہ خواتین سے کچھ وہ ہیں جنہوں نے ماڈرنزم کی آڑ میں سوشل میڈیا کے مختلف میڈیمز کو اپنی زیب و زینت کے اظہار کا آلہٰ بنا لیا۔ گویا بے مقصدیت کا ایک طوفان بپا ہوا ہے جس نے ہر لحاظ سے امتِ مسلمہ کی خواتین کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔
اس تناظر میں خواتین کی درست سمت رہنمائی ایک بہت بڑے چیلنج کے طور پر سامنے آئی۔ معاشرے میں خواتین کی اہمیت کے پیشِ نظر شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری مد ظلہ العالی نے طبقہ نسواں کو فراموش اور نظر انداز نہیں کیا بلکہ اپنی جماعت کے قیام کے قلیل عرصے کے بعد 1988 میں منہاج القرآن ویمن لیگ کے شعبہ کا قیام عمل میں لے آئے۔ جس کی بدولت انہوں نے خواتین کی اصلاح اور درست سمت رہنمائی کے اہم اقدامات کیے۔ اس پلیٹ فارم کے ذریعے آپ نے ملکی و بین الاقوامی سطح پر خواتینِ معاشرہ میں یہ شعور بیدار کیا کہ وہ نہ صرف مسلم معاشرے کی ایک اہم اکائی ہیں بلکہ انہی کی بدولت عظیم اولیا و صوفیا اور امت کے معلم و مربی اور سپہ سالار پروان چڑھتے ہیں۔ خواتین کی اس نمائندہ تنظیم کا دعوتی، تربیتی و فلاحی کردار سال بھر پر محیط ہے۔ اس کے تعلیمی و تربیتی پروگرامز عورت کی انفرادی زندگی سے لے کر معاشرتی سطح پر اجتماعی ذمہ داریوں کو اپنے احاطہ میں لیے ہوئے ہیں۔ یہاں خواتین کو اعلیٰ تعلیم سے ہم آہنگ کرنے کا شعور بھی دیا جاتا ہے اور حاصل تعلیم کو تربیت کے ساتھ جوڑ کر عامۃ الناس کے لئے مفید بنانے کی تحریک بھی دی جاتی ہے۔ انسانی زندگی کو درپیش ہر مسئلہ کے حل اور مختلف نظریاتی و فکری جہات پر کام کے ساتھ ساتھ خواتین کے فعال سیاسی کردار کے ضمن میں بھی منہاج القرآن ویمن لیگ کی کاوشیں قابلِ تحسین ہیں۔
اخلاقی و روحانی سطح پر چیلنج
صدیوں پر مشتمل دورِ زوال نے امت مسلمہ کو ہمہ جہتی زوال کا شکار کیا اس میں دینِ اسلام کا اخلاقی و روحانی پہلو جو تصوف و روحانیت کی راہ ہموار کرتا تھا متاثر ہوئے بٖغیر نہ رہ سکا۔ دورِ زوال کی گزشتہ کئی صدیوں سے علم تصوف پر لکھا جانا ختم ہو چکا تھا۔ تعلیمی اداروں، مدارس اور خانقاہوں میں تصوف پڑھایا جانا ختم ہوچکا تھا۔ روحانی مراکز علم و حکمت اور عمل سے نہ صرف دور بلکہ رُسوم و رواج اور توہمات کا گڑھ بنتے چلے جا رہے تھے۔ اس تناظر میں تصوف و روحانیت کا احیاء ایک بہت بڑا چیلنج تھا۔ تصوف حقیقت میں علم سے زیادہ عمل کا نام ہے چودہ سو سال سے صوفیاء کا پاکیزہ کردار ہی اسلام کی حقیقی روح کے طور پر زندہ تھا۔ صوفیاء اپنی خانقاہوں میں کثرتِ عبادت، مجاہدہ، ریاضت اور ذکر و اذکار سے تزکیہ و تصفیہ کا عمل جاری رکھتے یوں تصوف محبت کے ساتھ کرداروں میں ڈھل جاتا۔ اسلاف کے اسی طرزِ عمل کو جاری رکھنے اور قرآن و سنت کی روشنی میں تصوف و روحانیت کی حقّانیت کو مدلل انداز میں ثابت کرنے کا بیڑا شیخ الاسلام نے اٹھایا۔ ایسے دور میں شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری مدظلہ العالی نے تصوف کے علمی احیاء کے لئے علمِ تصوف پردرجنوں کتب تصنیف فرمائیں۔ تصوف کے سیکڑوں موضوعات پر ہزاروں خطابات فرمائے۔ علم تصوف کے احیاء میں آپ کی گرانقدر خدمات میں سب سے اہم خدمت تصوف اور تعلیمات صوفیاء کے عنوان سے 56سے زائد خطابات کی سیریل ہے جس نے دنیا بھر میں تصوف کے منکرین کو نہ صرف حیران و ششدر کردیا ہے بلکہ ان پر سکتہ طاری ہے۔
آپ نے عملی طور پر تحریک منہاج القرآن کے پلیٹ فارم سے اصلاحِ احوالِ امت کے لیے اقدامات کیے۔ ان میں ماہانہ شب بیداریاں، سالانہ روحانی اجتماع، سالانہ مسنون اجتماعی اعتکاف، اخلاقی و روحانی تربیتی کیمپ، سہ روزہ نفلی اعتکاف، گوشہِ درود میں معمولاتِ تصوف، حلقاتِ درود و فکر میں کثرتِ وظائف وغیرہ شامل ہیں۔
عالمی سطح پر اسلام کے صحیح تشخص کا تحفظ اور امن عالم کی بحالی کا چیلنج
نائن الیون کے سانحہ کے بعد دنیا بھر کے مسلمانوں کو جو چیلنج درپیش رہا وہ انتہا پسندی اور دہشت گردی کا تھا۔ دہشت گردی اور انتہا پسندی کو مسلمانوں کے ساتھ نتھی کیا گیا اور دنیا بھر میں مسلمانوں کے لیے جینا دوبھر کر دیا گیا۔ پوری دنیا میں مسلمانوں کو دہشت گرد ثابت کرنے کے لیے پروپیگنڈے کیے گئے۔ مسلمان پر نسل پرستی، تعصب اور تنگ نظری کے الزمات لگائے گئے۔ الغرض دنیا بھر میں مسلمانوں کے خلاف نفرت آمیز رویہ پروان چڑھایا گیا۔ انہیں دہشت گرد اور انتہا پسند کے ٹائٹل کے ساتھ جانا جانے لگا۔ عالمی سطح پر مسلمانوں کے خلاف اس نفرت انگیز رویےکا سدِباب انتہائی ضروری ہو گیا تھا یہی وجہ ہے شیخ الاسلام نے اس چیلنج سے نمٹنے کے لیے علمی و عملی بیک وقت دونوں محاذوں پر اہم اقدامات کیے۔ آپ نے نتائج سے بے خوف ہوکر اور ہر قسم کی مصلحت کو پس پشت ڈالتے ہوئے مجددانہ کردار ادا کرتے ہوئے اس چیلنج کا رد کیا اور عالمی سطح پر اسلام کے صحیح تشخص کا تحفظ کیا۔ اسلام اور جہاد کے نام پر کی جانے والی دہشت گردی کی ان کارروائیوں کے خلاف آواز بلند کی اور اسلام کے دینِ رحمت و محبت اور داعیِ امن و سلامتی ہونے کو قرآن و حدیث اور ائمہ دین کے فتاویٰ و آراء کی روشنی میں ثابت کیا۔ اس سلسلے میں آپ کی چند علمی و عملی خدمات یہ ہیں۔
1۔ دہشت گردی اور فتنہء خوارج آپ کا ایک مبسوط تاریخی فتویٰ ہے جس میں آپ نے قرآن و حدیث اور اکابرین ائمہ اور علماء کی آراء کی روشنی میں دہشت گردی کی بھر پور مذمت کی اور خودکُش حملوں کو مکمل طور پر ممنوع قرار دیا۔ آپ نے اس فتویٰ میں دین اسلام کا واضح مؤقف پوری دنیا تک پہنچایا کہ دہشت گردی کی کارروائیاں دائرہ اسلام سے خارج ہیں اور خودکُش حملے کرنے والےشہادت کا مرتبہ پانے کی بجائےجہنم پاتے ہیں۔ دینِ اسلام سرا سر امن اور محبت کا دین ہے۔
2۔ اسی طرح عملی طور پر ملکی و بین الاقوامی سطح پر مختلف سیمینارز اور کانفرنسز کا انعقاد کر کے آپ نے اسلام کے پر امن بیانیے کو تمام انسانیت کے سامنے رکھا۔ یہی وجہ ہے کہ ٹورنٹو ہو یا وینکوور۔ ۔ ۔ نیو جرسی ہو یا واشنگٹن ڈی سی۔ ۔ ۔ اوسلو ہو یا گلاسگو۔ ۔ ۔ مانچسٹر، برمنگھم یا لندن، استنبول ہو یا حیدر آباد دکن۔ ۔ ۔ ٹوکیو ہو یا ڈیووس جنیوا۔ ۔ ۔ ہر جگہ آپ نے اپنے خطابات، کانفرنسز، تصانیف اور تربیتی نشستوں کے ذریعے اسلام کو امن، محبت، رواداری اور آشتی والا دین ثابت کیا اور نوجوانانِ اُمت کا دین پر اعتماد بحال کیا۔
3۔ دہشت گردی سے عالمی انسانی برادری میں امن و سکون، باہمی برداشت و رواداری اور افہام و تفہیم کے امکانات بھی معدوم ہوتے جا رہے تھے۔ شیخ الاسلام نے ملت اسلامیہ اور پوری دنیا کو دہشت گردی کے مسئلے پر حقیقتِ حال سے آگاہ کرنے کے لیے اسلام کا دوٹوک مؤقف قرآن و سنت اور کتب عقائد و فقہ کی روشنی میں پیش کیا ہے تاکہ غلط فہمی اور شکوک و شبہات میں مبتلا حلقوں کو دہشت گردی کے بارے میں اسلام کا نقطۂ نظر سمجھنے میں مدد مل سکے۔
4۔ آپ نے اپنی ہمہ جہت سرگرمیوں کے ذریعے اس امر کو ثابت کیا کہ اسلام مذہبی جنون، انتہا پسندی اور دہشت گردی کے خاتمے کے لئے وجود میں آیا۔ اسلام دہشت گرد ہے نہ مسلمان دہشت گرد۔ اسلام دہشت گردی کی مذمت کرتا ہے۔ اسلام دہشت گردی کی ضد ہے اور جو دہشت گرد ہے وہ مسلمان نہیں ہوسکتا۔ اسلام، ایمان اور احسان نام ہی محبت و اخوت اور اعلیٰ اخلاقی و انسانی قدروں کا ہے۔
بین المذاہب رواداری کے فروغ کا چیلنج
اکیسویں صدی کے آغاز پر ایک بڑا چیلنج جو دنیا کے سامنے آیا وہ اقوامِ عالم کے درمیان رواداری اور برداشت کا ہے۔ اس چیلنج کو مدِ نظر رکھتے ہوئے شیخ الاسلام نے عالمی سطح پر امن، برداشت اور بھائی چارے کی فضا قائم کرنے اور دنیا کو امن کا گہوارہ بنانے کا ایک مثبت قدم اٹھایا۔ آپ امت مسلمہ کو متحد کرکے مسلم و غیر مسلم دنیا میں ہم آہنگی پیدا کرنے میں ایک پل کا کردار ادا کررہے ہیں۔ آپ صحیح معنیٰ میں تمام امور کو جنگ و جدل کے بجائے مذاکرات و افہام و تفہیم سے حل کرانے کا ملکہ رکھتے ہیں۔ آپ کے فکر و فلسفہ میں اسلام کا وہ حقیقی تصور موجود ہے جس سے مغربی دنیا اسلام کی حقیقی تعلیمات سے روشناس ہوگی اور مغربی اور اسلامی دنیا میں کھچاؤ ختم ہوگا کیونکہ آپ عالمی امن، حقوق انسانی اور مذہبی رواداری کے داعی ہیں۔ آپ وہ منفرد قیادت ہیں جو مسلم امہ کو قرآن و سنت، بین الاقوامی مذہبی رواداری، انسانی حقوق اور عالمی امن کے تقاضوں پر متفق کرسکتے ہیں اور نان مسلم ورلڈ کو عالمی امن، مذہبی رواداری، حقوق انسانی اور جمہوری تقاضوں کے مطابق پالیسی وضع کرنے پر قائل کرسکتے ہیں۔ اس کاثبوت تحریک منہاج القرآن کے پلیٹ فارم سے بین المذہب روادری کے فروغ کے لیے قائم کیے گئے فورم سے بخوبی ملتا ہے جس کے تحت آپ نے مختلف مذاہب سے تعلق رکھنے والوں کو قیامِ امن کے مشترکہ ایجنڈے پر متحد کیا نیز آپ باہمی بھائی چارے، برداشت اور رواداری کے کلچر کو فروغ دے رہے ہیں۔
حاصلِ کلام
اپنی تحریر کا اختتام کرتے ہوئے اس حقیقت کا اعتراف کروں گی کہ آپ کی کثیر الجہات خدمات کی بدولت آپ کے متعلق لکھنے اور بات کرنے والے اپنی وسعت فکر کے مطابق آپ کے کام اور شخصیت پر لکھتے اور گفتگو کرتے رہے ہیں اور آنے والی کئی صدیا ں کرتے رہیں گے مگر آپ کی جامع خدمات اور امت پر احسانات کا احاطہ نا ممکن ہے۔ یہ سلسلہ بحمد اللہ تعالیٰ تا دیر جاری و ساری رہے گا کیونکہ آپ کے کام کامسلسل انتھک انداز، تحریر و تقریر کی سرعت، زورِ بیان اور جولانی قلم کی تازگی ماشاء اللہ اپنے پورے جوبن پر ہے جس سے آپ امتِ مسلمہ کو بالخصوص اور اقوامِ عالم کو بالعموم منور و تاباں کر رہے ہیں۔ مذکورہ بالا نکات شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری مد ظلہ العای کی ہمہ جہت خدمات میں سے چند ایک ہیں جن سے یہ حقیقت عیاں ہوتی ہے کہ آپ نے امت کو درپیش ان گنت چیلنجز کا حل پیش کیا۔ آپ کی شخصیت امتِ مسلمہ کے لیے ایک عظیم مسیحا ہے۔ آپ بارگاہِ خداوندی سے عطا کیے جانے والا وہ عظیم تحفہ ہیں جوطویل دعاؤں اور مناجات کا ثمر ہوا کرتا ہے۔ جو اقبال کے اس شعر کی مصداق
عمر ہا در کعبہ و بُت خانہ می نالد حیات
تا ز بزمِ عشق یک دانائے راز آید برُوں
ہیں کہ زندگی طویل عرصے تک کعبہ اور بُت خانے میں گِریہ و زادی کرتی ہے۔ تب کہیں جا کر بزمِ عشق سے ایک دانائے راز پیدا ہوتا ہے۔ آپ جیسی شخصیات صدیوں بعد پیدا ہوا کرتی ہیں آج آپ کی سالگرہ کی نسبت سے اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ اللہ رب العزت ہمیں اپنی اس عظیم نعمت کی قدر و منزلت جاننے کی توفیق عطا فرمائے آپ کو تا قیامت سلامت رکھے اور دونوں جہاں میں ہمیں آپ کی سنگت و صحبت میں استقامت نصیب فرمائے۔ (آمین بجاہ سید المرسلینﷺ)