فروغِ نعت کی تحریک اور شیخ الاسلام کی عملی کاوش
وطن عزیز میں فروغِ نعت کی تاریخ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری مدظلہ العالی کی ذات کا حوالہ دئیے بغیر مکمل ہی نہیں ہو سکتی جنھوں نے ایک طرف تسلسل سے بین الاقوامی سطح کی میلاد کانفرنسز کی بنیاد رکھ کے دراصل نعت کی اہمیت اور افادیت سے پورے عہد کو روشناس کروایا اور دوسری طرف اس بابرکت رجحان کے ذریعے نوجوان نسل کے ایمان و عقائد کی نشوونما کا بابرکت فریضہ بھی سرانجام دیا۔ اس مبارک عمل کے ذریعے ایک تسلسل سے آج تک ان نسلوں کی ذہنی و فکری تربیت اور تطہیر قلب و باطن کی ذمہ داری کو بھی کمال حسن و خوبی سے نبھایا۔ ان کے اس تربیتی اور تطہیری احسان کا دائرہ درج ذیل زاویوں سے ہمیں دعوتِ فکر دے رہا ہے:
1۔ فروغِ نعت کا پہلا زاویہ یہ ہے کہ انھوں نے اپنی نجی مجالس و محافل کے ذریعے نعت پڑھنے کی روایت کو بھی تہذیبی و ثقافتی اقدار سے متصل رکھتے ہوئے عام کیا۔ اس عمل نے نعت پڑھنے کی طرف نوجوانوں کے لیے رجحان ساز ی کا کردار ادا کیا۔
2۔ فروغِ نعت کا دوسرا زاویہ یہ ہے کہ انھوں نے خود اپنے خطابات سے قبل اور دیگر اجتماعات میں سماعتِ نعت کے آداب بھی خود اپنے عمل سے پروان چڑھائے۔ جب ان کا خطاب سننے کے لیے عشاق امڈے چلے آتے تھے تو انھوں نے اس سے قبل نعت پڑھے جانے کی روش کو بھی عام کیا او رغیر محسوس طریقےسے اس کی اہمیت و افادیت کواہلِ محبت کے دلوں میں جاگزیں کر دیا ۔ اپنےساتھ عقیدت رکھنے والے حلقوں میں نعتیہ مجالس کی نہ صرف سرپرستی کی بلکہ اسے اپنی نگرانی میں ادب و تہذیب آشنا کیا۔یہاں ایک طرف تو نعت کی اہمیت دینی و معاشرتی حلقوں میں اجاگر ہوئی اور دوسری طرف انھوں نے خود نعت ایسے والہانہ پن کے ساتھ سنی کہ اس کی سماعت کا رنگ بھی لوگوں کے دلوں میں نقش ہوتا چلا گیا۔ ان محافل میں ذوق و شوق کی فراوانی بھی تھی، کیف و مستی کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر بھی موجزن تھا اور آنکھوں سے برستی ہوئی اشکوں کی بے تاب جھڑیاں بھی۔
منہاج القرآن کے پلیٹ فارم سے ان کی سرپرستی میں پڑھی جانے والی نعتیں اور محافل روحانی جذب و کیف اورقلبی وارفتگی کے اعتبار سے مجالس اہل اللہ اور حلقات اہلِ تصوف کی روایت کی امین بنیں۔ جہاں وہ خود بھی اشکباری کی کیفیت سے سرشار ہوتے اور پوری کی پوری محفل بھی اسی مستی میں ڈوبی دکھائی دیتی۔
3۔ فروغِ نعت کے تیسرے زاویہ میں عالمی میلاد کانفرنس کا تسلسل سے انعقاد ایک بنیادی حوالے کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس پلیٹ فارم نے نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا بھر میں بسنے والے اہل ایمان کےد لوں میں فروغِ نعت کے حوالے سے کلیدی کردار ادا کیا۔ مینار پاکستان پر منعقد ہونے والی عالمی میلاد کانفرنس کو اگر ارضِ وطن میں محافلِ میلاد اور نعت کے فروغ کا بنیادی ستون قرار دیا جائے تو بے جا نہ ہو گا۔
4۔ چوتھا اور اہم ترین زاویہ اس سارے عمل کے بعد جامعاتی سطح پر ایک ایسے ادارے
کا قیام ہے جس کی ضرورت شدت سے محسوس کی جارہی تھی۔ انھوں نے یہاں بھی اولیت کا اعزاز
پایا اور منہاج یونیورسٹی لاہور میں حسانؓ بن ثابت سینٹر فار ریسرچ ان نعت لٹریچر جیسا
تحقیقی مرکز قائم کر کے نعت خوانی، سماعتِ نعت، فروغِ نعت کے ساتھ ساتھ اب تعلیم و
تربیتِ نعت کی ذمہ داری کو بھی پورا کر دیا ۔
کوئی بھی فن جب قبولِ عام کا درجہ حاصل کر لیتا ہے تو اس میں کچھ تربیتی امور کی ضرورت
بھی دن بہ دن بڑھتی چلی جاتی ہے اور اسی ضرورت کو محسوس کرتے ہوئے انھوں نے ایک طرف
فروغِ نعت کی تحریک کو مستحکم کیا اور دوسری طرف اس کی تربیتی ضرورتوں کو محسوس کرتے
ہوئے ایسا تحقیقی مرکز قائم کر دیا جو اب فروغِ نعت سے منسلک کثیر حلقے کی تربیت کے
فرائض بطریقِ احسن سرانجام دے رہا ہے۔ یونیورسٹی کی سطح پر اس سینٹر کا قیام نعت سے
وابستہ سنجیدہ حلقوں کی دیرینہ خواہش تھی جس پر تمام اہلِ نعت ان کے ممنون احسان ہیں۔
نعت ادب کی ترویج، اس کی تشکیل، نعت خوانی اور محافلِ نعت کا انعقاد صدیوں سے جاری
ہے۔ مقامی محلوں سے لے کر تحقیقی اداروں اور جامعات تک، نعت ادب پر مختلف سطحوں پر
کام ہو رہا ہے۔ پاکستان میں منہاج یونیورسٹی لاہور کو اپنی تیز رفتار ترقی اور کامیابی
میں نمایاں مقام حاصل ہے۔ یہ دنیا بھر کی جامعات میں منفرد حیثیت رکھتی ہے کہ یہاں
نعت ادب اور تحقیق کے لیے ایک مخصوص شعبہ قائم کیا گیا ہے۔ دنیا بھر کی کئی زبانوں
میں نعت ادب پر اہم کام ہوا ہے۔ تاہم نعت کو ایک منظم انداز میں ترتیب دینا ایک اہم
چیلنج رہا۔ مزید یہ کہ معیاری نعت ادب کی تیاری کے حوالے سے بھی خدشات موجود رہے ہیں۔
یہ ضروری تھا کہ ایک مکمل متحرک مرکز قائم کیا جائے جو پیشہ ور افراد کو نعت کے حوالے سے گہرے مطالعے میں رہنمائی فراہم کرے اور جہاں ایمان، تحقیق، روایت اور علم کے امتزاج کو واضح طور پر دکھایا جا سکے۔
اس نعت سنٹر کے مقاصد درج ذیل ہیں:
۱۔ نعت خوانی، نعت کی تشکیل اور اس کی اصلاح کا فروغ
2۔ نعت خوانی کی عوامی اور خصوصی سطح پر منظم تقریبات کا انعقاد
3۔ جامعات اور تحقیقاتی اداروں میں نعت ادب پر ہونے والے کام کی ترتیب اور تدوین
4۔ نعت ادب پر کام کرنے والے مصنفین، محققین، شعرا اور ادیبوں کی حوصلہ افزائی اور ان کے کام کو عوامی سطح پر سراہنے کے مواقع فراہم کرنا
5۔ نعت ادب کے ڈپلومہ، ماسٹرز، ایم فل، اور پی ایچ ڈی پروگراموں کا نفاذ
6۔ نعت ادب پر قومی اور بین الاقوامی کانفرنسوں،سیمینارز اور ورکشاپس کا انعقاد
7۔ نعت ادب میں تحقیق اور تنقید کے معیارات کا قیام اور ترقی
8۔ جامع نعتیہ لائبریری کا قیام
9۔ قدیم، نایاب اور قلمی نعتیہ ادب کا جمع اور تحفظ
10۔ بچوں کے لیے انگریزی زبان میں نعت کی تشکیل اور ادب پر خصوصی توجہ
11۔ نعت ادب پر کام کرنے والے مصنفین، محققین اور ناقدین کے درمیان روابط اور تعلقات کا فروغ
دنیا بھر کی جامعات میں نعت کے موضوع پر قائم ہونے والا یہ مرکز نعت کی تربیت کے ساتھ ساتھ اس کی علمی، فکری اور تحقیقی ضرورتوں کو پورا کرنے کی صلاحیت سے بھی مالا مال ہے جو دراصل شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کے فروغِ محبتِ رسول کریم ﷺ کے وژن کا آئینہ دار ہے۔ اس ریسرچ سینٹر نے بہت کم عرصے میں دنیا بھر کے نعت سے وابستہ حلقوں کی بھرپور توجہ حاصل کر لی ہے اور اس شعبے سے وابستہ افراد اس کی ضرورت اور اہمیت کا ادراک کرتے ہوئے تیزی سے اس کے ساتھ منسلک ہو رہے ہیں۔ اس بات سے صرفِ نظر نہیں کیا جا سکتا کہ بہت جلد اس سینٹر سے منسلک ہونا فنِ نعت سے منسلک طبقات کےلیے ناگزیر ہو جا ئے گا۔
نعت سینٹر کی علمی سرگرمیاں
اس سینٹر نے حال ہی میں نعت کے موضوع پر تربیتی شارٹ کورسز کا اجرا کر کے شاندار کامیابی حاصل کی جس کے بعد اب اس کی اہمیت دو چند ہو گئی ہے۔ ذیل میں چند اقدامات ملاحظہ ہوں:
۱۔ ’’تربیتِ نعت کورس‘‘ کسی بھی یونیورسٹی کی سطح پر ہونے والی پہلی کاو ش تھی جس میں طلبہ و طالبات کی کثیر تعداد نے شرکت کی اور انھیں پہلی بار ایک ہی جگہ مختلف اساتذہ فن سے تربیت کا موقع میسر آیا جس کے ذریعے انھیں صوتی زیر و بم سے لے کر انتخابِ کلا م و حسنِ ادائیگی کے تمام بنیادی امور پر رہنمائی فراہم کی گئی۔
2۔ اس شعبے کی ایک اور اہم انفرادیت نقابت و نظامت کی تربیت بھی ہے جس کے حوالے سے ’تربیتِ نقابت کورس‘‘ کے ذریعے اس فن کا ذوق رکھنے والے طلبہ و طالبات کو بھرپور رہنمائی میسر آئی جس میں عملی نقابت سے تعلق رکھنےوالے معروف نقبا کے ساتھ ساتھ میڈیا انڈسٹری کے نامور اینکر پرسنز اور دیگر اہم شخصیات بھی بطورِ استاد شریک ہوئیں ۔
3۔ بچوں کے لیے سکول کی تعطیلات کے دوران ’’نعت سمر کیمپ‘‘ کے آن لائن کورس نے بھی نعت کا شوق رکھنے والے بچوں کی اس ضرورت کو پورا کرنے کی طرف قدم بڑھایا ہے۔
4۔ ’’تربیتِ نعتیہ شاعری کورس‘‘ نے شاعری سے شغف رکھنے والوں کی علمی پیاس کو بجھانے کا فریضہ سرانجام دیا ۔
5۔ اس علمی تحقیقی مرکز کے زیر اہتمام قومی سطح کی دو نعت کانفرنسز بھی منعقد ہو چکی ہیں جس میں ملک بھر سے علمی ادبی شخصیات کے ساتھ ساتھ بیرون ممالک سے بھی محققین ومحبین نعت نے شرکت کا اعزاز حاصل کیا۔
6۔ اس ریسرچ سینٹر کا اگلا پڑاؤ اب ’’ڈپلومہ ان نعت سٹڈیز‘‘ ہے جس کا بہت جلد اجرا کیا جا رہا ہے۔ نعت کے اس سفر میں ایک سمسٹر پر مشتمل یہ ڈپلومہ اس مبارک صنف پر علم اور تحقیق کے نئے افق روشن کرنے کا سبب بنے گا۔ایک ہی سال میں ہونے والے مذکورہ اہم کورسز اور کانفرنسز نے نعت کی تربیت کے ضمن میں ایک سنگ میل طے کیا ہے اور اب دنیا بھر سے محبانِ نعت ان میں شمولیت کے منتظر رہتے ہیں ۔
شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری مدظلہ العالی کی اس نعت سینٹر کے پلیٹ فارم سے منعقد ہونےو الی قومی ادبی نعت کانفرنس 2023ء میں میں کی جانےو الے گفتگو ان کے ہزاروں خطابات میں اپنے موضوع کی نوعیت کے اعتبار سےحددرجہ انفرادیت کی حامل ہے جس میں انھوں نے نعت کی علمی، ادبی اور تاریخی اہمیت کے حوالے سے کئی اہم نکات پر روشنی ڈالی ۔ اس گفتگو میں نعتیہ شعری جمالیات کے دلآویز رنگ بھی تھے۔۔۔ اس مبارک فن کی دینی و تاریخی اہمیت و افادیت کا ذکر بھی عکس ریز تھا۔۔۔ اور اس کے آداب اور تقاضوں کی طرف متوجہ کرتا ہوا ان کا دل پذیرو دلنشیں لہجہ و ا ٓہنگ بھی جلوہ فروز تھا۔
یہ گفتگو کتابی صورت میں بھی شائع ہو چکی ہے جو محبانِ نعت اور طلبہ کےلیے ایک نعمت ہے جس میں وہ تمام بنیادی باتیں شامل ہو گئی ہیں جو نعت سے تعلق رکھنے والے ہر ایک فرد کی ضرورت ہیں۔ اس اہم گفتگو کے موقع پر ملک بھر سے معتبر علمی ادبی شخصیات موجود تھیں جنھوں نے اس موضوع پر ان کی حد درجہ معلومات اورعربی، فارسی، اردو کے شعری انتخاب کو بے حد سراہا۔ خصوصاً دورانِ گفتگو عربی، فارسی اور اردو کے اہم اکابرینِ نعت کا تذکرہ اور شعری محاسن پر مختلف زاویوں سے ہونے والی فکری و فنی گفتگو نے اس کانفرنس کو یادگار بنا دیا۔
شیخ الاسلام کی دینی علمی اور تربیتی خدمات کی وسعت پذیری صدیوں تک متلاشیانِ علم کی رہنمائی کرتی رہے گی اورمدحِ رسالت مآبﷺ کے فروغ میں مختلف زاویوں سے کی جانے والی ان کی کاوشوں پر وابستگان نعت ہمیشہ ان کے احسان مند رہیں گے۔