اقتصادیات اسلام میں شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی خدمات

ڈاکٹر محمد اظہر عباسی

اقتصادیات اسلام میں شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی خدمات

تاریخِ اقوامِ عالم سے پتہ چلتا ہے کہ انسانی تہذیب کے عروج و زوال، خوشحالی و بد حالی، امن و جنگ اور کامیابی و ناکامی کی اہم وجوہات میں معاشیات واقتصادیات کے استحکام و عدم استحکام کا بڑا عمل دخل رہا ہے۔ عصرِ حاضر میں بھی وہ ممالک جو اقتصادی طور پر مستحکم ہیں، وہ ترقی یافتہ امیر یا سپر پاورز کے نام سے موسوم کئے جاتے ہیں۔ اس کے برعکس اپنی اقتصادی صورت حال کے سلسلے میں عدم توجہی برتنے یا نظر انداز کرنے والے ممالک غیر ترقی یافتہ ممالک یا پسماندہ اور غریب ممالک کی فہرست میں شامل کئے جاتے ہیں۔ بد قسمتی سے ان میں اکثریت مسلمان ممالک کی ہے اور ایسے ممالک کی تعداد ترقی یافتہ ممالک کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہے۔ براعظم ایشیاء، افریقہ کے ممالک بالخصوص اور دیگر بہت سے ممالک بالعموم غربت وافلاس، بھوک اور معاشی بدحالی کا شکارہیں۔

اسلام نے نظامِ معیشت و اقتصاد کو اس قدرا ہمیت دی ہے کہ قرآن پاک کی آیات میں ان اصول وضوابط کا تذکرہ ملتا ہے جنہیں بلا شبہ معاشیات کی بنیاد کہا جاسکتا ہے۔ اللہ تبارک وتعالی نے قرآن مجید میں معاش کی اہمیت کو واضح کرتے ہوئے مختلف مقامات پر روزی کمانے اور معاشی جد و جہد کی تلقین فرمائی ہے۔ اسی طرح احادیث نبوی ﷺ میں بھی انسان کی معاشی ضروریات کا تذکرہ کیا گیا ہے اور معاشرے میں پیدا ہونے والے معاشی مسائل کا حل بھی پیش کیا گیا۔ حضور نبی کریمﷺ نے ہر انسان پر اپنی استعداد کے مطابق معیشت کے لئے جدو جہد کرنا ضروری قرار دیا ہے۔ کیونکہ دنیا میدانِ عمل ہے۔ یہاں جمود موت کے مترادف ہے۔

چونکہ اقتصادیات انسان کی بنیاد ی ضرورت ہے اور یہ ضرورت ہر دور میں لازم ہوتی ہے اس لیے مسلم مفکرین نے معاشیات کے حوالے سے جو گراں قدر خدمات سر انجام دیں، تاریخ انہیں کبھی فراموش نہیں کر سکتی۔ مسلم مفکرین نے اپنے معاشی افکار ونظریات کی بنیاد قرآن وحدیث کے سنہری اصولوں کو بنایا اور وہ کام کر کے دکھایا جس کی مثال پوری تاریخ انسانی میں نہیں ملتی۔ خلافت راشدہ کی ابتداء اور خاص طور پر عہد فاروقی میں اسلام کے معاشی افکار و نظریات اپنی پوری قوت کے ساتھ قائم نظر آتے ہیں۔

وقت بدلتا گیا اور سلطنتِ اسلامیہ میں جدت کے ساتھ ساتھ مسائل بھی بدلتے اور بڑھتے گئے تو ایسی صورت حال میں در پیش مسائل کا حل بھی ضروری تھا۔ فقہائے کرام اور ماہرینِ معیشت و اقتصادیات نے اپنے اپنے طور پر گراں قدر خدمات سر انجام دیں جن کو فراموش نہیں کیا جا سکتا۔ فقہاء کرام نے قرآن وحدیث کی روشنی میں مختلف مسائل کی گر ہیں کھولیں تا کہ ہر ایک کو مسائل کے سمجھنے میں آسانی میسر آئے۔ اسی سلسلہ میں اقتصادی افکار پر بحث و تمہید کا آغاز ہوا۔ کتاب البیوع اور فقہ المعاملات جیسے ابواب کو اپنی کتب کا حصہ بنا کر فقہاء کرام نے حل طلب مسائل کی وضاحت کی اور امتِ مسلمہ کو اسلامی فقہ کی شکل میں ایک انمول تحفہ دیا۔

ان کتب کے مطالعہ سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ اسلامی دور میں ایسے مالیاتی نظام موجود تھے جو تجارت، بنکاری اور کارپوریشنوں کی طرح کے اداروں پر مشتمل تھے۔ مذکورہ بالا تمام بحث سے یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ اسلامی معاشیات ہر زمانے میں جدت کی طرف گامزن رہی۔ اس کی یہی عمل پذیری اس کی اہمیت کو واضح کرتی ہے اور اس امر کا تقاضا کرتی ہے کہ موجودہ دور میں بھی اسلامی معاشیات کو نہ صرف فروغ دیا جائے بلکہ اس پر عمل بھی کیا جائے۔

شیخ الاسلام اور اسلامی نظامِ معیشت پر ایک تجدیدی و اجتہادی نگاہ

شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری کا شمار ان چند گراں قدر ہستیوں میں ہوتا ہے جن کے نقشِ قدم پر چل کر زمانہ اپنی منزل کا تعین کرتا ہے۔ دنیا ان کی صلاحیتوں اور خدمات کی معترف ہے۔ انہوں نے یہ مقام جہدِ مسلسل اور عزم وہمت سے حاصل کیا جس کی مثال ان کی مصروف ترین زندگی ہے۔ شیخ الاسلام کا شمار ان عظیم ہستیوں میں ہوتا ہے جنہوں نے اپنی زندگی کو نہ صرف دینی اور روحانی خدمات کے لیے وقف کیا بلکہ اسلامی معاشیات اور اقتصادیات کے میدان میں بھی قابل ذکر خدمات انجام دیں۔

آج کل امت مسلمہ بالعموم اور پاکستان بالخصوص معاشی اور اقتصادی بحرانوں کا شکار ہے، جس کی وجہ سے غربت، بے روزگاری، مہنگائی اور عدمِ مساوات جیسے مسائل بڑھتے جا رہے ہیں۔ دنیا بھر میں مسلمانوں کو معاشی طور پر پسماندگی کا سامنا ہے اور پاکستان میں یہ مسائل زیادہ شدت اختیار کر چکے ہیں۔ شیخ الاسلام نے ان معاشی چیلنجز کا گہرا جائزہ لیا اور ان کے حل کے لیے نہ صرف اسلامی معاشی اصولوں کو اجاگر کیا بلکہ عملی تدابیر بھی فراہم کیں۔ انہوں نے بلاسود بینکاری، اسلامی مالیات اور معاشی عدل کے اصولوں پر مبنی ایک جامع معاشی ماڈل پیش کیا، جس کے ذریعے پاکستان اور مسلم دنیا میں اقتصادی ترقی اور فلاح کی راہ ہموار ہو سکتی ہے۔

شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری نے اپنے علمی کاموں اور تحقیق کے ذریعے یہ ثابت کیا کہ اسلامی اقتصادیات نہ صرف معاشی بحرانوں کا حل پیش کرتی ہے بلکہ یہ انسانیت کے لیے پائیدار اور عدل و مساوات پر مبنی نظام کی تشکیل کے لیے ایک بہترین راہنمائی فراہم کرتی ہے۔ شیخ الاسلام نے اقتصادیات اورمعاشیات کے موضوع پر درج ذیل کتب تحریر کیں :

۱۔ معاشی مسئلہ اور اس کا اسلامی حل

۲۔ بلا سود بینکاری کا عبوری خاکہ

۳۔ بلاسود بینکاری اور اسلامی معیشت

۴۔ بجلی مہنگی کیوں؟ IPPS کا معاملہ کیا ہے؟

۵۔ اقتصادیات اسلام (تشکیل جدید)

۶۔ اسلام کا تصورِ ملکیت ۷۔ اسلام اور کفالتِ عامہ

۸۔ اسلامی نظامِ معیشت کے بنیادی اصول

۹۔ قواعد الاقتصاد فی الاسلام

۱۰۔ الاقتصاد الا ربوی و نظام المصر فی الاسلامی

یہ کتب شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری کی فکر اور ان کے اسلامی معاشی نظام کے بارے میں جامع نقطہ نظر کو پیش کرتی ہیں۔ ان کا مقصد معاشی انصاف اور اسلامی اصولوں کی بنیاد پر ایک پائیدار معاشی نظام کا قیام ہے۔ ان تالیفات کے علاوہ آپ نے اقتصادیات کے موضوع پر مختلف مقامات اور مواقع پر لیکچرز بھی ارشاد فرمائے۔ ان علمی فن پاروں میں شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری نے اقتصادیات کے اہم پہلوؤں پر گہری سوچ و فکر سے کام لیتے ہوئے نادر تصورات متعارف کروائے جو اس موضوع پر تحقیق و تجسس کرنے والوں کے لیے مشعل راہ ہیں۔

ذیل میں معاشیات پر شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری کے متعارف کروائے گئے چند تصورات کا اجمالی جائزہ درج کیا جارہا ہے:

(۱) اسلام اور کفالتِ عامہ

اسلام اپنے مزاج میں اجتماعیت کا دین ہے۔ یہی سبب ہے کہ اسلام نے جہاں بھی احکام یا ہدایات عطا کی ہیں وہاں فرد کے بجائے اجتماع کو مخاطب کیا گیا ہے اور انفرادی مفاد پر اجتماعی مفاد کو ترجیح دی ہے۔ کسی بھی نظامِ فکر وعمل میں اجتماعیت کی روح اسی وقت محفوظ و مامون رہ سکتی ہے جب اس میں امدادِ باہمی، تعاون اور ایک دوسرے کے حقوق کے احترام کی واضح تعلیمات موجود ہوں۔ اسلام کی عطا کردہ تعلیمات میں یہ روح ہمیں بڑے واضح طور پر رُو بہ عمل نظر آتی ہے۔ اس لیے اللہ تعالی نے اہلِ ایمان کو ہر خیر پر مبنی عمل میں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرنے کی ہدایت فرمائی ہے۔

در اصل اسلام کے اجتماعی ڈھانچے کے اندر افراد کے باہمی ربط اور آپس کےمعاملات طے کرنے کا پورا ضابطۂ عمل موجود ہے۔ جہاں زندگی کے دوسرے میادین اور شعبہ جات میں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون، ربط وضبط کو ضروری قرار دیا گیا ہے۔ وہیں زندگی کے معاشی پہلو کے حوالے سے بھی اسی اسلوب کو اختیار کرنے کا حکم ہے۔

شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری نے اپنی تصنیف ’’ اسلام اور کفالت عامہ‘‘ میں اسلام کے اجتماعی نظام میں امداد باہمی اور کفالت عامہ کی انہی تفصیلات کا احاطہ کیا ہے۔ اس حوالے سے آپ فرماتے ہیں:

’’اسلام نے نہ صرف انفرادی سطح پر کفالتِ عامہ کی تلقین و حوصلہ افزائی کی بلکہ اجتماعی سطح پر بھی اسے ایک نظام کے طور پر متعارف کروایا۔ جس کی سیرت نبویﷺ میں عملی تصویر مواخاتِ مدینہ کی صورت میں ملتی ہے۔ حضور نبی اکرمﷺ کو ہجرتِ مدینہ منورہ کے بعد سب سے پہلے جو مسئلہ در پیش تھا، وہ مہاجرین کی رہائش و خوراک کا تھا۔ کیونکہ مہاجرین اپنی ہر طرح کی منقولہ و غیر منقولہ جائیدادیں مکہ مکرمہ میں چھوڑ کر مدینہ منورہ ہجرت کرکے آئے تھے۔ ریاستِ مدینہ کے پاس اس قدر وسائل نہیں تھے کہ ان مہاجرین کی آبادکاری، رہائش اور دیگر ضروریات کا انتظام کیا جاتا۔ آپ ﷺ نے اس کے حل کے لیے اہلِ مدینہ یعنی انصار اور مہاجرین کے درمیان رشتۂ مواخات قائم فرماکر اس مسئلے کو نہ صرف مستقل حل کر دیا بلکہ ایک اسلامی ریاست میں اجتماعی سطح پر کفالت عامہ کے تصور کو بھی عملاً واضح کر دیا۔‘‘

افرادِ معاشرہ کے مابین معاشرتی، سیاسی، دفاعی، قانونی، اخلاقی، معاشی اور علمی میادین میں کہاں کہاں تعاون کے امکانات موجود ہیں اور کہاں کہاں افراد معاشرہ کو ایک دوسرے کا دست و بازو بنتے ہوئے اپنے وسائل اور ذرائع کی نفع بخشی کے دائرے کو دوسرے معاشرہ تک پہنچانا چاہیے۔ ان سب جہات کو تفصیلی انداز میں شیخ الاسلام نے بیان فرمایا ہے۔

شیخ الاسلام نے دورِ حاضر کے معاشی چیلنجز کا گہرا جائزہ لیا اور بلاسود بینکاری، اسلامی مالیات اور معاشی عدل کے اصولوں پر مبنی ایک جامع معاشی ماڈل پیش کیا، جس کے ذریعے پاکستان اور مسلم دنیا میں اقتصادی ترقی اور فلاح کی راہ ہموار ہو سکتی ہے۔

شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری نے اس حوالے سے واضح کیا کہ ریاست اسلامی معاشرے کا ذمہ دار ادارہ ہے، اسے کسی صورت بھی معاشرتی ذمہ داریوں سے مبرا قرار نہیں دیا جاسکتا۔ وہ بنیادی حقوق جو بطور ایک شہری کے ریاست کے ہر فرد کو میسر ہیں، جن میں حقِ خوراک، حقِ لباس، حقِ رہائش، حقِ معاش، حقِ تعلیم، حقِ علاج، اور حقِ انصاف شامل ہیں ان حقوق کی فراہمی کے لیے ایسا نظام وضع کرنا جس میں ریاست کے ہر فرد کو یہ حقوق بلا روک ٹوک میسر ہوں اور وہ ان حقوق کے تحفظ وفراہمی سے مستفیض ہو رہا ہو، یہ سب ریاست کی بنیادی ذمہ داری ہے۔

اسلامی ریاست میں نہ صرف بنیادی ضروریات کی فراہمی ریاست کی ذمہ داری ہے۔ بلکہ حضور نبی اکرم ﷺ کے اسوۂ حسنہ سے یہ بات بھی واضح ہوتی ہے کہ اگر معاشرے کے ضرورت مند اور مستحق افراد کو مالی کفالت کی ضرورت ہو تو ریاست اس کا بھی اہتمام کرے تا کہ افرادِ معاشرہ معاشی مجبوریوں کے شکنجوں سے نجات حاصل کر سکیں اور اپنے قدموں پر کھڑا ہو کر معاشی تخلیق کے عمل کو شروع کر سکیں۔

الغرض شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری کا پیش کردہ تصورِ کفالتِ عامہ نہ صرف چند امتیازی جہات کا احاطہ کرتا ہے بلکہ دور جدید میں ایک ایسی فلاحی ریاست کے قیام کے لیے بھی رہنمائی دیتا ہے۔ جس میں تمام افراد کے نہ صرف تمام حقوق محفوظ ہوں بلکہ اس کے ساتھ ساتھ ریاست کی طرف سے بھی ایک ایسا نظام میسر ہو جس میں افراد معاشرہ اور ریاست کے شہری ایک دوسرے کے ساتھ تقویٰ پر مبنی ہر معاملے میں تعاون کر رہے ہوں۔ ۔ ۔ اثم اور عدوان کے فروغ کا سد باب کر رہے ہوں۔ ۔ ۔ اور اجتماعی سطح پر ریاست کفالت عامہ کے لیے نظام کے تحت افراد معاشرہ کے بنیادی حقوق کا تحفظ کرتے ہوئے ان تمام اسباب اور موانعات کا تدارک کر رہی ہو جو افرادِ معاشرہ اور ریاست کے شہریوں کے حقوق کی فراہمی میں تعطل کا باعث بنتے ہوں۔

شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری نے معاشی کفالت کا وہ تصور پیش کیا جسے قرآن نے آج سے چودہ سو سال پہلے پیش کیا اور حضور نبی اکرم ﷺ نے قرآن کی عملی تعبیر پیش کرتے ہوئے اسے اپنی زندگی میں عملا نافذ کرکے دکھایا اور آپ ﷺ کی پیروی کرتے ہوئے خلفائے راشدین نے بھی اسے اس قدر فروغ دیا کہ ان کے دور میں کوئی شخص معاشی طور پر بد حال نہ ر ہا۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ آج کے حکمران بھی اسوہ حسنہ کی روشنی میں اسلام کے معاشی نظام کو عملا نافذ کر یں تو کوئی امر مانع نہیں کہ ہم پھرسے اپنا کھویا ہوا وقار دوبارہ حاصل کر سکتے ہیں۔ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری کا یہ تصور معاشی نظام کے حوالے سے عظیم شاہ کار کی حیثیت رکھتا ہے۔ متذکرہ بالا بیان کردہ افکار کی روشنی میں اسلام کے معاشی نظام کے خدو خال واضح ہو جاتے ہیں۔ جس سے یہ حقیقت نمایاں ہو جاتی ہے کہ دنیا کے دیگر نظام ہائے معیشت کے مقابل صرف اسلام ہی ایک مثالی اور فلاحی معاشرے کی ضمانت فراہم کر سکتا ہے۔

(۲)معاشی مسئلہ اور اس کا اسلامی حل

معاشی مسئلہ انسانی زندگی کا بنیادی مسئلہ ہے جو وسائل کی کمی اور ضروریات کی لامحدودیت کے درمیان پیدا ہوتا ہے۔ یہ مسئلہ اس وقت زیادہ سنگین ہو جاتا ہے جب معاشی وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم اور ان کا غیر دانشمندانہ استعمال کیا جائے۔ معاشی ناانصافی کی بدولت معاشرے میں طبقاتی کشمکش جنم لیتی ہے اور اس سے معاشرے کا حسن عیب میں بدل جاتا ہے معاشی عدل سے مراد صرف و پیدائش اور تقسیم و تبادلہ دولت کے دائرہ میں توازن و تناسب کا پایا جانا ہے تا کہ معاشی سر گر میاں صحت مند خطوط پر رواں دواں رہیں اور افراد معاشرہ اپنی معاشی ضرورت باوقار طریقہ سے حاصل کر سکیں۔ شیخ الاسلام ڈاکٹر طاہر القادری کے مطابق اسلامی نظام معیشت ہی ایسا نظام ہے جو کہ معاشی عدل کی تعلیم دیتا ہے۔ آپ لکھتے ہیں :

’’اسلام کی آفاقی تعلیمات میں معاشی مسئلہ کو خصوصی اہمیت دی گئی ہے اور اسلامی معاشرے میں معیشت کو ترجیح بنیادوں پر استوار کیا گیا ہے۔ اسلام استحصال کی ہر شکل کا مخالف ہے اور تاریخ گواہ ہے کہ فرد کا استحصال زیادہ تر اس کی معاشی ضروریات کی آڑ ہی میں ہو تا رہا ہے۔ سود کی لعنت نے فرد کے معاشی استحصال کو جنم دیا اور اس کی سوچ سے لے کر اس کی نسلوں کے مستقبل تک کو گروی رکھ دیا گیا۔

اعتدال اور توازن اسلامی معاشرے کا حسن ہے اور یہ حسن اسلام کے تصورِ معیشت میں بھی اپنی جملہ رعنائیوں کے ساتھ جلوہ گر ہے۔ اسلام کا تصورِ معیشت انسانی فطرت کے عین مطابق ہے۔ اقتدار اعلیٰ صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کے لیے ہے اور انسان زمین پر اس کا خلیفہ ہے۔ اسلام میں ہر سطح پر جوابدہی کے احساس کو زندہ و تابندہ رکھا گیا ہے اور امانت کے تصور کو عملی جامہ پہنایا گیا ہے کہ ہر چیز کا مالک اللہ ہے۔ انسان کو ان اشیاء پر محض حقِ تصرف حاصل ہے اور وہ بھی محدود مدت کے لیے۔ اسلام کے نظامِ معیشت میں استحصال کی ہر شکل کے خاتمے کے لیے عملی اقدامات کئے گئے ہیں اور ایک فلاحی ریاست کے تمام بنیادی لوازمات کا اہتمام کیا گیا ہے۔ ‘‘

اسی تصور کے پیش نظر شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری نے اپنی کتاب ’’معاشی مسئلہ اور اسکا اسلامی حل‘‘ میں معاشی مسئلہ کے حل کے لیے حکم انفاق کی چند قانونی صورتیں پیش کیں۔ جن میں قانون زکوة، قانون عشر، قانون نفقات، قانون صدقات، قانون وصیت، قانون وراثت، قانون ضیافت، قانون کفالت، قانون مشارکت، قانون وقف اور قانون اجرت شامل ہیں۔ اس کتاب کے آخر میں آپ نے معاشی انقلاب لانے کے لیے سرکاری سطح پر بھی اقدامات کرنے کے حوالے سے چند اعلی تجاویز پیش کی ہیں۔

(۳)اسلام کا تصورِ ملکیت

کسی بھی نظامِ معیشت میں مال اور ملکیت کا تصور مرکزی اہمیت کا حامل ہوتا ہے کیونکہ اس سے کسی بھی معاشی نظام کے خدو خال تشکیل پاتے ہیں۔ اسلام نے اللہ تعالی کے لیے ہر نوعیت کے اقتدارِ اعلی کا تصور دیتے ہوئے زمین پر انسان کواللہ کا خلیفہ اور

نائب قرار دیا ہے۔ معیشت کے میدان میں امانت کا تصور عطا کرتے ہوئے تعلیم دی گئی ہے کہ ہر چیز کا مالک اللہ ہے اور انسان کو اموالِ معیشت پر محض نیابتی طور پر حقِ تصرف حاصل ہے۔ وہ اللہ تعالی کے عطا کردہ قواعد و ضوابط اور اصولوں کی روشنی میں ہی اس حق کو استعمال کر سکتا ہے۔

شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری نے اپنی کتاب ’’ اسلام کا تصور ملکیت‘‘ میں اسلام کے تصور مال اور تصور ملکیت کو شرح وبسط کے ساتھ بیان کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ:

’’انسان کے پاس جو مال و املاک ہیں، ان کا اصل مالک اللہ ہے۔ انسان محض اللہ کا نائب ہونے کے ناطے ان املاک میں تصرف کا مجاز ہے۔ لیکن اس کا تصرف اور رویہ مالکِ حقیقی کی ہدایات اور اوامر و نواہی کے تحت ہوگا۔ اس کا یہ مطلب ہوا کہ انسان کے مال پر مالکانہ حقوق مطلق نہیں بلکہ محدود اور مقید ہیں۔ جو اس کو اللہ ہی کے دیے ہوئے مال کا امین ہونے کا شرف بخشتے ہیں۔ اللہ کا نائب اور اللہ کے دیے ہوئے مال کا امین ہونے کی حیثیت سے انسان کے لیے ضروری ہے کہ وہ مالکِ حقیقی کے احکامات بجا لائے۔ مالکانہ تصرف کے باب میں خود کو آزاد سمجھنا اور ہدایاتِ خداوندی سے اجتناب و انحراف کرنا صریح گمراہی ہے۔ ‘‘

ایک اور جگہ فرماتے ہیں:’’ظاہر ہے کہ نیکی اور بھلائی کے ساتھ حاصل کیا ہوا مال اللہ تعالیٰ کی خوشنودی اور عزت و احترام کے حصول کا سبب بنتا ہے، اخروی نجات کے ساتھ ساتھ معاشرتی اور معاشی خوشحالی کے حصول کو ممکن بناتا ہے جبکہ اس کے برعکس غیر اسلامی طریقوں سے کمایا ہوا مال بدی، اللہ تعالیٰ کی ناراضگی، آخرت میں عذاب، دنیاوی ابتلاء، اختلاف، باہمی عناد اور جنگ و قتال کا باعث بنتا ہے۔ اس سے یہ حقیقت واضح ہوتی ہے کہ مال کو زندگی کا مقصد اور منزل نہیں سمجھنا چاہیے۔ ‘‘

اسلام انفرادی اور اجتماعی حق ملکیت کو تسلیم کرتا ہے لیکن اس میں نظم وضبط اور اس کے غلط استعمال کو روکنے کی غرض سے چند حدود و قیود لگاتا ہے۔ خصوصی طور پر اگر کسی معاشرہ میں معاشی ناہمواری اس حد تک بڑھ جائے کہ غرباء کا استحصال شروع ہو جائے اور ان کے لیے زندگی گزارنا دو بھر ہو جائے تو اسلامی ریاست کے صاحبانِ اقتدار کو حق حاصل ہو جاتا ہے کہ وہ اسلامی اصولوں پر عمل کرتے ہوئے تحدیدِ ملکیت کریں۔ اسلامی حکومت اصحابِ ثروت کو اس امر پر مجبور کر سکتی ہے کہ وہ شریعت کے عائد کردہ حقوق ادانہ کرنے کی صورت میں مقرر حد سے زیادہ ملکیت نہ رکھیں۔

(۴)بلاسود بینکاری کا اسلامی تصور

سُود کو ختم کرنے کے بارے میں اسلامی مشاورتی کونسل نے پہلی سفارشات۱۹۶۹ء میں پیش کی تھیں، لیکن ان پرکبھی عمل درآمد نہ ہو سکا۔ اس رپورٹ کے آٹھ سال بعد ستمبر۱۹۷۷ء میں جنرل محمد ضیاء الحق نے ’اسلامی نظریاتی کونسل‘ سے رجوع کیا۔ سُود کے خاتمے کے بارے میں اسلامی نظریاتی کونسل نے علما، بنک ماہرین اور اقتصادی ماہرین سے طویل مباحث اور عالمی سطح پر اس مسئلے کی پیچیدگیوں کے گہرے مطالعے کے بعد اپنی دوسری رپورٹ کو حتمی شکل دی اور ۲۵جون ۱۹۸۰ء کو یہ رپورٹ جنرل ضیاء کوپیش کردی گئی۔ ۱۹۸۰ ء کے اواخر میں اسٹیٹ بنک آف پاکستان نے تمام تجارتی بنکوں کو یہ حکم جاری کیا کہ’’۱۹۸۱ء سے وہ اپنے تمام معاملات غیر سودی بنیادوں پر قائم کرنے کے پابند ہوں گے۔ لیکن سودی نظام ختم نہ ہوا کیونکہ کوئی متبادل اسلامی ماڈل موجود نہ تھا۔ چنانچہ ۱۹۸۵ میں حکومت کی طرف سے وزارت مال نے شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری سے رابطہ کیا اور تعاون و رہنمائی کی درخواست کی جسے آپ نے بخوشی قبول کیا۔

شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری نے اس اہم اور نازک مسئلے کو اپنے طور پر حل کرنے کا بیڑا اٹھایا اور سود سے پاک اسلامی نظامِ بنکاری کا عملی خاکہ پیش کر کے نہ صرف اسلام کے خلاف ہرزہ سرائی کرنے اور اسلام کے خلاف ناپاک سازشوں کا جال بچھانے والے لادین عناصر کو مناسب جواب دیا بلکہ علماء کے وقار کو بحال کر کے انہیں اعتماد اور اعتبار کی دولت سے بھی نوازا۔ اس نظام کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ یہ نظام محض کسی فلسفے یا تھیوری پر ہی نہیں بلکہ یہ ایک عملی فارمولا ہے جس پر خلوص نیت سے عمل کیا جائے تو خوشحالی و آسودگی ہمارا مقدر بن سکتی ہے۔

شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری نے اپنی کتابوں ’’بلاسود بنکاری کا (عبوری خاکہ)‘‘ اور ’’بلا سود بینکاری اور اسلامی معیشت‘‘ میں نہ صرف سودی بنکاری کو معاشی استحصال کی بدترین شکل قرار دیا بلکہ اسلامی نظام بینکاری کے بنیادی اجزاء کا عملی ڈھانچہ بھی پیش کیا۔ آپ نے اپنی کتب میں قرآن وحدیث کی روشنی میں ثابت کیا کہ بلاسود بنکاری نظام میں ہی ملک و قوم کی فلاح جبکہ سودی نظام میں ہلاکت و تباہی ہے۔ شیخ الاسلام نے اپنی تصانیف میں بلا سود بنکاری کا جو نظام پیش کیا، اس سے نہ صرف ماہرین کو سوچ و بچار کے لئے نئے زاویے میسر آئے بلکہ عوام الناس کے اذہان میں اسلام کے قابلِ عمل ہونے کے یقین کو مزید پختگی حاصل ہوئی۔ اس حوالے سے شیخ الاسلام فرماتے ہیں:

بلاسود بینکاری کے نظام کو رواج دینے کے لیے ہمیں حقیقت پسندانہ بنیادوں پر اپنے ملک میں رائج ٹیکس کے نظام (System of taxation) کا از سرِ نو جائزہ لینا ہوگا۔ اس کی شرح کو پھر سے یوں متعین اور مرتب کرنا ہوگا کہ تمام محصولات (Taxes) کی ادائیگی قانون کے مطابق ہر ایک کے لئے عملاً ممکن ہو سکے۔ اس میں اس بات کی عملی ضمانت ہو کہ کالے دھن ( Black money) اور ادائیگی محصولات سے گریز (Evasion) کا رجحان واقعتاً ختم ہو سکے۔ یہ صورتِ حال حکومت اور صنعت و تجارت پیشہ طبقات کے درمیان باہمی اعتماد اور ذہنی ہم آہنگی کے بغیر ممکن نہیں۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ تمام کاروبار و تجارت کرنے والوں کے لیے شرائط و مقتضیات کو فراخدلانہ طور پر سامنے رکھا جائے اور اس نظام کے اس واقعاتی مشاہدے کی روشنی میں تنظیم نوکی جائے تا کہ مختلف اور متضاد حسابات (Accounts) تیار کرنے کے بجائے ہر شخص کامل اطمینان سے اپنے حقیقی اور واقعی نفع و نقصان (Profit & loss) کی تفصیلات منظر عام پر لا سکے۔

اس کی بنیاد پر ہی بینک اپنی بیشتر سرمایہ کاری حقیقی مشارکہ کے اصولوں پر کرنے کے قابل ہو سکے گا۔ اس میں نہ صرف سرمایہ کار کو اپنے جملہ جائز حقوق کے تحفظ کی ضمانت ملے گی بلکہ نظامِ مشارکہ کی بنا پر تقسیمِ دولت کا بھی ایک وسیع دائرہ قائم ہوگا۔ بنکاری کو صحیح اسلامی خطوط پر چلانے کے لیے بنکاری (Banking) اور محصولات (Taxes) کے دونوں نظاموں کو ایک ہی تناظر میں رکھ کر انھیں ایک دوسرے کے ساتھ منسلک کرنا ہو گا۔ انھیں ایک دوسرے سے جدا تصور کرتے ہوئے ہم منزلِ مقصود کو حاصل نہیں کر سکتے۔ ‘‘

خلاصۂ کلام

اقتصادیاتِ اسلام پر شیخ الاسلام کے جملہ تصورات کو جاننے کے لیے اُن کی عظیم تصنیف ’’اقتصادیاتِ اسلام‘‘ کا مطالعہ نہایت فائدہ مند رہے گا۔ اس کتاب میں اقتصادیات کے اہم پہلوؤں پر گہری سوچ و فکر سے کام لیتے ہوئے انھوں نے نادر تصورات متعارف کروائے۔ آپ نے اس تصنیف میں معاشیات کے جن اہم موضوعات پر کام کیا ان میں چند درج ذیل ہیں:

۱۔ اسلامی معاشیات کی اساس وارتقاء

۲۔ اسلامی معیشت کے اصول وضوابط

۳۔ اسلام کا تصورِ مال

۴۔ انفاق فی سبیل اللہ

۵۔ اسلام کا تصورِ ملکیت

۶۔ اسلامی معیشت میں امداد باہمی اور کفالتِ عامہ کا نظام

۷۔ زمین، زراعت اور مزارعت

۸۔ تجارت، شراکت اور مضاربت

۹۔ صنعت، لیبر پالیسی اور اسلامی معاشی نظام کی تنفیذ

شیخ الاسلام نے اس کتاب میں اسلامی نظامِ معیشت کے عملی نفاذ کے نہ ہونے کے سبب کی نشاندہی کرتے ہوئے فرمایا:

’’کوئی بھی تصور، نظریہ یا اصول اگر تنفیذ کے عمل سے قاصر ہے تو اس کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی۔ اسلام کا خاصہ یہ ہے کہ اگر وہ کوئی ہدایت، اصول وضوابط یا احکام پیش کرتا ہے تو اس کے تنفیذی یا اطلاقی پہلو (Applied side) کو نظر انداز نہیں کرتا۔ معاشی میدان میں بھی اس کا رویہ یہی ہے۔ اسلامی معاشی تصورات قانونی شکل میں موجود ہیں لیکن مرورِ زمانہ کے ساتھ اقدار و روایات بدل گئیں۔ قومی زندگی کے اخلاقی، روحانی اور مذہبی شعبہ جات میں جو زوال آیا اس نے عامۃ الناس کو فرائض و واجبات کا ہی تارک بنا دیا۔ لوگ عزیمت کی بجائے رخصت کی راہ کو ترجیح دینے لگے۔ جب فرائض و واجبات پر عمل ہی عنقا ہوا تو سنن و مستحبات پر عمل صرف کتابوں میں تذکرے کی حد تک رہ گیا۔

وہ تمام اعمال جو عہدِ رسالت مآب ﷺ اور عہد صحابہ کرامl میں ہمیں نظر آتے ہیں، وہ ایک مثالی اسلامی معاشرے کی ثقافتی ہیئت کا لازمی عنصر تھے۔ ان اعمال کی اس اساسی اہمیت کے پیش نظر انہیں محض نفلی یا استحبابی نہیں سمجھا جا سکتا۔ مگر عصر حاضر کے مسلمانوں نے انہیں نفلی و استحبابی اعمال گردانتے ہوئے ان پر عمل درآمد کو اہمیت دینا کم کر دیا۔ اندریں حالات ایک مثالی اسلامی معاشرے کی تشکیل کے لئے ایسے احکام کو وجوب و لزوم کا درجہ دیئے بغیر محض ترغیب و تحریص کے انداز میں ان کی تبلیغ کرنا گویا فی الواقع لوگوں کو ان احکام پر صریحاً عمل نہ کرنے کی اجازت اور رخصت دینا ہے۔

جب پوری تبلیغی مساعی کے باوجود فرائض ادا نہ ہو رہے ہوں تو نفلی تعلیمات سے زندگی میں کیسے تبدیلی لائی جا سکتی ہے؟ چونکہ مذکورہ بالا احکام پر عمل درآمد خود عہدِ رسالت مآب ﷺ اور عہد صحابہ کرامl میں وجوب ولزوم کے انداز میں ہوتا رہا ہے تو دورِ حاضر میں بھی ان احکام کی تنفیذی حیثیت پر اعتراض نہیں کیا جا سکتا۔ حقیقت یہ ہے کہ ان وجوبی و نفلی احکامات کی نظری و عملی تقسیم ہونی چاہئے جس کا نمونہ ہمیں اسوۂ رسول ﷺ اور اسوۂ صحابہ میں صاف طور پر نظر آتا ہے۔ تب ہی قرآن وسنت کے جملہ احکام پر عمل درآمد کی راہ ہموار ہو سکے گی۔ ‘‘

اسلامی نظامِ معیشت و اقتصاد کے تصورات پر مبنی شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری کی جمیع کتب میں آپ کی تبحرِ علمی، اجتہادی بصیرت اور حقیقی مہارت کا خاص رنگ جھلکتا ہے۔ یہ کتب بلاشبہ آپ کی وسیع النظری، اعلی قابلیت، حقیقت پسندی اور اقتصادی تعلیماتِ اسلامیہ کے ساتھ گہرے تعلق کی آئینہ دار ہیں۔

شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری کی زندگی ہمہ جہت خدمات کا حسین مرقع ہے، جن میں دینی، علمی، فکری، روحانی اور معاشی میدانوں میں ان کی بے مثال جدوجہد شامل ہے۔ اسلامی اقتصادیات کے اصولوں کی تشریح، عملی نظام کی تشکیل اور امتِ مسلمہ کے معاشی مسائل کے حل کے لیے ان کی کاوشیں یقیناً رہتی دنیا تک یاد رکھی جائیں گی۔ شیخ الاسلام کی یہ خدمات نہ صرف ان کے وسیع علمی شغف کی عکاس ہیں بلکہ امتِ مسلمہ کے لیے روشنی کا مینار بھی ہیں۔

اقتصادیاتِ اسلام پر شیخ الاسلام کے جملہ تصورات کو جاننے کے لیے اُن کی عظیم تصنیف ’’اقتصادیاتِ اسلام‘‘ کا مطالعہ نہایت فائدہ مند رہے گا۔ اس کتاب میں اقتصادیات کے اہم پہلوؤں پر گہری سوچ و فکر سے کام لیتے ہوئے انھوں نے نادر تصورات متعارف کروائے

آج جب ہم ان کی 74 ویں سالگرہ منا رہے ہیں تو یہ موقع ہمیں اس بات کی یاددہانی کراتا ہے کہ ہم ان کے علمی ورثے کی نہ صرف قدر کریں بلکہ اس پر عمل پیرا ہو کر اسلامی اقتصادیات کو عملی جامہ بھی پہنائیں۔ ہم دعا گو ہیں کہ اللہ رب العزت شیخ الاسلام کو صحت و سلامتی، عمرِ خضر اور اپنی رضا و قربت سے نوازے۔ ان کی خدمات کو مزید وسعت دے تاکہ ان کی رہنمائی میں امتِ مسلمہ ترقی، خوشحالی اور امن کے راستے پر گامزن ہو سکے۔ اللہ کریم ہمیں اور ہماری اولادوں کو ان کے عالمگیر مشن کا مخلص خدمت گزار بنائے اور ہماری اس نوکری کو اپنی بارگاہِ بے کس پناہ میں قبول فرمائے۔

دعا ہے کہ ان کا وجود دنیا میں علم، محبت اور اصلاح کے چراغ روشن کرتا رہے اور ان کی کاوشیں ہماری زندگیوں میں عملی تبدیلی کا ذریعہ بنیں۔ اللہ تعالیٰ ان کی زندگی کو مزید برکتوں اور کامیابیوں سے نوازے اور ان کے علمی و روحانی فیضان کو تا دیر جاری و ساری رکھے۔ آمین بجاہ سید المرسلین ﷺ