حسبِ سابق امسال بھی قائد ڈے کےموقع پر اپنی بساط کے مطابق مذکورہ عنوان اپنے قارئین کی نذر کر رہی ہوں۔ یہ حقیقت اظہر من الشمس ہے کہ انسان کی سب سے قیمتی متاعِ حیات اس کی نسل ہوتی ہے۔ آئندہ نسل کی جسمانی پرورش کے ساتھ ساتھ اُس کی دینی، اخلاقی، روحانی اور معاشرتی تعلیم و تربیت بھی انتہائی ضروری ہے۔ فی زمانہ اولاد کی تربیت کے باب میں والدین کو درپیش مسائل میں دین سے دوری اوربے راہ روی کا مسئلہ سب سے زیادہ اہم ہے۔ میری دانست میں یہ وہ فریضہ ہے جو دورِ حاضر میں والدین تنہا سر انجام نہیں دے سکتے، جب تک کہ وہ کسی دینی و روحانی تعلیم و تربیت کا جدید اُسلوب و نظام رکھنے والی کسی شخصیت یا جماعت کے ساتھ منسلک نہ ہو جائیں۔ اس دورِ پُرفتن میں آئندہ نسلوں کے ایمان و عقائد کی حفاظت اور بقا کے لیےمنہاج القرآن سے وابستگی کیوں اختیار کی جائے- اس سوال کا جواب تلاش کرنے سے قبل ہمیں نسلوں کی دین سے دوری اور بے راہ روی کے اسباب تلاش کرنا ہوں گے۔ اس لیے کہ کسی بھی مرض کی تشخیص کے بغیر اس کا علاج ممکن نہیں ہوتا۔ میرے نزدیک اس کے بہت سےاسباب ہیں، جن میں سے دو اسباب بڑ ی اہمیت کے حامل ہیں۔ ان میں سے ایک والدین اور دوسرا معاشرے کا کردار ہے۔
شریعت مطہرہ کی رو سے والدین پر اولاد کے سلسلہ میں جو حقوق عائد ہوتے ہیں، ان میں سب سے اہم اور مقدم حق اُن کی دینی تعلیم و تربیت ہے اور اسلامی افکار کی بنیاد پر اولاد کی تعلیم و تربیت کرنا ہر والدین کا بنیادی فریضہ ہے۔ اسلام عصری تعلیم کا ہرگز مخالف نہیں؛ لیکن دین کی بنیادی تعلیم کا حُصول اور اسلام کے مبادیات و ارکان کا جاننا ہر مسلمان پر فرض ہے اور اسی پر اُخروی فلاح و کامیابی کا دار و مدار ہے۔ یہاں یہ امر بھی ملحوظ رہے کہ نسلوں کی تعلیم و تربیت میں کوتاہی آخرت میں مؤاخذہ کاسبب بن سکتی ہے۔ جیسا کہ ذیل میں بیان کردہ قرآن و حدیث سے ثابت ہے۔ قرآن حکیم میں ارشاد ہوتا ہے:
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا قُوْۤا اَنْفُسَكُمْ وَ اَهْلِیْكُمْ نَارًا وَّ قُوْدُهَا النَّاسُ وَ الْحِجَارَةُ عَلَیْهَا مَلٰٓىِٕكَةٌ غِلَاظٌ شِدَادٌ لَّا یَعْصُوْنَ اللّٰهَ مَاۤ اَمَرَهُمْ وَ یَفْعَلُوْنَ مَا یُؤْمَرُوْنَ
اے ایمان والو! اپنے آپ کو اور اپنے اہل و عیال کو اس آگ سے بچاؤ جس کا ایندھن انسان اور پتھر ہیں، جس پر سخت مزاج طاقتور فرشتے (مقرر) ہیں جو کسی بھی امر میں جس کا وہ انہیں حکم دیتا ہے اللہ کی نافرمانی نہیں کرتے اور وہی کام انجام دیتے ہیں جس کا انہیں حکم دیا جاتا ہے۔
(التحریم، 66/6)
حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
آگاہ ہو جاؤ تم میں سے ہر ایک نگہبان ہے اور ہر ایک سے اس کی رعایا کے بارے میں سوال کیا جائے گا۔ امام (امیرالمؤمنین) لوگوں پر نگہبان ہے اور اس سے اس کی رعایا کے بارے میں سوال ہو گا۔ مرد اپنے گھر والوں کا نگہبان ہے اور اس سے اس کی رعایا کے بارے میں سوال ہوگا، عورت اپنے شوہر کے گھر والوں اور اس کے بچوں کی نگہبان ہے اور اس سے ان کے بارے میں سوال ہوگا، کسی شخص کا غلام اپنے سردار کے مال کا نگہبان ہے اور اس سے اس کے بارے میں سوال ہو گا۔ آگاہ ہو جاؤ کہ تم میں سے ہر ایک نگہبان ہے اور ہر ایک سے اس کی رعایا کے بارے میں پُرسش ہوگی۔ (البخاری، الصحیح، کتاب الأحکام، باب قول الله تعالىٰ (أطيعوا الله وأطيعوا الرسول وأولي الأمر منكم)، 6/2611، الرقم/6719)
دورِ حاضر میں نسلوں کی تعلیم و تربیت ایک چیلنج بن کر رہ گئی ہے۔ صاحب علم کہتے ہیں کہ اولاد کے حقوق والدین کے فرائض ہوتے ہیں مگر کچھ حساس معاملات میں والدین اپنے فرائض میں غفلت برتتے ہیں۔ جس کے نتیجہ میں ہماری اولاد دین سے دور اور بے راہ روی کا شکار نظر آتی ہے۔ مثلاً:
- ہماری نسلیں قرآنی تعلیمات سے دور ہیں۔ انہیں بچپن سے شعور ہی نہیں دیا جاتا کہ قرآن حکیم کتابِ انقلاب ہے۔ یہ عصر حاضر کے چیلنجوں کا نہ صرف مقابلہ کرنے کی اہلیت رکھتی ہے بلکہ قیامت تک آنے والے تمام مسائل کاحل بھی فراہم کرتی ہے۔
- ہماری نسلیں دین سے بھی دور ہیں۔ اولاً وہ اسلام کے بارے میں بہ طریق احسن آگاہی نہیں رکھتیں اور اگر رکھیں تو وہ بھی ناقص اور کم علمی پر مبنی ہوتی ہے۔ اس کی وجہ سے وہ دین سے دور اور شکوک و شبہات میں مبتلا رہتی ہیں۔
- اولاد کی بے راہ روی کا ایک سبب اسلامی تاریخ اور علمی ورثہ سے بے خبری ہے۔
اکثریت کا حال یہ ہے کہ وہ حضور نبی اکرم ﷺ
کی حیاتِ مبارکہ، خلفائے راشدین کے کارناموں، صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی اَنتھک جد و جہد سے ناآشنا ہیں۔
- بے راہ روی کا ایک اہم سبب صحبت صلحاء سے دوری ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ انسان جس طرح کی صحبت اختیار کرتا ہے؛ اسی طرح کے مزاج، طبیعت اور رجحان کی عکاسی کرتا ہے۔ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا ہے: اچھے اور برے ہم نشین کی مثال مشک والے اور لوہار جیسی ہے کہ مشک سے کوئی فائدہ حاصل کر کے ہی واپس لوٹو گے یا تو اسے خریدو گے ورنہ خوشبو تو پاؤ گے اور لوہار کی بھٹی تمہارے جسم پر کپڑے کو جلائے گی ورنہ اس کی بدبو تو تمہیں پہنچے گی۔ (البخاری، الصحیح، کتاب البیوع، باب في العطار وبيع المسك، 2/741، الرقم/1995)
عصرِ حاضر میں اگر معاشرہ کا جائزہ لیا جائے تو یہ آشکار ہوتا ہے کہ گزشتہ ادوار اور آج کے دور میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ہماری روایتی اقدار آہستہ آہستہ ناپید ہوتی جا رہی ہیں۔ معاشرے میں ناگزیر وجوہات کی وجہ سے مایوسی انتہا پر ہے۔ اچھے بُرے کی تمیز ختم ہوتی جا رہی ہے۔ شیطانی اور طاغوتی طاقتیں ہمارے اور ہماری نوجوان نسل کے عقائد و ایمان پر حملہ آور ہو رہی ہیں۔ تعمیری سوچ کا فقدان ہے، تعلیمی مواقع کم ہیں، نوجوانوں کو ان کی تعلیمی اور معاشی ناکامیاں مایوس اور ناامید کر رہی ہیں۔ الغرض! کوئی ایسی بُرائی نہیں ہے جس نے معاشرے کو اپنی لپیٹ میں نہ لے لیا ہو۔ لڑائی جھگڑا، گالم گلوچ، قتل و غارت گری، مفاد پرستی، دھوکہ دہی، رشوت خوری، زنا کاری، شراب نوشی اور جوا کھیلنا جیسی غیراخلاقی بیماریاں ہر طرف عام ہو چکی ہیں۔ جن کے اثرات ان کی فکر و نظر اور قلوب و اذہان پر مرتب ہو رہے ہیں۔ ہماری نسلیں نہ صرف ان برائیوں کی زد میں آ چکی ہیں بلکہ بدعقیدگی، بد اعمالی اور بداخلاقی کی وجہ سے اخلاقی، روحانی اور معاشرتی تربیت سے بھی محروم ہو رہی ہیں۔ ایسےناگزیرحالات میں قرآن حکیم شیطان کے مکر و فریب اور اس کے بہکاوے سے بچنے کے بارے میں ارشاد فرماتا ہے:
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا ادْخُلُوْا فِی السِّلْمِ كَآفَّةً ۪ وَّ لَا تَتَّبِعُوْا خُطُوٰتِ الشَّیْطٰنِ ؕ اِنَّهٗ لَكُمْ عَدُوٌّ مُّبِیْنٌ
اے ایمان والو! اسلام میں پورے پورے داخل ہو جاؤ، اور شیطان کے راستوں پر نہ چلو، بے شک وہ تمہارا کھلا دشمن ہے۔
[البقرۃ: 2/208]
اس طرزِ عمل سے نجات کے لیے ایک انقلابی سوچ درکار ہے۔ جس کے لیے حضور نبی اکرم ﷺ نے آج سے کم و بیش 1400 برس قبل آگاہ کر دیا تھا کہ جب انسانی سوچ اور عمل طاغوت کے زیر اثر آ جائیں تودور فتن شروع ہو جائے گا۔ پھر اِس دور میں اگر کوئی شخص چاہے کہ وہ اپنے اور اپنی اولاد کے ایمان کو بچائے تو اُسے قیامِ حق کی اجتماعی کاوشوں کا حصہ بننا ہو گا۔ کیونکہ یہی وہ واحد صورت ہے جس پر ایمان کو قائم رکھنا ممکن ہو گا اور اگر کوئی فرد انفرادی کوشش کرتا رہے اور اجتماعیت کا حصہ نہ بنے تو وہ جان لے کہ اس کا ایمان آہستہ آہستہ کمزور سے کمزور تر ہوتا چلا جائے گا۔ ایمان کی اس حالت کو دل کی مثال سے بخوبی سمجھا جا سکتا ہے کہ جب انسان ایک گناہ کرتا ہے تو اس کے دل پر ایک سیاہ نقطہ لگ جاتا ہے اور جب وہ مسلسل گناہ کرتا چلا جاتا ہے تو اس کا پورا دل سیاہ ہو جاتا ہے اور اسے خبر ہی نہیں ہوتی۔ اگرچہ یہ ایک تلخ حقیقت ہے، جس سے دردِ دل رکھنے والا کوئی بھی شخص نگاہیں نہیں چرا سکتا۔ ایسے موقع پر دعا سے بڑھ کر دوا کی ضروت ہوتی ہے اور دوا یہی ہے کہ اپنی ذات اور اولاد کو کسی ایسی تنظیم اور دین کے مرکزی دھارے کے ساتھ وابستہ کیا جائے، جو اس ماحول میں ایمان اور حق کی حفاظت کا عَلَم تھام کر نکلی ہو۔ جیسا کہ قرآنِ حکیم میں اللہ تعالیٰ کا واضح ارشاد ہے:
وَ لْتَكُنْ مِّنْكُمْ اُمَّةٌ یَّدْعُوْنَ اِلَی الْخَیْرِ وَ یَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَ یَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ ؕ وَ اُولٰٓىِٕكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ
اور تم میں سے ایسے لوگوں کی ایک جماعت ضرور ہونی چاہیے جو لوگوں کو نیکی کی طرف بلائیں اور بھلائی کا حکم دیں اور برائی سے روکیں اور وہی لوگ بامُراد ہیں۔
(آل عمران، 3/104)
شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری اس حوالے سے فرماتے ہیں:
میری عمر بھر کی سوچ، فہم، مطالعہ، مشاہدہ، تجربہ، حکمت اور بصیرت کا نچوڑ ہے کہ ایسے دورِ فتن میں محض اِنفرادی جدوجہد سے اپنا اور اپنی نسلوں کادین اور ایمان بچانا ناممکن ہے جب تک کہ پاکیزہ اجتماعیت کا حصہ نہ بنا جائے۔ کیو نکہ ایمان پر اجتماعی طور پر جتنی شدت کے ساتھ شیطانی حملے ہو رہے ہیں، اس کے بچاؤ کے لیے اجتماعی کوشش بھی اتنی ہی شدت کی ہونا ضروری ہے۔
یاد رکھیں! اکیلا شخص ہمیشہ خطرے کی زد میں رہتا ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ ایک قافلے کو لوٹنا مشکل ہوتا ہے۔ جب کہ تنہا انسان کو چور ڈاکو باآسانی لوٹ سکتے ہیں۔ لہٰذا جب تک ہم کسی دینی جماعت سےمنسلک ہو کر مستقل طور پر اس کے ساتھ جُڑ نہیں جاتے اور تنہا رہتے ہیں تو شیطانی قوتوں کے حملوں کا دفاع کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔ اس وقت تنہا شخص کی حالت ریوڑ سے بچھڑے ہوئے اس میمنے کی سی ہوتی ہے جسے بھیڑیا کسی وقت بھی جھپٹ کر اُچک لے۔
دورِ فتن میں اجتماعیت کے ساتھ جڑے رہنے سے ایمان کی بھی حفاظت ہو گی اور عمل کی بھی حفاظت ہو گی۔ حضرت معاذ بن جبل ؓ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
إِنَّ الشَّيْطَانَ ذِئْبُ الإِنْسَانِ کَذِئْبِ الْغَنَمِ.
شیطان انسانوں کے لیے بھیڑیا کی مانند ہے اسی طرح جیسے بکریوں کے ریوڑ کے لیے بھیڑیا ہوتا ہے۔
پھر فرمایا:
يَأْخُذُ الشَّاةَ الْقَاصِيَةَ وَالنَّاحِيَةَ. فَإِيَّاکُمْ وَالشِّعَابَ، وَعَلَيْکُمْ بِالْجَمَاعَةِ وَالْعَامَّةِ وَالْمَسْجِدِ.
وہ بھیڑیا ریوڑ سے دور اور الگ تھلگ بھیڑ کو پکڑتا ہے۔ پس، تم ٹکڑوں اور گروہوں میں بٹ جانے سے بھی بچو، تمہارے اوپر جماعت، عوام اور مسجد کے ساتھ جڑ جانا لازم ہے۔
(احمد بن حنبل، المسند، 5/233، الرقم/21928)
جس طرح بھیڑیئے کو تنہا تنہا بکریاں مل جائیں تو انہیں بھیڑیا اچک کر لے جاتا ہے، اسی طرح شیطان اجتماعیت سے الگ ہو کر تنہا رہنے والے مسلمان کو پکڑ کر گمراہ کر دیتا ہے۔ لہٰذا تم پر لازم ہے کہ اس بکری کی طرح نہ ہو جاؤ جو اپنے ریوڑ سے جدا ہو کر دور کنارے پر کھڑی ہوتی ہے اور پھر اسے بھیڑیئے سے کوئی بچا نہیں سکتا۔
مسلمان اگر اجتماعیت سے جدا ہو کر تنہا ہو جائے گا تو شیطان کے حملے سے اسے کوئی نہیں بچا سکتا۔
موجودہ دور میں کوئی شخص اس حقیقت سے انکار نہیں کر سکتا کہ پوری دنیا سمٹ کر ایک (Global Community) بن چکی ہے اور تمام انسان ایک عالمی برادری (Global VIllage) کی مانند ہیں۔ یہاں ہر انفرادی جد و جہد بھی کسی نظام کے تحت اجتماعی جد و جہد کا حصہ ہوتی ہے۔ مثل مشہور ہے ایک اور ایک گیارہ یعنی جب ایک سے زائد افراد مل جاتے ہیں تو ان کی اہمیت بڑھ جاتی ہے۔ اس لیے کہا گیا ہے کہ جب دو افراد جمع ہو جائیں تو فرداً فرداً نماز پڑھنے کے بجائے باجماعت نماز ادا کریں۔
اللہ تعالیٰ نے خیر اور بھلائی کے کام کو ایک دوسرے کے ساتھ مل کر انجام دینے کے بارے میں ارشاد فرمایا ہے:
وَ تَعَاوَنُوْا عَلَی الْبِرِّ وَ التَّقْوٰی ۪
اور نیکی اور پرہیزگاری (کے کاموں) پر ایک دوسرے کی مدد کیا کرو۔
(المائدۃ، 5/2)
اجتماعیت کے فیض سے نہ صرف ثابت قدمی اور صحیح سمت کا تعین ہوتا ہے بلکہ استقلال اور مستقل مزاجی بھی پیدا ہوتی ہے۔ اسے ذیل میں بیان کردہ مثالوں سے بخوبی سمجھا جا سکتا ہے:
- شہد کی مکھیوں میں ہمیں باہمی ربط اور اجتماعیت کی عمدہ مثال ملتی ہے۔ جس کا نتیجہ شہد کی صورت میں نکلتا ہے۔
- چیونٹیاں آپس میں مل کر قطار در قطار اپنے سے کئی گنا وزن اٹھا کر لے جاتی ہیں اور اپنے بلوں میں خوراک کا ذخیرہ کر لیتی ہیں۔
اللہ تعالیٰ کے رسولﷺ نے مسلمانوں کی وحدت و اجتماعیت کو ایک عمارت کی مانند قرار دیا ہے۔ حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
ایک مومن دوسرے مومن کےلیے ایک عمارت کی طرح ہے۔ جس طرح مکان کی ایک اینٹ دوسری اینٹ کےلیے مضبوطی اور قوت کا باعث ہوتی ہے۔ پھر آپ ﷺ نے ایک ہاتھ کی انگلیاں دوسرے ہاتھ کی انگلیوں سے ملاکر سمجھایا۔
(البخاری، الصحیح، کتاب المساجد، باب باب تشبيك الأصابع في المسجد وغيره، 1/182، الرقم/467)
دین کی صحیح تعلیمات کے حصول کے لیے کسی ایسی تحریک کا چناؤ کرنا ضروری ہے کہ جس کا مقصدِ اولیں رضائے الٰہی اور رضائے رسول ﷺ کے حصول کے ساتھ عصرِ حاضر کے فتنوں سے بچاؤ بھی ہو۔ یہ ایک بدیہی حقیقت ہے کہ کسی بھی جماعت کی تلاش کا جب ارادہ کیا جاتا ہے تو اس دوران مختلف چیلنجیز کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ارد گرد لاتعداد تنظیمیں، جماعتیں نظر تو آتی ہیں لیکن ان کی دینی سوچ اور نقطۂ نظر بالکل محدودنظر آتا ہے، ان کے قول و فعل میں تضاد نظر آتا ہے، ان کی منزل واضح نہیں ہوتی اور ان میں مقصدیت کا بھی فقدان نظر آتا ہے۔
اب یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ جماعت کے اِنتخاب کے سلسلہ میں کیا پیمانہ ہونا چاہیے؟
کسی بھی جماعت کے ساتھ وابستہ ہونے سے قبل کم از کم کچھ معیارات اور requirements کو مد نظر رکھتے ہوئے جماعت اور اس کے قائد کو جانچا اور پرکھا جائے کہ اس کا قائد کیسا ہے؟ اس کا نظریہ، اس کی فکر، اس کا مشن اور اس کا نصب العین کیا ہے؟
معزز قارئین! قائد وه ہوتا ہےجو:۔
- اپنے ویژن اور بصیرت کی بنیاد پر لوگوں کو کسی اہم مقصد پرمجتمع کر کے نہ صرف ان میں تحرک پیدا كرتا ہے بلکہ انہیں سوئے منزل بھی گامزن كرتا ہے۔
- وہ زمانۂ شناس ہوتا ہے۔
- علم و حکمت کا خوگر ہوتا ہے۔
- قدیم و جدید علوم پر دسترس رکھتا ہے۔
- حق وباطل میں تمیز رکھنے والاہوتا ہے۔
- ذاتی مفادات پر قومی مفادات کو فوقیت دیتا ہے۔
- اقتدار کے لالچ سے پاک اپنی قوم کے مستقبل کی بہتری کے لیے فکر مند رہتا ہے۔
- وسیع سوچ کا مالک ہونے کے ساتھ حقیقت پسندی سے کام لیتاہے۔
- تاریخ ثابت کرتی ہے کہ قائد ہمیشہ متاثر کن مبلغ ہوتا ہے۔ اس کی زبان سے نکلنے والا ایک ایک لفظ اپنی قوم کے لیے قانون کی حیثیت رکھتا ہے۔ جس کی وجہ سے بکھرے ہوئے افرادِملت اس کی ایک آواز پر متحد ہو جاتے ہیں۔
قائد کی مذکورہ خصوصیات کو جاننے کےبعد جماعت اور تنظیم کا جائزہ لینا بھی ضروری ہے کہ جس تنظیم اور جماعت کا انتخاب کیا جا رہا ہے، وہ اپنی فکر و نظر کے اعتبار سے درست اور اس کی اہل بھی ہے یا نہیں؟ اس مقصد کے لیے ذیل میں بیان کردہ پہلوؤں کا جائزہ لینا ضروری ہے:
- اس جماعت کےقیام کے اَہداف اور مقاصد کیا ہیں؟
- اس کی دعوت کا دائرہ کار کیا ہے؟
- دینی و اخلاقی اقدار اور عقائد دینیہ کے تحفظ میں اس کی خدمات کس درجہ کی ہیں؟
- اس جماعت کے ساتھ معاشرے کا کوئی مخصوص طبقہ منسلک ہےیا بلا تخصیص و تفریق ہر طبقہ ہائے فکر اس سے استفادہ کر رہا ہے؟
- وہ جماعت فردِ واحد کی ذاتی اصلاح سے اجتماعی اصلاح تک انسانی معاشرے کے کس کس گوشےمیں فلاحی اور رفاہی کام کر رہی ہے؟
- دینِ اسلام کے آفاقی پیغام کو عالمی سطح تک پھیلانے میں اس کی کاوشیں کتنی ہیں؟
- عصرِ حاضر میں اسلام کو درپیش چیلنجز سے نمٹنے کے لیے وہ کس حد تک اپنا کردار ادا کر رہی ہے؟
- اسلام کے تصورِ امن کو فروغ دینے اور تجدید و احیائے دین میں اس جماعت کی خدمات کیا ہیں؟
جہاں آپ کواپنے سوالات کے تسلی بخش جوابات مل جائیں اور شرح صدر حاصل ہو جائے تو اس جماعت یا تنظیم کے ساتھ وابستہ ہونے میں تاخیر نہ کریں تاکہ اس کے ساتھ وابستہ ہو کر آپ اپنے ایمان کو مضبوط تر کرنے اور دین کا اصل تصور اگلی نسلوں میں منتقل کرنے میں کامیاب ہو سکیں۔
معززقارئین!
اس دور فتن کے فتنوں سے محفوظ رہنے اور ایمان و عقائد کے بچاؤ کے لیے تحریک منہاج القرآن کی صورت میں ہمیں امید کی ایک روشن کرن نظر آتی ہے۔ یہ ایک ایسی تحریک ہے جو اسلام کی ہمہ گیریت اور آفاقیت کی علامت ہے۔ جس کے ساتھ وابستہ و منسلک ہو کر حفاظتِ ایمان کا فریضہ سرانجام دیا جا سکتا ہے۔ اس لیے کہ اس تحریک نے نہ صرف اُمت مسلمہ کے ہر طبقہ ہائے فکر کو انفرادی و اجتماعی طور پر اُمتِ محمدی ﷺ کی خدمت کا شعور عطا کیا ہے۔ بلکہ یہ تحریک نیکی اور خیر کے فروغ کے لیے بہت منظم انداز میں ملک اور بیرون ممالک ہر سطح پر بھرپور جد و جہد کر رہی ہے۔ اس تحریک کے بانی اور قائد شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری ہیں۔ جن کی حیات پر ایک طائرانہ نظر ڈالی جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ کثیر الاوصاف شخصیت ہمہ وقت تمام میادین میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منواتے ہوئے اس طرح نظر آتے ہیں کہ:
- 80ء کی دہائی سے لے کر آج تک شیخ الاسلام دنیائے اسلام میں ہی نہیں بلکہ کرۂ اَرض کے اکثر براعظموں میں اس تحریک کو اپنی دُور رَس بصیرت، معتدل سوچ اور جدید و قدیم علوم کے حسین امتزاج کی بدولت متعارف کروا چکے ہیں۔
- شیخ الاسلام دنیا بھر میں جہاں بھی جاتے ہیں، وہاں فرقہ وارانہ تعصبات کے خاتمے کا باعث بنتے ہیں۔
- جب دہشت گردی اور انتہا پسندی کی لہر نےپوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا
تو اس وقت پوری دنیا میں اگرکسی نے جرأت اور دلیل کی قوت کے ساتھ دہشت گردی اور
انتہا پسندی کے خلاف Counter Nerrative
پیش کیا تو وہ شیخ الاسلام ہیں۔ آپ نے قیامِ اَمن اور انتہا پسندی و دہشت گردی کے خاتمے کے لیے اُردو، انگریزی اور عربی زبان میں 46
کتب پر مشتمل ’فروغِ اَمن اور اِنسدادِ دہشت گردی کا اِسلامی نصاب ( Islamic Curriculum on peace and counter-terrorism) تشکیل دیا ہے۔
- دنیا کے سامنے اسلام کا Moderate vision اگر کسی نے دیا تو وہ شیخ الاسلام ہیں۔
- شیخ الاسلام سیکڑوں موضوعات پر ایک ہزار سے زائد کتب کے مصنف ہیں۔ جن میں سے 650 سے زائد کتب اردو، عربی اور انگریزی زبان میں شائع ہو چکی ہیں۔ قدیم و جدید ہر طرح کے سیکڑوں موضوعات پر 10 ہزار سے زائد آپ کے خطابات اور دروس ہیں۔ سیکڑوں کی تعداد میں PhD ڈاکٹرز آپ کے شاگرد ہیں۔ اورآپ کی شخصیت پر PhDs کی جا رہی ہیں۔
- شیخ الاسلام نے عصرِ حاضر کے تقاضوں کے عین مطابق ایک ایک موضوع اور اس کی جزئیات کو قرآن مجید کی آیات مبارکہ اور حضور نبی اکرم ﷺ کی احادیث مبارکہ سے ثابت کرکے قرآن و سنت کا ایک compendium اُمتِ مسلمہ کے سامنے پیش کیا جو بلاشبہ آپ کی ایک انفرادی اور تجدیدی خدمت ہے۔ جس کو آپ نے نصف صدی سے بھی کم عرصہ میں میدان علمیہ و فکر یہ اور ذہنیہ کا احاطہ کرتے ہوئے احیائے اسلام اور تجدیدِ دین کا حق ادا کر دیا ہے۔
- دنیا کے 90 سے زائد ممالک میں منہاج القرآن انٹرنیشنل کی تنظیمات اور بیشتر میں مراکز قائم ہو چکے ہیں جو اسلام کا آفاقی پیغام امن و سلامتی عام کرنے اور نسلِ نو کی دینی، اور اخلاقی و روحانی تعلیم و تربیت میں مصروفِ عمل ہیں۔
- بیرونی دنیا میں مساجد، اسلامک سینٹرز اور دینی تعلیم کے مراکز قائم کیے گئے ہیں، جہاں بچوں اور ان کے والدین کے لیے روزانہ، ہفتہ وار حلقہ درود و فکر، ماہانہ اجتماعات، محافل میلاد، الہدایہ تربیتی کیمپس، سیمینارز اور تربیتی و اصلاحی پروگراموں کے انعقاد کا ایسا مربوط نظام قائم کیا گیا ہے کہ وہاں پر موجود نوجوان نسل کو دینی اور اخلاقی تربیت کے لیے مکمل ماحول میسر آ چکا ہے۔
- خواتین کو فکری و نظریاتی اور علمی و عملی تعلیم و تربیت کے لیے شیخ الاسلام کی زیر سرپرستی منہاج القرآن ویمن لیگ کا ایک مکمل فورم کام کر رہا ہے، جس کے ذریعے خواتین کو اسلامی تعلیمات کے مطابق معاشرے میں اپنا کردار ادا کرنے کے لیے پلیٹ فارم مہیا کیا گیا۔ اس فورم کے تحت دنیا بھر میں خواتین ہر شعبہ زندگی بالخصوص تعلیم و تربیت، قیام امن اور اصلاح معاشرہ میں اپنا متحرک کردار ادا کررہی ہیں۔ یہ اعزاز بھی شیخ الاسلام اور تحریک منہاج القرآن کو ہی حاصل ہے کہ انہوں نے اسلامی تہذیب کی درخشندہ روایات کے مطابق خواتین کو مردوں کے شانہ بشانہ سماجی، معاشی، قانونی اور سیاسی کردار ادا کرنے کا موقع فراہم کیا۔
- شیخ الاسلام خواتینِ اسلام کو نیکی، تقویٰ، طہارت اور پاکیزگی کا پیکر بننے اور اس کی محافظت کا شعور دے رہے ہیں۔ خواتین کے اعمال و احوال اور عقائد اسلامی کی اصلاح کے لیے خصوصی تربیتی پروگرامز مثلاً حلقہ جاتِ عرفان القرآن، دروسِ قرآن، محافل ذکر و نعت، تربیتی ورکشاپس، الہدایہ کیمپس، سالانہ اعتکاف، میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کانفرنسز، محرم الحرام کے اجتماعات کا انعقاد آپ کی زیرِ سرپرستی ہر سطح پر کیا جا رہا ہے۔
گویا تحریکِ منہاج القرآن ایک ایسا شجرۂ طیبہ ہے جس کی جڑیں زمین پر ہیں اور اس کی شاخیں فضاے بسیط میں پھیل چُکی ہیں۔
اس دور پُرفتن میں منہاج القرآن اور اس کے قائد کی خصوصیات کو سامنے رکھتے ہوئے منہاج القرآن سے وابستگی اختیار کر لینا بلاشک و شبہ نہ صرف ہمارے لیے بلکہ ہماری آئندہ نسلوں کے ایمان و عقائد کی بقاء کے لیے بھی ضروری ہے۔ اس تحریک سے وابستہ ہونے والا شخص نہ صرف اپنے ایمان اورعقائد صحیحہ کا محافظ بننے کے قابل ہو جاتا ہے بلکہ وہ دوسروں کے عقائد و ایمان کو بھی بچانے میں اپنا اہم کردار ادا کرتا ہے۔ بحمدہ تعالیٰ تحریک کے رفقاء کوجہاں ایمان اور عقیدے کی سلامتی میسر آ رہی ہے وہیں یہ وابستگی ہم سے وفاداری کا بھی تقاضاکرتی ہے اور وفادار اسی کو کہا جاتا ہے جو اپنا کام پورا کرے اور اسے انجام تک پہنچائے۔ جب کہ درمیان میں راستہ بدلنے والے کو بے وفا کا ٹائٹل دیا جاتا ہے۔
راقمہ تحریک کے ساتھ وفاداری کی وضاحت بھگت کبیر کی بیان کردہ ایک حکايت سے کرنا چاہتی ہے۔ بھگت کبیر داس کا شماربرصغیر کے قدیم شعراء میں ہوتا ہے۔ جن کے کلام میں ایسا فلسفہ ہے جو ان سے ایک صدی پہلے قونیہ ترکی میں گزرے ہوئے مسلمان شاعر مولانا جلال الدین رومی کے ہاں تصوف کی صورت میں ملتا ہے۔ وفا کے عنوان سے بھگت کبیر ایک حکایت بیان کرتے ہیں۔ جس میں جلتے ہوئے درخت کی شاخ پر بیٹھے پرندے کے ساتھ ان کا مکالمہ ہے۔ جس کا خلاصہ کچھ یوں ہے:
میں ایک درخت کے پاس سے گزرا، جسے آگ لگی ہوئی تھی۔ درخت کاتنا جل رہاتها اور آگ شاخوں کوچھورہی تھی جب کہ ایک پرنده شاخ پر بیٹھا یہ منظر دیکھ رہا تھا۔ میں نے پرندے سے کہا: درخت جل رہا ہے اور شاخیں بھی جلنے والی ہیں۔ تم اُڑ کیوں نہیں جاتے، خود کو جلاتے کیوں ہو۔ پرندے نے مجھ سے پوچھا: کیا تم نے کبھی کسی سےوفا کی ہے؟ میں نے کوئی جواب نہیں دیا۔ پرندے نے کہا: اگر تم نے وفا کی ہوتی تو تم مجھ سے یہ سوال ہرگزنہ پوچھتے۔ میں نے کہا: وفا سے اس کا کیا تعلق ہے؟ پرندے نے کہا: تم نہیں سمجھو گے۔ جلنے کا تعلق عشق و وفا ہی سے ہے۔ مجھے اس درخت سے عشق ہے، پیار ہے اور محبت ہے۔ میں اسے جلتا ہوا چھوڑ کر اُڑ جانے کے بجائے اس کی شاخوں کے ساتھ جل کر خاکستر ہونا چاہتا ہوں۔ میں نے کہا: یہ بات خلافِ عقل ہے۔ پرندے نے کہا: وفامیں ایسا ہی ہوتا ہے۔ پرندہ مزید بولا: یہ وہ درخت ہے جس کی شاخوں نے میرے ماں باپ کو گھونسلے کی جگہ دی۔ یہ وہ درخت ہے جس کی شاخ پر بنے ہوئے گھونسلے میں میرے ماں باپ نے مجھے اُس وقت پالا، جب میرے پَر نہیں آئے تھے اور میں اُڑنے کے قابل نہیں تھا۔ یہ وہ درخت ہے جس کی شاخوں پر بسیرا کرکے میری عمر گزری ہے۔ اس کے ساتھ مجھے عشق ہے۔ یہ میرا محبوب ہے۔ یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ میں اسے جلتا ہوا دیکھوں اور اپنی ننھی جان بچاکر دوسرے درخت کی شاخ پر جا بیٹھوں۔ نہیں !ایسا نہیں ہوسکتا۔ میں ایسا نہیں کرسکتا۔ بھگت کبیر داس نے اس حکایت کے ذریعے وفاداری کا یہ سبق سکھایا کہ وفاداری بشرط استواری اصل ایمان ہے۔
معززقارئین! جو وابستہ ہونے کے بعد بے وفا ہو کر جماعت چھوڑ دے تو اس کی مثال اس مسافر کی سی ہے جو ایک مسافر کی حیثیت سے ٹرین میں سوار ہو کر سفرتو کرتا ہےاور منزل پر پہنچنےکے بجائے راستے میں ہی کسی اسٹیشن پر اتر جاتا ہے۔ مگر ٹرین منزل پر پہنچے بغیر کبھی نہیں رکتی بلکہ وہ مسلسل آگے بڑھتی چلی جاتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ مسافر کے اترنے سے ٹرین کی رفتار پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔ وہ مسلسل منزل کی جانب گامزن رہتی ہے۔ اگر کچھ مسافر ٹرین سے اتر بھی جائیں تو کئی دوسرے مسافرچڑھ جاتے ہیں۔ لہٰذا ہمیں اس حقیقت کو تسلیم کرنے، سوچنے اور اپنا رویہ تبدیل کرنے کی ضرورت ہے کہ تحریک کسی کی بھی محتاج نہیں ہے اور کسی کی وابستگی چھوڑنے سے تحریک کو کوئی فرق نہیں پڑے گابلکہ کئی نعم البدل بن کر اور نئے افراد شمولیت اختیار کرتے ہوئے اپنی کارکردگی بہتر انداز میں پیش کرتے نظر آئیں گے۔
معزز قارئین !
الله تعالیٰ نے ہمیں شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی سنگت و صحبت عطا کرتے ہوئے ان کی تحریک سے وابستہ و منسلک کیا ہے۔ لہٰذا منہاج القرآن کے ساتھ ہمیں وابستگی اور وفاداری رسماً نہیں بلکہ حقیقی طور پر نبھانے کی ضرورت ہے۔ کیونکہ یہ ایک ایسا پلیٹ فارم ہے جہاں ہماری نسلیں نہ صرف اسلام کے پیغام کو اپنے قلب و روح اور معمولاتِ زندگی میں راسخ کر رہی ہیں بلکہ اپنی فرصت کے لمحات بھی صالح سنگتوں، پاکیزہ کتب اور حسنات بھری محافل میں گزار رہی ہیں۔
امسال قائد ڈے کے موقع پر اللہ رب العزت کی بارگاہ میں دعا ہے کہ وہ تحریک منہاج القرآن کو دن دگنی رات چگنی ترقی عطا فرمائے۔ اللہ تعالیٰ قائدِ تحریک شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری دامت برکاتہم العالیہ کو صحت، سلامتی اور تندرستی عطا فرمائے، آپ کا سایۂ عاطفت تادیر ہمارے سروں پر قائم و دائم رکھے اور آخرت میں بھی ہمیں آپ کی سنگت نصیب فرمائے۔ (آمین بجاہ سید المرسلین ﷺ)