دنیاتہذیبی کشمکش کی آماجگاہ ہے، کرہِ اَرض پر کئی ملل اُبھریں، زیرو زبر ہوئیں اور مٹ گئیں۔ اسلام اورمغرب کے مابین فکری وتہذیبی، سیاسی و ثقافتی، معاشی وقانونی اور سماجی و مذہبی کشمکش کی تاریخ بہت طویل ہے، اس کی وجہ باہمی خوف وانتشار، عدمِ اعتماد، افہام وتفہیم کا فقدان اور استعماری قوتوں کےکچھ سیاسی ومعاشی مفادات ہیں۔ مغربی دنیا میں اسلام کے بارے میں دو سطحوں پر غلط فہمیاں پیدا ہوئیں:
۱۔ مسلمانوں کی سطح پر
۲۔ غیر مسلموں کی سطح
ذیل میں ان دونوں حوالوں سے وضاحت درج کی جاتی ہے:
۱۔ دہشت گردی شدت پسندی کا نتیجہ ہے اور شدت پسندی تنگ نظری اور عدمِ برداشت سے جنم لیتی ہے۔ اگر یوں کہا جائے کہ تنگ نظر شدت پسند ہی دہشت گردی کا بنیادی سبب ہیں تو یہ غلط نہ ہوگا۔ تنگ نظر اپنے محدود سفلی مقاصد کےلیے اسلام کو بطور ڈھال استعمال کرتے ہیں۔ تاریخ بتاتی ہے کہ اسلامی اَقدار وتصورات کو اپنے محدود ومکروہ عزائم کےلیے استعمال کرنے کا آغاز خوارج نے قرونِ اولیٰ میں کردیاتھا، وہ اپنی انتہاپسندانہ اور دہشتگردانہ سوچ کو عینِ اسلام قرار دے کر مولائے کائنات علی شیرِ خداؓ سمیت دیگر اکابر صحابہ کرامؓ کی تکفیر کرتے اور ان کے خلاف تلوار اٹھانے کو عینِ اسلام اور جہاد قرار دیتے تھے۔
ان ہی کے تسلسل میں بدقسمتی سےگذشتہ اڑھائی دہائیوں میں فتنہ وفساد، قتل و غار گری اورخودکش دھماکوں میں بےگناہ لوگوں کو لقمہ اجل بنانے والے جدید خوارج کے مکروہ عفریت نے بلا تفریقِ رنگ و نسل و مذہب وملت دنیا کے امن کو تباہ کرنا شروع کیا اور اس قتل وغارت گری کو اسلام کے تصورِ جہاد سے نتھی کرتے ہوئے نعرہ تکبیر بلند کرکے لوگوں کے گلے کاٹنے، سروں کے فٹ بال بنانے اور گردن زدنی کی فلمیں بناکر دنیا میں پھیلانے لگے جس سے اسلام کے خلاف پوری دنیا میں اضطراب کی لہر پھیل گئی۔
کئی سادہ لوح نوجوان اس قتل و غارت گری کو جہاد سمجھ کر اس کی طرف راغب ہونے لگے۔ مغربی معاشروں میں دین کے بارے میں زیادہ معلومات نہ ہونے کی وجہ سے کئی نوجوان دہشت گردوں کی ان کاروائیوں کو اسلام سمجھ کر ان کی حمایتی بننے لگے۔
ان حالات میں خاموشی جرم تھی، اس لیے شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری مدظلہ العالیٰ نے مسلمان نوجوانوں کو براہِ راست قرآن و سنت سے دلائل دے کر ان کے دل ودماغ سے تنگ نظری پر مبنی شدت پسندانہ نظریات کو نکال کر، ان کی جگہ نبی رحمت ﷺ کے عطا کردہ دینِ متین کی حقیقی تعلیمات کو اجاگر کیا۔ منہاج القرآن انٹرنیشنل کے پلیٹ فارمز سے یورپ میں ہونے والے الہدایہ اور النصیحہ کیمپس اسی سلسلے کی کڑیاں تھیں۔
۲۔ مغربی دنیا میں اسلام کے بارے میں مسلمانوں کی طرح غیرمسلموں کی سطح پر بھی غلط فہمیاں پیدا ہوئیں۔ مغربی تہذیب لبرلزم، سیکولرزم، سوشلزم اور ہیومنزم جیسے نظریات پر قائم ہے، اس لیے عوامِ مغرب کی اسلام کی بارے میں غلط فہمیوں کی سطحیں بھی مختلف ہیں۔ اگریہ کہا جائے کہ عام مغربی عوام تو مستشرقین اور میڈیا کے پروپیگنڈا کی وجہ سے غلط فہمیوں کا شکار ہے، جبکہ صاحبانِ حل و عقد دہشتگردی کے خلاف جنگ کے نام پر اسلامی عقیدہ وتہذیب کو کچلنے کے لیے سرگرم عمل ہیں، تو یہ غلط نہ ہوگا۔ انتہاؤں کا وجود کہاں نہیں ہوتا؟ بگڑے ہوئے لوگ ہرمعاشرے میں پائے جاتے ہیں، ان کا رویہ پورے معاشرے کاعکاس نہیں ہوتا لیکن اگر انہیں کسی معاشرے کے بارے میں فیصلہ کرنے کی بنیاد بنا لیا جائے تو حقائق مسخ ہو جاتے ہیں۔
اس لیے شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے مغربی دنیا کو امتِ دعوت سمجھتے ہوئے، کچھ ناسمجھوں کے اِسلام کےخلاف حملوں کا مقابلہ تعلیم و تعلم، علم دوستی اور منطق ودلیل کو فروغ دے کر گیارہ ستمبر کی مصیبت ٹوٹنے سے تقریباً ایک دہائی پہلے شروع کر دیا تھا۔ اس ضمن میں شیخ الاسلام کے خطابات کے چندموضوعات کی ایک جھلک حسبِ ذیل ہے:
بالخصوص نائن الیون (11 / 9) کے دنیا پر بہت گہرے اور وسیع اثرات مرتب ہوئے، پوری دنیا میں مسلمانوں کے خلاف تفریق اور اسلاموفوبیا ابھرکرسامنے آیا۔ مختلف ممالک میں وار آن ٹیرر (War on Terror) کے نام پر جتنی بھی قانون سازی کی گئی اس کا ہدف اسلام اور مسلمان تھے۔ ایک خوف کی فضا پیدا کرکےاسلام اور مسلمانوں پر انگلیاں اٹھائی گئیں، اسے اسلام اور مغرب کی جنگ بنا کر خوب میڈیا ٹرائل کیا گیا۔ اس جنگ کا اثرانفرادی سطح پر بھی ہوا اور اجتماعی پر بھی، مسلمانوں پر بھی اور غیرمسلموں پر بھی، عوام پربھی اور خواص پر بھی۔
اندریں حالات جب مغربی میڈیا کھل کر اسلام کے خلاف زہراگلنے لگا تو ان نامساعدحالات میں شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری مدظلہ العالیٰ نے مغرب کے سامنے اسلامی تعلیمات کا مقدمہ صحیح انداز میں پیش کرنےاور تعلیماتِ اسلام پر جوگرد ڈالی جارہی تھی، اسے جھاڑ کر تعلیماتِ دین کا ستھرا، شفاف اور واضح چہرہ دنیا کے سامنے پیش کرنے کا بیڑہ اٹھایا اور تمام مغربی ممالک میں کئی سالوں کی مسلسل کوشش کے بعد یہ باورکروانے میں کامیاب ہو گئے کہ اسلام دین رحمت وسلامتی ہے۔ مثلاً:
واشنگٹن ڈی سی، امریکہ کے معروف تھنک ٹینک United States Institute of Peace (USIP) میں ”اسلام کے تصور جہاد“ پر خصوصی خطاب کیا، جس میں جہاد کی مختلف اقسام اور ان کے مقاصد کو واضح کیا۔
جارج ٹاؤن یونیورسٹی میں ”تصورِ جہاد اور اسلام“ کے موضوع پرآپ نے خطاب کیا، جس میں جہاد اور دہشت گردی کے مابین فرق کو واضح کیا اور اسلام کے امن پسند پیغام کو اجاگر کیا۔
شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری نے مسلمان نوجوانوں کو براہِ راست قرآن و سنت سے دلائل دے کر ان کے دل ودماغ سے تنگ نظری پر مبنی شدت پسندانہ نظریات کو نکالا اور ان کی جگہ نبی رحمت ﷺ کے عطا کردہ دینِ متین کی حقیقی تعلیمات کو اجاگر کیا
مختلف بین الاقوامی سیمینارز میں اسلام اور مغرب کے درمیان تعلقات، تنوع، اور انضمام کے موضوعات پر آپ کے لیکچرز کو عالمی سطح پر سراہا گیا ہے۔ ورلڈ اکنامک فورم میں آپ نے ”دہشت گردی کی حقیقت“ کے موضوع پر خطاب کیا، جس میں اسلام کے حقیقی پیغام کو پیش کیا اور دہشت گردی کے خلاف شرعی مؤقف کو واضح کیا۔
شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے گزشتہ ساڑھے چار دہائیوں سے انتہا پسندی، تنگ نظری، فرقہ واریت اور دہشت گردی کے خلاف علمی و فکری میدانوںمیں بھرپور جد و جہد کی ہے۔ اِنتہا پسندی اور دہشت گردی کے خلاف ناقابلِ تردید دلائل و براہین پر مشتمل آپ کا تاریخی مبسوط فتوی 2010ء سے کتابی شکل میں دست یاب ہے۔ یہ فتویٰ اُردو، انگریزی، نارویجن، ڈینش، جرمن، فرینچ، اسپینش اور ہندی کے علاوہ بھی کئی زبانوں میں شائع ہوچکا ہے۔ کئی ممالک میں دہشت گردی کے خلاف حکومتی پالیسی سازاداروں نے آپ کے فتوی اور کتب سے رہنما دستاویز ات کے طور پر استفادہ کیا ہے۔ اس فتوے میں قرآن، حدیث، اور فقہ کی روشنی میں 600 سے زائد دلائل پیش کیے گئے ہیں۔
آپ نے یونیورسٹیز، کالجز اور سیکڑوں عوامی مراکز پر مغربی دنیا کے دانشوروں، پالیسی سازوں اورعوامی نمائندوں کے سامنےیہ واضح کیا کہ اللہ رب العزت نے اپنے بندوں کےلیے جو دین پسند فرمایا اس کا نام "اسلام“ رکھا، یعنی ”دائمی امن وسکون اور لازوال سلامتی کا دین“۔ یہ امتیاز دنیا کے کسی مذہب کو حاصل نہیں۔ اسلام سراپا امن و رحمت اور سراپا سلامتی ہے۔ اسلام کے معنی’’سلامتی‘‘ کے ہیں۔ اسلام نے مضبوط بنیادوں پر امن وسکون کے ایک نئے باب کاآغاز کیا اور پوری علمی و اخلاقی قوت اور فکری بلندی کے ساتھ اس کو وسعت دینے کی کوشش کی۔ آج دنیا میں امن وامان کا جو رجحان پایا جاتا ہے اور ہر طبقہ اپنے اپنے طورپر کسی گہوارہِ سکون کی تلاش میں ہے، یہ بڑی حد تک اسلامی تعلیمات کی دین ہے۔ دنیا میں صرف اسلام ہی ایک ایسا دین ہے جو امن اور سلامتی کی ضمانت دیتا ہے اور ہر سطح پر دہشت گردی اور تخریب کاری کی حوصلہ شکنی کرتا ہے۔ اس کی نگاہ میں بنی نوع انسان کا ہر فرد بلاتفریقِ مذہب و ملت احترام کا مستحق ہے۔ آج بھی اسلام کی آفاقی تعلیمات پر عمل کیا جائے تو دنیا امن کا گہوارہ بن سکتی ہے۔
شیخ الاسلام نے اسلام کی آفاقی تعلیمات کا برملا اظہار کرتے ہوئے فرمایا کہ نبی رحمت ﷺکی حیاتِ طیبہ، صبر و برداشت، عفو و درگذر اور رواداری سے عبارت ہے۔ دین ِاسلام زندگی کے ہر شعبہ ہماری مکمل راہنمائی کرتا ہے۔ اسلام نے ہمیشہ محبت و اخوت اور اعتدال وتوازن کا درس دیا ہےجبکہ انتہا پسندی اوردہشت گردى ايك وحشيانہ فعل ہے اور اسلام كے تہذيبى نظام ميں اس كى كوئى گنجائش نہيں بلکہ یہ دین کی حقیقی تعلیمات، اسلام کے پیغام امن وسلامتی اور پیغمبر ِرحمت، محسن انسانیت ﷺ کے اسوۂ حسنہ کے بالکل منافی ہے۔ اسلام ا ذیت پسندی اور فساد انگیزی کا روادار نہیں بلکہ تقدیسِ انسانی کا داعی ہے، اس لیے ہر قسم کے ظلم و بربریت، فتنہ انگیزی، خون ریزی اور دہشت گردی حتی کہ کسی کے بارے میں بدظنی اور جھوٹی افواہوں سے بھی سختی سے منع کرتا ہے اور ان اقدامات کو جارحانہ اور وحشیانہ عمل قرار دیتا ہے۔
شیخ الاسلام نے دنیا کے سامنے واضح کیا کہ اسلام ہی پنے دامن میں انسانیت کی فلاح وبہبود کا مکمل نظام سمائے ہوئے ہے۔ اسلام کو سمجھنا ہے تو کلامِ الٰہی قرآن مجید اور سنت و سیرتِ نبوی ﷺ کی روشنی میں سمجھیں۔ قرآن وسنت ہی اسلام کا صحیح ومستند مأخذ ہیں۔ اگر کسی متشدد، تنگ نظر، شدت پسند یا دہشت گرد کے اقوال وافعال کی روشنی میں اسلام کی تشریحات کی جائیں گی یا اسلام کو سمجھنے کی کوشش کی جائے گی تو یہ یقیناً ظلم اور ناقابلِ قبول رویہ ہوگا۔
الغرض بین الاقوامی برادری نے بالخصوص اور مغرب میں مقیم مسلمانوں نے بالعموم آپ کی احترامِ انسانیت اور بقائے باہمی کےلیے کی گئی کاوشوں کو نہ صرف قبول کیا بلکہ اس کا بھر پور اظہار بھی کیا۔ برطانوی پارلیمنٹ کے ہاؤس آف کامنز کی ڈیفنس کمیٹی نے اپنے سیشن 2002-2003ء کی چھٹی رپورٹ میں بیان کیا:
Dr Qadri claimed that any terrorist act is against the basic precepts of Islam and that it does not allow aggression, oppression and barbarism in any event. And that there is a faction in the Islamic world whose interpretations of Islam are extremist in nature. Their handling of political, social and cultural matters reflect the extremist trend in their thinking. He stated that this extremist class believes that Islam is inconsistent with democracy and any association with democracy is forbidden.
(Dr Muhammad Tahir-ul-Qadri, "Extremism : Causes and Cures", The Nation, December 14, 2001)
شیخ الاسلام نے مغرب کے سامنے اسلامی تعلیمات کا مقدمہ صحیح انداز میں پیش کیا۔ آپ نے تعلیماتِ اسلام کا شفاف اور واضح چہرہ دنیا کے سامنے پیش کیا۔ آپ تمام مغربی ممالک میں کئی سالوں کی مسلسل کوشش کے بعد یہ باورکروانے میں کامیاب ہو گئے کہ اسلام دینِ رحمت وسلامتی ہے۔
”ڈاکٹر طاہر القادری کا موقف یہ ہے کہ دہشت گردانہ کارروائی بنیادی اسلامی تصورات کے خلاف ہے۔ اسلام کسی صورت میں جارحیت، ظلم و زیادتی اور بربریت کی اجازت نہیں دیتا۔ مسلم دنیا میں ایک گروہ ایسے لوگوں کا ہے جن کی اسلام کے بارے میں تشریحات و توضیحات انتہا پسندانہ نوعیت کی ہیں۔ سیاسی، معاشرتی اور ثقافتی معاملات میں ان کا طرزِ عمل ان کی انتہا پسندانہ سوچ کا آئینہ دار ہے۔ انھوں نے یہ بھی کہا کہ یہ انتہا پسندانہ جماعت اس امر پر یقین رکھتی ہے کہ اسلام کا جمہوریت سے کوئی تعلق و سروکار نہیں او رجمہوریت کے ساتھ کسی بھی قسم کا تعلق حرام ہے۔“
امریکہ میں تعلیمی نصاب میں شامل کتاب”Think World Religions“ میں اُسامہ بن لادن کا بیانیہ دے کر اُسے شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری کے اَمن بیانیہ کے ذریعے ردّ کیا گیا ہے۔ اس طرح امریکہ نے نصابی کتاب میں شیخ الاسلام کی ریاستی سطح کی کاوش کا اِقرار کیا ہے۔
حرفِ آخر
مغربی دنیا میں بین المذاہب ہم آہنگی پیدا کرنے اور اسلام کے بارے میں پائی جانے والی غلط فہمیاں دور کرنے کےلیے آپ نے جو کارہائے نمایاں سرانجام دیے ہیں، ان کا خلاصہ درج ذیل ہے:
۱۔ معاشرتی وحدت (Integration) کے فروغ کے لیے اسلامی تعلیمات کے عملی نمونے پیش کیے۔ انہوں نے ریاستِ مدینہ کی” میثاق مدینہ“ جیسی مثالوں کو اجاگر کیا، جو کثیر الثقافتی معاشروں میں ہم آہنگی کی بنیاد فراہم کرتی ہیں۔
۲۔ رویوں میں تعصب، جارحیت، انتہا پسندی اورتشدد کے خاتمے کے لیے پوری دنیا میں اَن تھک محنت کی۔ اس سلسلہ میں مختلف ممالک میں منعقد ہونے والےالہدایہ کیمپ اور ان کے موضوعات کو دیکھا جا سکتا ہے۔
۳۔ اسلام کی اعتدال، توازن، وسعت اور برداشت پر مبنی تعلیمات کو مشرق سے مغرب تک متعارف کروایا اور ان کو فروغ دیا۔
۴۔ اِسلام اور بالخصوص نبی رحمت ﷺ کی ذاتِ گرامی پر وارد کیے جانے والے اعتراضات کا جواب پیش کیا اور آقا کریمﷺ کی سیرتِ طیبہ سے مثالیں دے کر یہ واضح کیا ہے انسانیت آج بھی امن ورحمت کےلیے سرکارِ دوعالَم ﷺ کے عطاکردہ فہم وفراست کی محتاج ہے۔
۵۔ انسانی معاشروں میں وسیع البنیاد اور ہمہ جہت سوچ کو فروغ دیا اور یہ شعور اجاگر کیا کہ اسلامی معاشرت کی اعلیٰ اقدار کو دنیا کے سامنے پیش کیا جائے تاکہ مسلمان معاشرتی رویوں میں دوسروں کے لیے پسندیدہ بن سکیں اور ایک پرامن Multicultural سوسائٹی تشکیل پائے۔
۶۔ مختلف الافکار اَقوام کی سوچ کو bridge up کیا اور بین المذاہب مکالمے (Interfaith Dialogue) کو فروغ دیا تاکہ مختلف مذاہب کے پیروکاروں کے درمیان امن اور ہم آہنگی پیدا ہو۔
۷۔ دنیا کو تہذیبی تصادم سے بچانے کے لیے اپنی علمی، مذہبی اور سماجی خدمات کے ذریعے ایک نمایاں کردار ادا کیا اور ساری دنیا پر یہ واضح کیا کہ صرف مذاہب اور تہذیبوں کا احترام کرتے ہوئے ہم ایک دوسرے کے قریب آ سکتے ہیں اور تہذیبی تصادم کی بجائے باہمی تعاون اور رواداری کی فضا پیدا کی جا سکتی ہے۔
۸۔ مسلمانوں اور غیر مسلموں کے باہمی تعلقات کا حقیقی اِسلامی تصور پیش کیا۔
بین الاقوامی برادری نے بالخصوص اور مغرب میں مقیم مسلمانوں نے بالعموم آپ کی احترامِ انسانیت اور بقائے باہمی کے لیے کی گئی کاوشوں کو نہ صرف قبول کیا بلکہ اس کا بھر پور اظہار بھی کیا
۹۔ فروغِ اَمن اور اِنسدادِ دہشت گردی کا اِسلامی نصاب پیش کیا۔
۱۰۔ پوری دنیا میں امن کانفرنسز منعقد کیں۔ مسلمانوں کو اپنی تعمیرِ ذات اور عملی دعوت پر توجہ دینے کی تلقین کی ہے۔ مسلمانوں کو اس چیز پر مائل کیا کہ وہ اپنی شخصیت میں پرکشش اور اعتدال پسند رویے پیدا کریں تاکہ معاشرتی وحدت (Integration) کو فروغ دیا جا سکے اور تعصبات ختم ہوں۔
۱۱۔ دینِ اسلام کے پُرامن، معتدل اور مبنی بر رحمت تصور کو مسلمانوں اور غیر مسلموں کے ذہنوں میں اجاگر کیا اور پوری انسانیت کے لیے اسلام کی تعلیماتِ محبت کو ہر سطح پر متعارف کروایا۔
۱۲۔ آپ نے قیامِ امن کے مناظرانہ طریقِ دعوت کا رد فرماتے ہوئے اس بات پر زور دیا کہ شدت پسندی، تعصبات، باہمی نفرت اور دہشت گردی کے خاتمے کیلئے نفرتوں اور انتہاپسندی کو تقویت دینے والے لٹریچر پر پابندی عائد کی جائے۔