شیخ الاسلام مصطفوی تعلیمات کے پیامبر
اسلامی تاریخ کے مختلف ادوار میں اُمت ِمسلمہ کو بے شمار فتنے اور آزمائشیں درپیش رہی ہیں۔ کبھی نظریاتی گمراہی، کبھی بیرونی حملے اور کبھی اندرونی اختلافات نے امت کو کمزور کرنے کی کوشش کی۔ ہر دور میں اللہ تعالیٰ نے اپنے برگزیدہ انبیاء و رسلؑ کو مبعوث فرمایا تاکہ وہ مسلمانوں کی رہنمائی کریں، ان کے ایمان کو محفوظ کریں اور اپنے اپنے وقت کے مخصوص چیلنجز کا مقابلہ کریں۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
وَلَقَدْ بَعَثْنَا فِیْ کُلِّ اُمَّۃٍ رَّسُوْلًا اَنِ
اعْبُدُوا اللهِ وَاجْتَنِبُوا الطَّاغُوْتَ (النحل، 16 :36)
’’ اور بے شک ہم نے ہر امت میں ایک رسول بھیجا کہ (لوگو) تم اللہ کی عبادت کرو اور
طاغوت (یعنی شیطان اور بتوں کی اطاعت و پرستش) سے اجتناب کرو۔ ‘‘
اس آیت سے واضح ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہر زمانے اور ہر قوم میں اپنے رسول بھیجے تاکہ وہ انسانوں کو اللہ کی عبادت کی طرف بلائیں، اس کا مقصد یہ تھا کہ لوگوں کو باطل سے دور رکھا جائے۔ یہ انبیاء کرامؑ ہی تھے جو اللہ کے نور کو انسانوں تک پہنچانے والے تھے۔ ان کی زندگیوں میں ہمیں اس نورِالہی کی جھلک نظر آتی ہے۔ انبیاء و رسلؑ کے سلسلۂ نبوت کے آخر میں اللہ تعالی نے اپنے نور کی روشنی سے انسانیت کو تاقیامت فیض یاب کرنے کے لیے نبی کریم ﷺ کو مبعوث فرمایا۔ آپ اللہ کے آخری نبی ہیں اور سلسلۂ نبوت آپ پر ختم ہوگیا۔
اب نورِ الہی، نورمحمدی کی شکل میں اولیائے محمدی کے ذریعے امت اور انسانیت کو فیض یاب کرتا رہے گا۔ لہذا اب اسلام کی تاریخ میں ہر عظیم شخصیت درحقیقت حضور نبی اکرم ﷺ کے نور کی ایک علامت ہے۔ ان کی عظمت اور کردار یہ ثابت کرتے ہیں کہ حضور ﷺ کا فیض قیامت تک جاری رہے گا۔ حقیقی علماء، اولیاء، اور مصلحین وہی ہیں جو اس نور کو لے کر امت کی رہنمائی کرتے ہیں۔ ان کے قول و عمل میں ہمیں حضور نبی اکرم ﷺ کی تعلیمات کا عکس اور ان کی محبت کی خوشبو محسوس ہوتی ہے۔ یہی علمائے حق حضور نبی اکرم ﷺ کے وارث ہیں۔ ان کے ذریعے ہمیں یہ احساس ہوتا ہے کہ آپ ﷺ کا نور آج بھی ہمارے درمیان موجود ہے اور آپ ﷺ کی تعلیمات زندہ ہیں۔ ان شخصیات کی زندگی میں ہمیں وہی اخلاق، وہی حکمت اور وہی رہنمائی نظر آتی ہے جو حضور نبی اکرم ﷺ کی ذاتِ اقدس سے ہم تک پہنچی تھی۔ یہ علماء اور صالحین ہمارے درمیان اس بات کا ثبوت ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ کا فیض ختم نہیں ہوا بلکہ ان کے ذریعے امت کی رہنمائی کا سلسلہ آج بھی جاری ہے۔ ان کی موجودگی ہمیں یقین دلاتی ہے کہ آپ ﷺ کا نور ہمیشہ ہماری زندگیوں کو رہنمائی عطا کرتا رہے گا۔ حضرت مولانا جلال الدین رومی ؒ نے اس تصور کو اپنی مثنوی معنوی میں بڑی خوبصورتی کے ساتھ یوں بیان فرمایا ہے:
گفت طَوبَی مَن رآنی مصطفیٰ
والذی یبصِر لِمَن وَجھی رَاَی
مصُطفٰی ﷺ نے فرمایا خوشخبری ہے اس کیلئے جس نے مجھے دیکھا اور جو اسے دیکھے، جس نے میرا چہرہ دیکھا۔
چون چراغی نورِ شمعی را کشید
ھرکہ دیدآن رایقین آں شمعٰ دید
جب چراغ نے شمع کی روشنی حاصل کر لی تو جس نے اُس کو دیکھا یقیناً اُس نے شمع کو دیکھا۔
ہم چنیں تا صد چراغ ار نقل شُد
دیدنِ آخر لَقای اصل شُد
اِسی طرح اگر وہ روشنی سو چراغوں میں منتقل ہوئی تو آخری کا دیکھنا بھی اصل کی ملاقات تھی۔
خواہ نور از اوّلیں بستاں بجاں
خواہ از نورلسپیں فرقے مداں
خواہ پہلے والے سے تُو دل و جان سے روشنی لے، خواہ آخری روشنی سے، کوئی فرق نہ سمجھ۔
خواہ بین نور از چراغِ آخرین
خواہ بین نورش ز شمعِ غابرین
خواہ روشنی آخری چراغ کی دیکھے، مگر اُس کی روشنی گذرے ہوؤں کی سمجھ۔ (مثنوی معنوی، دفتر اول، 1946 تا 1950)
ماضی کے چیلنجز اور علما و اولیائے کرام کا کردار:
تاریخ کے اوراق گواہ ہیں کہ جب بھی امت کسی بڑے فتنہ کا شکار ہوئی، اللہ تعالیٰ نے اپنے اولیاء کو مبعوث کیا جنہوں نے اپنے تقویٰ، علم اور کردار کی طاقت سے اسلام کی حفاظت کی۔ مثال کے طور پر فتنہ معتزلہ کے زمانے میں امام احمد بن حنبلؒ نے اسلامی عقائد کی حفاظت کی اور امت کو گمراہی سے بچایا۔۔ ۔ صلیبی جنگوں اور تاتاری حملوں اور فتنوں کے دوران حضور غوث الاعظم شیخ عبدالقادر جیلانیؒ، مولانا جلال الدین رومی، امام غزالی، جیسے جلیل القدرعلمائے اسلام نے مسلمانوں کی رہنمائی کی، ان کے ایمان کو مضبوط کیا اور امت کو روحانی اور اخلاقی گراوٹ سے بچایا۔۔۔ الغرض تمام اولیائے کرام اپنے اپنے دور کے مخصوص چیلنجز کا سامنا کرنے کے لیے اللہ کی طرف سے نورِ محمدی کا فیض عام کرنے کے لیے منتخب کیے گئے تھے۔
شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری علم، عمل اور روحانیت کا حسین امتزاج
آج کے دور میں، جب دنیا ایک ’’عالمی گاؤں‘‘ بن چکی ہے، ماضی کے تمام فتنے یکجا ہو کر مسلمانوں کو ایک ساتھ چیلنج کر رہے ہیں۔ سائنس اور ٹیکنالوجی کی ترقی نے ان چیلنجز کو مزید پیچیدہ اور تیز رفتار بنا دیا ہے۔ آج ہمیں نظریاتی گمراہی، مذہبی انتہا پسندی، روحانی زوال اور بین الاقوامی مذہبی اور سیاسی سازشوں جیسے بے شمار مسائل کا سامنا ہے۔ ان مصائب اور فتنوں کی خبر ہمیں نبی کریم ﷺ نے اپنی احادیث میں بیان فرمادی ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا:
يُوشِكُ الْأُمَمُ أَنْ تَدَاعَى عَلَيْكُمْ كَمَا تَدَاعَى الْأَكَلَةُ إِلَى قَصْعَتِهَا.
’’قریب ہے کہ قومیں تم پر ایسے ٹوٹ پڑیں جیسے کھانے .والے کھانے کے برتن پر ٹوٹ پڑتے ہیں۔ ‘‘)سنن ابوداؤد)
یہ حدیث آج کے زمانے کی عکاسی کرتی ہے، جب مسلم امت پر ہر طرف سے حملے ہو رہے ہیں اور دنیا بھر میں اسلام کو چیلنج کیا جا رہا ہے۔ جب تمام فتنے یکجا ہو جائیں تو ایک جامع اور بے مثال رہنما کی ضرورت ہوتی ہے اور یہ اللہ کی سنت ہے کہ وہ اپنے بندوں کی رہنمائی کے لیے ایسا رہنما بھیجتا ہے جو ان فتنوں کا مقابلہ کرسکے۔ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری ’’خضرِ وقت‘‘ ہیں، جنہوں نے امت کو صحیح راستے پر رکھنے کے لیے بے مثال خدمات انجام دی ہیں۔ آپ ایک جامع اور بے مثل شخصیت کے طور پر ابھرے ہیں، جو اپنے علم، روحانیت اور عالمی خدمات کے ذریعے امت کو ان چیلنجز سے نبرد آزما ہونے کا راستہ دکھا رہے ہیں۔ ذیل میں آپ کی شخصیت کے چند گوشوں کو بیان کیا جارہا ہے:
(1) امام غزالیؒ کی طرح علم کے داعی
شیخ الاسلام کی علمی خدمات امام غزالیؒ کی یاد دلاتی ہیں، جنہوں نے اپنے وقت میں فلسفہ اور منطق کے میدان میں اسلامی عقائد کا دفاع کیا۔ شیخ الاسلام نے جدید دور کے علمی اور فکری چیلنجز کا نہ صرف ادراک کیا بلکہ اپنی تصنیفات اور خطابات کے ذریعے ان کا حل بھی پیش کیا۔ ہزاروں کی تعداد میں ان کی تصانیف وخطابات قرآن، حدیث، فقہ، تصوف، اور معاصر مسائل پر تحقیقی کام پر مشتمل ہیں۔ انہوں نے دنیا کی کئی بڑی جامعات میں لیکچرز دیے اور جدید علمی میدان میں اسلام کا مقدمہ پیش کیا۔ ان کے علمی انسائیکلوپیڈیا جیسے ’’قرآنی انسائیکلوپیڈیا‘‘، ’’موسوعۃ الحدیث‘‘ اور ’’امن کا نصاب‘‘ جیسے منصوبے دنیا بھر میں تشنگانِ علم کی پیاس بجھا رہے ہیں۔
شیخ الاسلام نے امام غزالیؒ کی طرح اسلام کی نظریاتی سرحدوں کی حفاظت کے لیے اپنی زندگی وقف کر دی ہے۔ انہوں نے انتہا پسندی، دہشت گردی اور گمراہ کن نظریات کے خلاف دلائل کے ساتھ علمی محاذ پر جہاد کیا۔ ان کی کتاب ’’دہشت گردی اور فتنہ خوارج‘‘ نے اسلام کو دہشت گردی سے جوڑنے کی تمام سازشوں کا علمی رد کیا اور دنیا کے سامنے اسلام کے امن پسند چہرے کو واضح کیا۔ انہوں نے دنیا بھر میں انتہا پسندی کے خلاف ایک علمی تحریک چلائی، جس کے اثرات کئی ممالک کی حکومتوں اور پالیسی سازوں پر بھی مرتب ہوئے۔
(2) شیخ عبدالقادر جیلانیؒ کی طرح روحانیت کے علمبردار
شیخ الاسلام کی روحانی خدمات ان کے کام کا مرکزی حصہ ہیں۔ ان کا پیغام اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی محبت اور روحانی اصلاح پر مبنی ہے۔ انہوں نے تصوف کے حقیقی معنی کو دنیا کے سامنے اجاگر کیا اور اس کے ذریعے انسانیت کو باطنی سکون اور اصلاح کی طرف بلایا۔ ان کے خطابات روحانیت کے ایسے نقوش قائم کرتے ہیں جو انسان کو اللہ کے قریب کرنے کا ذریعہ بنتے ہیں۔ وہ اس دور میں اسلام کی اس روحانی میراث کے محافظ ہیں جو حضور غوث الاعظم شیخ عبدالقادر جیلانیؒ انسانیت کے لیے ہدایت اور محبت کے پیغام کی صورت میں لے کر آئے تھے۔
(3) مولانا رومؒ کی طرح عشقِ حقیقی کے فروغ میں اہم کردار
شیخالاسلام اور مولانا رومی کی شخصیات میں ایک خاص مماثلت موجود ہے جو تصوف کی گہرائیوں، عشق کی بلندیوں اور انسانیت کے لئے پیغامِ رحمت کی صورت میں نمایاں ہوتی ہے۔ مولانا رومی کی تعلیمات کا مرکز و محور انسان کے دل کی پاکیزگی اور اللہ کی قربت کا حصول ہے جبکہ شیخالاسلام نے اس پیغام کو جدید دور کی ضروریات کے مطابق ترتیب دے کر اسے عالمی سطح پر متعارف کرایا۔ دونوں نے اپنے کلام اور تعلیمات کے ذریعے روحانی ارتقاء اور اخلاقی بلندی کی تحریک دی۔
مولانا رومی نے اپنے اشعار کے ذریعے عشقِ حقیقی کو دلوں تک پہنچایا اور شیخالاسلام نے رومی کی ان تعلیمات کو عصرِ حاضر کے تناظر میں علمی اور عملی رنگ میں ڈھالا۔ دونوں کی کوششوں کا محور انسانیت کو ایک ایسی وحدت میں پرو دینا ہے جو محبت، رواداری، اور امن کے اصولوں پر قائم ہو۔
شیخالاسلام کی تصانیف اور خطابات میں مولانا رومی کی گونج سنائی دیتی ہے، جہاں عشقِ الٰہی کے ساتھ ساتھ خدمتِ خلق کی ترغیب بھی دی جاتی ہے۔ ان دونوں شخصیات نے اپنے اپنے ادوار میں مسلمانوں کے دلوں میں ایک نئی روح پھونکی اور ان کے اندر امید اور حوصلے کے چراغ روشن کیے۔
مولانا رومی کے فلسفۂ عشق اور شیخالاسلام کی جدید تعبیرات نے انسانیت کو ایک ایسا راستہ دکھایا ہے جو روحانی ترقی اور دنیاوی کامیابی کے امتزاج پر مبنی ہے۔ یہ دونوں عظیم شخصیات، اپنی تعلیمات کے ذریعے ہمیں یہ سکھاتی ہیں کہ حقیقی کامیابی؛ عشق، محبت اور قربانی کے اصولوں پر عمل پیرا ہونے میں ہے۔
شیخالاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے مولانا رومی کے عشقِ رسول ﷺ کے مشن کو اپنے عہد میں نہایت خوبصورتی اور گہرائی کے ساتھ اپنایا اور اس کی ایک نئی جہت پیش کی۔ مولانا رومی کے عشقِ رسول ﷺ کے مشن کو شیخالاسلام نے تحریک منہاج القرآن کے ذریعے ایک زندہ حقیقت میں تبدیل کیا۔ اس تحریک کا ہر شعبہ عشقِ رسول ﷺ کی تعلیمات کا عکاس ہے۔ انہوں نے دنیا بھر میں میلاد النبی ﷺ کی تقریبات منعقد کیں، جہاں مولانا رومی کے اشعار کا ذکر کرکے لوگوں کے دلوں میں عشقِ رسول ﷺ کی شمع روشن کی گئی۔
شیخالاسلام نے مولانا رومی کے عشقِ رسول ﷺ کے فلسفہ کو نہ صرف اپنایا بلکہ اس کی عملی تطبیق سے ایک نئی روحانی تحریک پیدا کی۔ ان کی تصانیف، خطابات اور تحریک منہاج القرآن اس بات کا ثبوت ہیں کہ عشقِ رسول ﷺ ہی وہ قوت ہے جو امت کو بیدار کرسکتی ہے اور اسے کامیابی کی راہ پر گامزن کرسکتی ہے۔ مولانا رومی کی طرح شیخالاسلام نے بھی دنیا کو یہ پیغام دیا کہ عشقِ رسول ﷺ انسانیت کے تمام مسائل کا حل ہے۔
شیخ الاسلام کی زندگی کا سب سے درخشاں پہلو ان کا بے پناہ عشقِ الٰہی اور عشقِ رسول ﷺ ہے۔ ان کی ہستی ایک ایسے چراغ کی مانند ہے جو محبتِ خداوندی اور عشقِ مصطفیٰ ﷺ کی روشنی سے ہر دل کو منور کرتی ہے۔ ان کے خطابات، تصانیف، اور زندگی کا ہر لمحہ اسی پاکیزہ جذبے کی عکاسی کرتا ہے۔ جب وہ اللہ کی وحدانیت کی بات کرتے ہیں تو ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے کائنات خود بھی جھک کر سرگوشی کر رہی ہو۔۔ ۔ جب وہ رسولِ اکرم ﷺ کی سیرت بیان کرتے ہیں تو دلوں کا ہر قفل کھلنے لگتا ہے اور محبت کے چشمے پھوٹ پڑتے ہیں۔
عشقِ الہی اور عشقِ رسول ﷺ پر ان کی کتب اور خطابات نہ صرف علم کے خزانے ہیں بلکہ عشق کی شمعیں بھی ہیں جو ہر اس دل کو روشن کر دیتی ہیں جو اپنے محبوب ﷺ سے قریب ہونا چاہتا ہے۔ ان کے الفاظ دل کے سب سے گہرے گوشوں میں اتر کر اس شوق کو جگا دیتے ہیں جو کبھی خاموش تھا اور اس عشق کو جِلا بخشتے ہیں جو کبھی مدھم پڑ گیا تھا۔
شیخ الاسلام کی فکر کا مرکز و محور یہی ہے کہ انسانیت اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے عشق میں فنا ہو جائے۔ ان کی زندگی کا ہر لمحہ امت کے دلوں میں محبت کے ان چراغوں کو جلانے کے لیے وقف ہے جو بھٹکے ہوئے انسانوں کو راہِ ہدایت دکھا سکیں۔ مولانا رومؒ کی طرح ان کی زبان سے نکلے ہوئے الفاظ دلوں کو ایسے جھنجوڑتے ہیں جیسے سوئی ہوئی ارواح کو بیدار کرنے کا سامان ہو۔ وہ اپنی فصاحت و بلاغت کے ذریعے امت کے دلوں کو محبت کے سمندر میں غوطہ زن کر دیتے ہیں، جہاں ہر لہر اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے ذکر سے لبریز ہوتی ہے۔ شیخ الاسلام کے تمام خطابات اور کتب کا نچوڑ یہی ہے کہ عشقِ الہی؛ عشقِ رسول ﷺ کے بغیر نہیں ملتا اور عشقِ الہی کی طرف جانے والے سارے راستے عشقِ رسول ﷺ سے گزرتے ہیں۔ شیخ الاسلام اور مولانا جلال الدین رومی میں یہی قدرِ مشترک ہے کہ مولانا روم فرماتے ہیں:
عشقت طریق و راہ پیغمبر ما
عشق نبی کریم ﷺ کے بتائے ہوئے طریقے اور راستہ پر چلنے کا نام ہے۔ (دیوان شمس تبریز،
رباعی 54)
شیخ الاسلام کی یہ کاوشیں ہمیں یاد دلاتی ہیں کہ عشق کے بغیر ایمان کا سفر ادھورا ہے اور عشق کے بغیر اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی قربت ممکن نہیں۔ ان کی زندگی اس بات کی گواہ ہے کہ عشق صرف ایک جذبہ نہیں بلکہ بندگی کی معراج ہے۔ یہ روشنی وہ ہے جو انسان کو اللہ کے قریب کر دیتی ہے اور اسے اس کے محبوب ﷺ کے قدموں میں لا کر سرشار کر دیتی ہے۔
گذشتہ صدیوں کے مجددین اور مصلحین کے فیوضات کے امین
اسلامی تاریخ میں جتنے بھی عظیم مجددین اور مصلحین گزرے ہیں، وہ تمام ایسے روشن میناروں کی مانند ہیں جنہوں نے امتِ مسلمہ کی روحانی، فکری اور عقلی رہنمائی کی۔ ان حضرات کی تعلیمات نے نہ صرف مسلمانوں کے عقائد کو مضبوط کیا بلکہ ان کے دلوں میں عشقِ الٰہی اور عشقِ رسول ﷺ کی شمعیں بھی روشن کیں۔ عصرِ حاضر میں شیخالاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری ان تمام مجددین اور مصلحین کے فلسفہ ہائے حیات، تعلیمات اور مشن کو اپنائے ہوئے ہیں اور انہیں ایک جامع تحریک میں بدل کر امتِ مسلمہ کے لئے ایک نئی راہ ہموار کررہے ہیں۔ شیخ الاسلام حقیقی معنیٰ میں تمام مجددین اور مصلحین کے علمی و روحانی فیوضات کے امین ہیں اور ان کی تعلیمات کو جدید دور کے تقاضوں کے مطابق کماحقہ فروغ دے رہے ہیں۔
امتِ مسلمہ کے دلوں میں عشقِ رسول ﷺ کی شمع روشن کرنے کا معاملہ ہو یا اسلامی عقائد کا عقلی بنیادوں پر دفاع، شیخالاسلام نے ہر محاذ پر عشقِ الہٰی اور عشقِ مصطفی ﷺ کو جدید دنیا میں زندہ رکھا اور اسے مسلمانوں کی عملی زندگی کا حصہ بنایا۔ انھوں نے مسلمانوں کو معرفتِ الٰہی کی طرف راغب کیا اور اسلام پر ہونے والے جدید اعتراضات کا جواب بھی دیا۔
شیخالاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے ائمہ اسلاف کے عقلی استدلال کو ایک جامع تحریک میں یکجا کر دیا۔ ان کی تحریک منہاج القرآن اسی امتزاج کا عملی مظہر ہے، جہاں روحانیت، عقل اور عشقِ حقیقی کو مسلمانوں کی زندگیوں کا حصہ بنایا گیا ہے۔ شیخالاسلام نے تاریخ اسلام کی تمام عظیم شخصیات کے مشن کو نہایت خوبصورتی اور گہرائی کے ساتھ زندہ کیا۔ ان کی تعلیمات ایک ایسی روشن راہ ہیں جو امتِ مسلمہ کو عشق، عرفان اور عقل کی روشنی عطا کرتی ہیں۔ یہ امتزاج آج کے دور میں مسلمانوں کے لئے نہایت ضروری ہے، تاکہ وہ ایمان، عقل، اور محبت کے ذریعے اپنی زندگی کو سنوار سکیں اور دنیا میں ایک مثبت تبدیلی لا سکیں۔
حاصلِ کلام
محترم قارئین! ہم پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ ہم اپنے اندر عشقِ رسول ﷺ ، معرفتِ الٰہی، اور عقلی استدلال کی وہی روشنی پیدا کریں جو ائمہ اسلاف کے علم اور روحانیت کے امین شیخالاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی تعلیمات کا جوہر ہے۔ یہ مشن ہر اس فرد کا ہے جو دینِ اسلام کی خدمت، امتِ مسلمہ کی فلاح اور انسانیت کی بھلائی کا خواہشمند ہے۔ تحریک منہاج القرآن ہمیں ایک ایسا پلیٹ فارم فراہم کرتی ہے جو نہ صرف ہماری روحانی ترقی کا ذریعہ بن سکتا ہے بلکہ ہماری شخصیت کو علم، محبت اور خدمت کے راستے پر گامزن کر سکتا ہے۔
سوچئے! کیا یہ ممکن ہے کہ ہم اپنی زندگی کو صرف دنیاوی معاملات تک محدود رکھیں جبکہ ہمارے دل میں عشقِ رسول ﷺ کی شمع روشن ہو سکتی ہے۔۔ ۔ ؟ کبار ائمہ نے کائنات کو اللہ کی تجلی قرار دے کر ہمیں یہ سکھایا کہ ہر لمحہ، ہر چیز ہمیں اپنے رب کی طرف لے جا سکتی ہے۔۔ ۔ مولانا رومی نے اپنے اشعار میں بار بار ہمیں اس بات کی طرف متوجہ کیا کہ ہماری اصل منزل اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی محبت ہے۔۔ ۔ امام غزالی نے عقل اور وحی کو یکجا کرکے ہمیں یہ سبق دیا کہ ہم اپنے دین کو مضبوط علمی بنیادوں پر سمجھ سکتے ہیں۔۔ ۔ اور شیخالاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے ان تمام تعلیمات کو عصرِ حاضر کے تقاضوں کے مطابق پیش کر کے ایک ایسا مشن دیا ہے جو ہمیں ہماری اپنی زندگی کے مقصد سے جوڑ سکتا ہے۔ تحریک منہاج القرآن ایک ایسی روشنی ہے جو ہمیں اپنے اندر کے خزانے کو تلاش کرنے میں مدد دے سکتی ہے۔ یہ تحریک وہ ہے جو عشق کو شعور کے ساتھ جوڑتی ہے۔۔ ۔ معرفت کو عملی زندگی میں ڈھالتی ہے۔۔ ۔ اور ہمیں ایک ایسی شخصیت بناتی ہے جو نہ صرف اپنی بلکہ دوسروں کی زندگی کو بھی بہتر کرسکے۔
سوچیے!ہم اس عظیم مشن کا حصہ بن کر انسانیت کے لئے کیا کچھ کر سکتے ہیں۔ یہ تحریک ہمیں دعوت دیتی ہے کہ ہم اپنے اندر وہی جذبہ بیدار کریں جو مولانا رومی کے عشق، مولانا روم کے عرفان اور امام غزالی کے استدلال کا مظہر تھا۔ یہ وقت ہے کہ ہم اپنے آپ سے سوال کریں کہ کیا ہم اس دنیا میں محض ایک تماشائی بن کر رہنا چاہتے ہیں، یا اس قافلے کے ساتھی بننا چاہتے ہیں جو محبت، علم اور روحانیت کا پرچم اٹھائے انسانیت کے لئے روشنی کی کرن بن رہا ہے۔۔ ؟ تحریک منہاج القرآن ہمیں راستہ دکھانے، ہماری رہنمائی کرنے اور ہمیں اس سفر پر لے جانے کے لئے تیار ہے، جہاں ہم نہ صرف اپنے رب کے قریب ہوں گے بلکہ دوسروں کے لئے بھی روشنی کا سبب بنیں گے۔ یہ مشن؛ محبت، امن اور علم کی شمع جلانے اور دنیا کو ایک بہتر جگہ بنانے کا ہے۔ آئیے! اپنی زندگی کو اس عظیم مشن کے ساتھ جوڑیں۔۔ ۔ اپنے دل کو عشقِ رسول ﷺ سے منور کریں۔۔ ۔ اپنی عقل کو علم سے مزین کریں۔۔ ۔ اور اپنے عمل کو انسانیت کی خدمت کے لئے وقف کریں۔ یہ ہمارا فرض ہے کہ ہم اپنی زندگی کو ایک ایسے مقصد سے جوڑیں جو ہمیشہ باقی رہنے والا ہے اور اس مشن کو اپنائیں جو دنیا کو روشنی، امن اور محبت کی طرف لے جا رہا ہے۔