اداریہ: ’’خاکی ہے مگر خاک سے آزاد ہے مومن‘‘
علم و عرفان وہ خزانہ ہے جو اللہ رب العزت اپنے چنیدہ بندوں کو عطا فرماتا ہے۔ علم، ہدایت اور اہلِ تقویٰ کے بارے میں قرآن مجید نے ایک دعا عطا کی ہے کہ اے اللہ ہمیں اُن کے راستے پر چلا جن پر تو نے اپنا انعام کیا ہے، نہ کہ اُن کے راستے پر جو مغضوب اور گمراہ ہیں۔ علم و عرفان کی حامل نابغۂ روزگار ہستیاں نہ صرف اپنے عہد میں علم و شعور، بیداریٔ فکر اور تعمیرِ کردار و اخلاق کا ذریعہ ہوتی ہیں بلکہ اُن کی دینی، علمی، فکری، اجتہادی، فلاحی کاوشیں انہیں حیاتِ جاوداں عطا کرتی ہیں۔ اُن کا علم و فکر آئندہ نسلوں کے لئے ذریعہ راہ نمائی بنادیا جاتا ہے اور یوں چراغ سے چراغ جلتے رہتے ہیں۔ اہلِ علم کی برکات سے افراد اور اقوام کی سوچوں کے رُخ تبدیل ہو جاتے ہیں، انہی کے علم و فضل کے طفیل سوسائٹی تنگ نظری اور گھٹن سے نجات حاصل کرتی ہے۔ سماجی علوم کے ماہرین معترف ہیں کہ محققین نہ صرف مستقبل کی راہ نمائی کا فریضہ انجام دیتے ہیں بلکہ آئندہ نسلوں تک علم و شعور منتقل کرنا ان کی انسانیت کے لئے گرانقدر خدمت ہے۔ انسانیت کی نمو، بقا اور حفاظت شعور و آگہی کی مرہونِ منت ہے، اہلِ علم افراد کی ذہنی استعداد بڑھاتے، علمی و اخلاقی اقدار اور معاشرتی روایات کی حفاظت کرتے اور اچھے اور برے میں تمیز کرنے کا شعور دیتے ہیں، یہی شعور سماج کو پرامن، خوشحال اور تہذیب یافتہ بناتا اور اعلیٰ انسانی اقدار و روایات سے ہم آہنگ کرتا ہے۔
قرآن مجید نے مساوات کا درس دیا ہے کہ تمام انسان برابر ہیں۔ کسی عربی کو عجمی پر، گورے کو کالے پر، امیر کو غریب پر کوئی سبقت حاصل نہیں، سب برابر ہیں مگر قرآن نے عالم اور جاہل کو برابر قرار نہیں دیا، یہاں تفریق کی گئی ہے، یہ علم کی فضیلت کا دو ٹوک اعلان اور اعتراف ہے۔ وہ ملک اور معاشرے خوش قسمت ہیں جہاں علمی شخصیات پرورش اور نمو پاتی ہیں۔ جو معاشرے اپنے اہلِ علم کی قدر کرتے ہیں وہ ترقی کی اوجِ ثریا کو چھوتے ہیں اور اہلِ علم کی قدر نہ کرنے والے معاشرے کا وجود اگرچہ ختم نہ بھی ہو مگر پھر بھی وہ ایک اپاہج اور لاغر ڈھانچہ کی مانند ضرور ہوجاتا ہے۔
عصرِ حاضر میں اہلِ علم میں سے ایک نمایاں ترین شخصیت شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری ہیں، جن کی ہمہ جہتی خدمات کو دیکھتے ہوئے انھیں قافلۂ اہلِ علم کا سرخیل کہنا بالکل بجا ہوگا۔ شیخ الاسلام کو ان چند نابغہ روزگار شخصیات میں شامل کیا جا سکتا ہے جنہیں اللہ تعالیٰ نے غیر معمولی صلاحیتوں، گہری بصیرت اور ہمہ جہت شخصیت سے نوازا۔ ان کی زندگی کا نمایاں پہلو یہ ہے کہ انہوں نے اپنی فکر اور نظریات کو تحریری شکل میں پیش کیا اور لاکھوں لوگوں کے لیے ہدایت اور رہنمائی کا ذریعہ بنایا۔ ان کی تصانیف کا دائرہ علوم القرآن، علوم الحدیث، سیرتِ نبوی ﷺ، علوم فقہ، تصوف، اخلاقیات، دعوت و تبلیغ اور مکالمہ بین المذاہب جیسے موضوعات تک پھیلا ہوا ہے۔ اس کے علاوہ، وہ آئین، جمہوریت، عدل و انصاف، قانون، سیاست، معیشت اور سماجیات جیسے متنوع موضوعات پر بھی منفرد انداز میں اظہار خیال کرتے رہے۔ ان کے علمی کارناموں میں ’’ترجمہ عرفان القرآن‘‘، ’’قرآنی انسائیکلوپیڈیا‘‘ اور ’’مجموعہ احادیث‘‘ جیسے شاہکار خاص طور پر نمایاں ہیں، جو ان کی علمی خدمات کا سنہری باب ہیں اور ہمیشہ یاد رکھے جائیں گے۔
شیخ الاسلام نے اپنی ہمہ جہتی کاوشوں کے ذریعے موجودہ اور آئندہ نسلوں کے لئے جو علمی و فکری خدمات انجام دی ہیں، وہ رہتی دنیا تک تشنگانِ علم کی پیاس بجھاتی رہیں گی۔ ایک طرف شیخ الاسلام نے نہایت عمدگی اور خوبصورتی کے ساتھ اپنی تحقیقات، تصنیفات، تالیفات اور خطابات کے ذریعے دینِ اسلام کی تعلیمات کو علمی و فکری سطح پر اُجاگر کیا اور دوسری طرف آج کے دور کے منکرینِ قرآن و حدیث کا شافی علاج اور رد کیا۔ اُن کی یہ کاوشیں، عقائد و ایمانیات کے باب میں مشعلِ راہ ہیں۔ فی زمانہ شیخ الاسلام حقیقی مصطفوی میزان کے تحت دینی اُمور میں بہ فضلِ ایزدی اُمت کے لئے راہ نمائی کا فریضہ انجام دیتے چلے جارہے ہیں۔ آپ نے قانون سازی، قرآن و سنت کے احکام کی تعبیر نو، تجدیدِ دین اور احیائے اسلام کے باب میں عالمی سطح پر حقیقی تعلیماتِ اسلام کے فروغ میں کلیدی کردار ادا کیا۔
جب بھی اُمت کسی بڑے ایمانی، اعتقادی، فکری فتنے سے دوچار ہوتی ہے تو وارثانِ علوم الانبیا، اہلِ علم و عرفان ہستیوں نے بہ توفیق ایزدی ان فتنوں کا سر کچلا اور اُمت کو اندھیروں سے نکال کر روشنی کے سفر پر گامزن کیا۔ فتنۂ معتزلہ کے زمانے میں امام احمد بن حنبلؒ نے اسلامی عقائد کی حفاظت کی، امام ابوحنیفہؒ اور بعد میں آنے والے محدثین، مفسرین، مورخین نے قرآن کو سلطان کی خواہش کے تابع نہ ہونے دیا، برصغیر پاک و ہند میں حضرت مجددالف ثانیؒ دین اکبری کے راستے کی آہنی دیوار بنے اور اسلامی عقائد و تعلیمات کو کسی شہنشاہ کی خواہشات کا غلاف نہیں بننے دیا۔ یہ فہرست بڑی طویل ہے۔ فی زمانہ بھی اسلام اور اُس کی تعلیمات پر حملے کم نہیں ہوئے بلکہ اُن میں شدت آئی ہے۔ جب مال و زر اور ابلاغی تیغ و تفنگ سے لیس مغربی دنیا نے اسلام کے چہرے پر دہشت گردی اور انتہا پسندی کالیبل چسپاں کرنے کی شعوری کوشش کی تو شیخ الاسلام میدان عمل میں اُترے اور ہزار ہا کلو میٹر کا سفر طے کر کے ملک ملک، شہر شہر گئے اور ببانگ دہل اسلام کو انتہا پسندی سے جوڑنے والی سوچ کو چیلنج کیا اور پھر دلائل و براہین سے ثابت کیا کہ اسلام انتہا پسند نہیں بلکہ امن کا سب سے بڑا داعی الوہی دین ہے۔
تاریخ اس بات کی گواہ ہے اور یورپ میں بسنے والے متعدد دانشور اور سکالرز اس بات کا برملا اظہار کرچکے ہیں کہ نائن الیون کے بعد ہم مسلمانوں کے لئے برطانیہ اور دیگر یورپی ممالک میں آزادانہ گھومنا پھرنا مشکل ہو گیا تو اُس وقت شیخ الاسلام ڈاکٹر طاہرالقادری نے بڑی جرأت مندی کے ساتھ عوامی سطح پر اسلام کا مقدمہ لڑا اور دیارِ غیر میں آباد مسلمانوں کو سر اٹھا کر چلنے اور جینے کا اعتماد دیا۔ انھوں نے اپنے مضبوط دلائل کے ذریعہ اسلام کے رخِ روشن پر پڑنے والی گردو غبار کو حقیقی معنی میں دور کیا۔ شیخ الاسلام نے قرآن و سُنت کا یہ مضبوط بیانیہ پیش کیا کہ اسلام کسی انسان کی ناحق جان لینے والا نہیں بلکہ بے گناہ انسان کی جان بچانے والی تعلیمات و احکامات سے مرصع و مزین ہے۔ قرآن و سُنت کی اس امن فلاسفی کے احیاء پر انسانیت کے دشمنوں کی طرف سے آپ پر جان لیوا حملوں کے منصوبے بھی بنے، آپ کی نقل و حمل کو محدود کرنے کی کوششیں کی گئیں مگر الحمدللہ حُسینی فکر و شجاعت کے علمبردار شیخ الاسلام نہ ڈرے، نہ جھکے اور نہ سچ پر کوئی آنچ آنے دی اور آج دنیا اسلام کے پُر امن تشخص کی قائل ہے اور دنیا میں احترامِ مذاہب کے دن منائے جارہے ہیں۔
تعلیمی اور فلاحی میدان میں شیخ الاسلام نے جو کارہائے نمایاں انجام دئیے وہ اپنی مثال آپ ہیں۔ وہ کام جو حکومتوں کے کرنے کے تھے، وہ کام آپ نے انجام دے کر نہ صرف لاکھوں خاندانوں کے لئے آسانیاں مہیا کیں بلکہ اس کے ساتھ ساتھ معاصرین کو بھی ورطۂ حیرت میں ڈال رکھا ہے۔ شیخ الاسلام نے ایک طرف پسماندہ اضلاع کے لاکھوں خاندانوں کے بیٹوں اور بیٹیوں پر اعلیٰ اور بامقصد تعلیم کے دروازے کھولے اور دوسری طرف متعدد فلاحی منصوبہ جات کے ذریعے پسماندہ علاقوں میں رہنے والوں کو سہولتیں پہنچانے کی بھی کاوشیں کیں۔ جب بھی پبلک سیکٹر سے غیر جانبدار محقق شرح خواندگی اور فلاحِ عامہ کے حوالے سے پرائیویٹ سیکٹر کے کردار اور شیئر پر غیر جانبدارانہ سروے کرے گا تو اُسے منہاج القرآن کا کردار نمایاں نظر آئے گا۔ شیخ الاسلام نے اپنی زندگی کے ہر لمحے کو نوجوانوں کے کردار و اخلاق کی تعمیر، ویمن امپاورمنٹ، بین المذاہب رواداری، بین المسالک ہم آہنگی، فروغِ علم و امن، خدمتِ انسانیت اور خدمت دین کے لئے وقف کررکھا ہے۔
شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری دامت برکاتہم العالیہ اپنی 74ویں سالگرہ منارہے ہیں۔ دنیا بھر سے علم کے قدر دان اُن کے لئے صحت و سلامتی والی لمبی زندگی کی دعاؤں کے تحفے ارسال کررہے ہیں۔ بلاشبہ شیخ الاسلام رواں صدی کے وہ نابغۂ عصر ہیں جنہوں نے شجرِ علم و عرفان کی ہر شاخ کی تزئینِ نو کی ہے۔ ماہنامہ منہاج القرآن اپنے ہزار ہا قارئین کی ترجمانی کرتے ہوئے شیخ الاسلام کی صحت و تندرستی والی لمبی عمر کے لئے دعا گو ہے۔ اللہ رب العزت ان کے سایہ کو ہمارے اور اُمہ کے سر پر قائم و دائم رکھے اور وہ اسی آب و تاب اور شان و شوکت کے ساتھ خدمتِ دین کا فریضہ سرانجام دیتے رہیں۔
(چیف ایڈیٹر :نوراللہ صدیقی)