عصرِ حاضر کے چیلنجز اور فکرِ شیخ الاسلام
عصرِ حاضر کے چیلنجز سے مراد وہ مشکلات، مسائل اور سوالات ہیں جو آج کے دور میں مسلمانوں کو درپیش ہیں اورجن کا تعلق مذہبی، سماجی، اقتصادی اور فکری پہلوؤں سے ہے۔ یہ چیلنجز اس وقت پیدا ہوتے ہیں جب دنیا کے بدلتے حالات، نئی ایجادات، نئے نظریات اور افکار کے باعث اسلامی تعلیمات کو نئے حالات کے تناظر میں سمجھنے اور ان کا اطلاق کرنے کی ضرورت پیش آتی ہے۔ یہاں پر عصرِ حاضر سے ہماری مراد 1850ء کے بعد سے لے کر موجودہ دور تک کا زمانہ بالعموم اور سلطنتِ عثمانیہ کے خاتمہ (1924ء) سے لے کر آج تک کا زمانہ بالخصوص ہے۔ یہ دور روشن خیالی (Enlightmen)، جدیدیت (Modernity)، انفرادیت کے فروغ (Individualism)، لادینیت، الحادیت (Atheism) جیسی فکری و نظریاتی تحریکوں کے منصہ شہود پر آنے اور سائنسی انقلاب (Scientific Revolution)، صنعتی انقلاب (Industrial revolution) کے برپا ہونے کا ہے۔
اسی دور میں نو آبادیاتی نظام (Colonialism) نے اپنے پنجے گاڑے اور عالمِ اسلام بالخصوص اس کا نشانہ بنا۔ اسی زمانہ میں سرمایہ داری (Capitalism) اور مارکسزم و سوشلزم جیسے معاشی نظاموں نے دنیا کو دو بلاکس میں تقسیم کردیا۔ مغرب بالادست ہوا اور اس کی تہذیب نے باقی تہذیبوں کو اپنا باجگزار بنالیا۔ عالم اسلام پر مغرب کی علمی و فکری، سیاسی و عسکری اور معاشی و معاشرتی یلغار جاری رہی جس کے اثرات سے اسلام کی قوتِ نافذہ بھی چھن گئی اور فکری نظام بھی جمود کا شکار ہوگیا۔
اس دور کے کھڑے کیے گئے چیلنجز سے نبرد آزما ہونے کے لیے عالم اسلام کے کئی مفکرین و قائدین متحرک رہے اور اپنی اپنی بساط کے مطابق چیلنجز سے نبرد آزما ہونے کے لیے کاوشوں کو بروئے کار لائے۔ مفکرین کی اس مالا کے ایک منفرد اور روشن ترین جوہر کا نام شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری ہے جن کی منفرد فکر اور قیادت ہمارا آج کا خاص موضوع ہے۔
عصر حاضر نے یہ ثابت کردیا ہے کہ چیلنجز کو سمجھنا بھی ایک سائنس ہے اور ان کا حل تلاش کرنا بھی ایک سائنس ہے۔ چیلنجز کی کئی اقسام ہوتی ہیں، یہاں ہمارا مطمع نظر قومی چیلنجز ہیں۔ قومی چیلنجز سے نمٹنے کی سائنس ایک ایسا منظم طریقہ کار ہے جس کےذریعے ملک و قوم کو درپیش مسائل کو سمجھا جاتا ہےا ور ان کے مؤثر حل کی حکمتِ عملی تلاش کی جاتی ہے۔ یہ عمل مختلف شعبہ جات کی معلومات اور مہارت کو یکجا کرتا ہے جن میں سماجی علوم، معاشیات، ٹیکنالوجی اور پالیسی میکنگ شامل ہیں۔ اس تناظر میں شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی فکری و عملی کاوشوں کی انفرادیت اور قدرو قیمت جاننے کے لیے ہمیں عصرِ حاضر کے چیلنجز کو بھی سمجھنا ہوگا اور اس سلسلہ میں عالمِ اسلام کی موجودہ حالت پر بھی غورکرنا ہوگا۔
چیلنجز کا ادراک اور عالمِ اسلام کی موجودہ حالت
عصر حاضر کے چیلنجز کے حوالہ سے عالم اسلام کی موجودہ حالت کو مندرجہ ذیل عنوانات سے سمجھا جاسکتا ہے:
(۱) چیلنجز کا عدمِ ادراک
چیلنجز سے نبرد آزما ہونا تو رہا ایک طرف عمومی طور پر عالمِ اسلام ابھی تک چیلنجز کے ادراک سے ہی عاری ہے۔ گردشِ زمانہ نے عالمِ اسلام کے مختلف خطوں میں قیادت کا ہما جن سروں پر بٹھادیا ہے، وہ نگہ بلند، عمیق نظری اور درپیش چیلنجز کے ادراک سے ہی عاری ہیں۔ دلیل اس کی یہ ہے کہ عالمِ اسلام کو درپیش عصری چیلنجز پر کہیں پر کوئی تصنیف نہیں ملتی جس میں عمیق نظری سے تحقیقی نقطہ نظر پیش کیا گیا۔ عصری چیلنجز کے حوالہ سے جب کوئی شخص کسی علمی و فکری کاوش کی تلاش میں نکلتا ہے تو سوائے چند لوگوں کے دو چار خطابات کے کچھ دستیاب نہیں ہوتا۔
(۲) فکر و فلسفہ سے عاری اندھا دھند جدوجہد
عالمِ اسلام میں کوئی تحریکیں، جماعتیں اور شخصیات اپنی حد تک بیداری امت اور حالات کو بدلنے کی جدوجہد میں مصروف ہیں، سرسری طور پر کچھ چیلنجز کا احساس بھی موجود ہے لیکن یہ ساری جدوجہد زہد و تقویٰ و اخلاص پر مبنی ہونے کے باوجود کسی ریسرچ شدہ فکرو فلسفہ سے عاری ہے۔ کسی جدوجہد کے پیچھے کوئی گہری سوچ موجود نہیں ہے۔ الجھے ہوئے تصورات کو فلسفہ ہی ایک سمت عطا کرتا ہے اور بغیر کسی فلاسفی کے سرسری غوروفکر کی بنیاد پر جو جدوجہد کی جاتی ہے وہ اخلاص و محنت کے باوجود بے نتیجہ رہتی ہے۔ عالمِ اسلام میں اس وقت جتنی بھی جدوجہد ہورہی ہے وہ فکرو فلسفہ سے عاری اندھا دھند جدوجہد ہے اور اندھا دھند جدوجہد نتائج بھی اندھا دھند پیدا کرتی ہے۔ ایسی جدوجہد نتیجہ کچھ اور پانا چاہ رہی ہوتی ہے لیکن نتیجہ نکل کچھ اور آتا ہے۔ ایسی اندھا دھند جدوجہد سے عالمِ اسلام میں زوال و انتشارکچھ اور گہرا ہوجاتا ہے۔
(۳) چیلنجز کی عدمِ ترتیب
ایک فلسفہ ہی زندگی کے مختلف شعبہ جات میں چیلنجز کو تلاش بھی کرتا ہے اور پھر انہیں ایک منطقی ترتیب بھی دیتا ہے۔ فلسفہ ہی مختلف علوم کو یکجا کرکے یکسانیت کا احساس پیدا کرتا ہے۔ فلسفہ ہی کسی چیلنج کی زیادہ یا کم اہمیت کو طے کرتا ہے اور یہ بھی طے کرتا ہے کہ کس چیلنج کو کس وقت پر کس طرح Tackle کرنا ہے۔ جب کسی جدوجہد کے پیچھے کوئی فکرو فلسفہ موجود نہ ہو تو چیلنجز سے نمٹنے کے لیے وسائل اور وقت لگتا تو رہتا ہے لیکن اس جدوجہد کی کوئی ترتیب نہیں ہوتی اور بے ترتیب جدوجہد نتائج بھی بے ترتیب ہی پیدا کرتی ہے۔
(۴) وقتی ایشوز کوچیلنج قرار دینا
پونے دو سو سال سے عالمِ اسلام کو چھوٹے بڑے چیلنجز نے گھیرا ہوا ہے۔ اکثر چیلنجز قومی اور بین الاقوامی سطح کے ہیں۔ زوال کا دورانیہ طویل ہوگیا ہے اور ابھی تک آثارِ سحر ظاہراً نظر نہیں آرہے۔ عالمِ اسلام کا المیہ یہ بھی ہے کہ بعض وقتی ایشوز کو کل وقتی ایشوز بلکہ قومی اور بین الاقوامی ایشوز قرار دے کر جدوجہد شروع کردی جاتی ہے بلکہ ان ایشوز پر جماعتیں قائم ہوجاتی ہیں، توانائیاں صرف ہوتی ہیں مگر نتیجہ یاتو برآمد ہی نہیں ہوتا یا بے ہنگم نتائج کا ایک اور جنگل اُگ آتا ہے۔ اگر ہر ایک وقتی ایشو کو الگ الگ حل کرنے لگ جائیں، تب بھی عالمِ اسلام کا ہمہ گیر زوال ختم نہیں ہوسکتا، اس لیے کہ جب تک اصل چیلنج سے نبرد آزما نہ ہوں گے، زوال کو عروج میں تبدیل نہیں کیا جاسکتا۔ علاوہ ازیں ہم نے ہر ایشو کو سیاسی طریقے سے حل کرنا وطیرہ بنالیا ہوا ہے جبکہ بعض ایشوز کی جنگ سیاسی کی بجائے قانونی و سماجی ہوتی ہے۔
(۵) چیلنجز کی سائنس سے ناآشنائی اورجذباتیت
عالمِ اسلام میں جتنی جدوجہد بھی جاری ہے (الا ماشاء اللہ) زیادہ تر صرف جذباتیت کی سطح پر ہے۔ چیلنجز سے نمٹنے کا سائنسی طرزِ عمل عنقا نظر آتا ہے۔ سائنس آف چیلنجز سے تقریباً مکمل ناآشنائی ہے۔ جلسے، جلوس، ریلیاں، محفلیں، بیانات و خطابات میں 99% جذباتی انداز سے ہی واسطہ پڑتا ہے۔ چیلنجز کے حوالے سے ٹھوس علمی و تحقیقی گفتگو یا تصنیفی کام کہیں خال خال ہی نظر آتا ہے۔ پھر اس تھوڑے سے دستیاب علمی و تحقیقی کام کا مطمعِ نظر بھی مسلکی ہے، امتِ مسلمہ کے معاملات کسی کا ہدف نہیں ہیں۔
(۶) اصل چیلنجز سے بے خبری
عالمِ اسلام جس ہمہ گیر زوال کا شکار ہے اس کے اصل چیلنجز سیاسی، معاشی اور سماجی ہیں لیکن جدوجہد کرنے والوں کا سارے کا سارا زور مسلکی و مذہبی اور فقہی ایشوز پر مرکوز ہے۔ فروعی عقائد کے مسائل پر بحث و تمحیص اور عبادات کے طریقوں کے اختلاف پر شورو غوغا ساری کی ساری تبلیغ کا ہدف صرف یہی رہ گیا ہے۔ خال خال چند لوگ اخلاقی ایشوز پر بھی بات کرتے ہیں مگر مصطفوی معاشرے کا قیام جو اصل چیلنج ہے اور اس کے نتیجے میں معاشی و سماجی تبدیلی اصل ہدف ہے، اس پر کوئی ریسرچ اور تحقیق نظر نہیں آتی۔
ساری تحقیق فروعی عقائد اور عبادت میں اختلافی مسائل کے دائرے میں ہے۔ مدارس، تعلیمی
اداروں، علمی شخصیات اور عوام کی ساری نظر بس اسی اسلام پر مرکوز ہوکر رہ گئی ہے۔ اسلاف
کے فضائل کے بیان سے ہی فرصت میسر نہیں ہے، چیلنجز جو منہ پھاڑے کھڑے ہیں، ان کے لیے
جس تحقیق و محنت کی ضرورت ہے، اس کا کسی کو ادراک تک نہیں ہے۔ حالت وہی ہے کہ ہلاکو
خان بغداد تباہ کرنے کے لیے بغداد کا محاصرہ کرچکا ہے اور اہلِ بغدادکو ے کے حلال و
حرام ہونے پر مناظرہ کررہے ہیں۔ ہر طرف ناپختہ سوچ کا دور دورہ ہے، اس ناپختہ سوچ کے
نقار خانے میں کسی طوطیٔ تحقیق کی صدا سننے کو کوئی تیار نہیں ہے۔ حالت یہ ہے کہ زمانہ
پکار پکار کے کہہ رہا ہے:
آگ ہے، اولادِ ابراہیم ہے، نمرود ہے
کیا کسی کو پھر کسی کا امتحاں مقصود ہے
مگر ادھر حالت یہ ہے کہ:
واعظِ قوم کی وہ پختہ خیالی نہ رہی
برقِ طبعی نہ رہی، شعلہ مقالی نہ رہی
کوئی شیخ، کوئی واعظ، کوئی مصنف یہ سوچنے کو تیار نہیں کہ اگر اس کا مزعومہ مسلک ساری قوم بھی قبول کرلے، ساری قوم نمازی ہوجائے، ساری قوم حافظ قرآن ہوجائے، ساری قوم کا تزکیہ نفس ہوجائے، ساری قوم اہلحدیث یا دیوبند یا شیعہ یا بریلوی ہوجائے پھر بھی زوالِ امت ختم نہیں ہوگا کیونکہ زوال کے چیلنج سیاسی، معاشی و سماجی ہیں مسلکی و عباداتی نہیں ہیں۔
۲۔ دورِ زوال کے مفکرین کی کاوشیں مطلوبہ نتائج پیدا کرنے میں کیوں ناکام رہیں؟
دورِ زوال کے مفکرین کی کاوشیں انتہائی قابلِ قدر ہیں۔ انھوں نے اپنے اپنےعلاقے میں مسلمانوں کی ایک متعدبہ تعداد کو متاثر کیا، کئی مفکرین نے اپنی اپنی جماعتیں قائم کیں اور اپنی فکر کے نتائج حاصل کرنے کی کوشش کی۔ مگر مجموعی اعتبار سے یہ مفکرین امتِ مسلمہ کو درپیش چیلنجز کا علمی و عملی سطح پر کماحقہ حل نہ دے سکے۔ عصر حاضر کے چیلنجز سے نبرد آزما ہونے کے شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی انفرادیت سے آشنا ہونے کے لیے ضروری ہے کہ ہم مختصر طور پر یہ بھی جائزہ لیں کہ مندرجہ بالا تمام فکری کاوشیں وہ نتائج پیداکیوں نہ کرسکیں جس کی توقع تھی اور یہ کہ عالمِ اسلام ابھی تک زوال کے دائرے سے باہر کیوں نہیں آ پارہا؟ اس سلسلہ میں اہم نکات درج ذیل ہیں:
(۱)محدود ذہنیت کے ساتھ جدوجہد
دورِ زوال میں جتنی بھی فکری کاوشیں اور جدوجہد ہوئی اس کا زیادہ تر زور فقط اسلام کے سیاسی غلبہ کو بحال کرنے پر رہا۔ سیاسی غلبہ حاصل کرنے کے بعد کیا کرنا ہے اور معاشرے کو کس نہج پر تشکیل دینا ہے، مذہبی محدود ذہنیت اس کے ادراک سے محروم رہی۔ نتیجہ یہ نکلا کہ انقلاب سے مراد فقط اسلامی سزاؤں کا نفاذ اور عورت کو پردے میں ملبوس کیا جانا ہی لیا جاتا رہا۔ اسلام ایک کلیت کا حامل دین ہے لیکن ان مفکرین کے ہاں فقط چند اجزاء کو ہی کل اسلام سمجھ کر انھیں نافذ کرنے کی آرزو پنپتی رہی۔
(۲) سماج میں تبدیلی کی سائنس سے ناآشنائی
عصرِ حاضر میں سماجیات ایک سائنس کا درجہ اختیار کرچکی ہے۔ ہمارے مفکرین کی اکثریت اپنے اخلاص کے باوجود سماجی تبدیلی کی سائنس کویا تو کم اہمیت دیتی رہی یا اس سے بالکل ہی ناآشنا رہی۔
(۳)علم کا تخلیقی کی بجائے توجیہی رہنا
ہمارے مفکرین کا دائرہ علم زیادہ تر تفسیری و توجیہی رہا۔ نئے دور کے تقاضوں کے مطابق قرآن و حدیث کی بنیاد پر اجتہاد کرکے نیا علم تخلیق کرنے سے صرفِ نظر ہی جاری رہا۔ قرآن مجید کی پرانی تفسیریں، احادیث کی پرانی شروحات اور فقہ کی پرانی کتابوں کو نافذ کرنے کو ہی معراج سمجھ لیا گیا حالانکہ زمانہ نئے علم کی تخلیق کا تقاضا جابجا کررہا تھا اور کررہا ہے۔
(۴)نبوی سیاست کو سمجھنے میں غلطی
ہمارا مطالعۂ سیرت بھی زیادہ تر جذباتیت پر ہی مبنی رہا۔ سیرتِ طیبہ کو سائنسی نقطہ نظر سے پڑھنا مفقود ہی رہا۔ سیاست نبوی کے فقط چند مدنی پہلو ہی مدنظر رہے لیکن سیاستِ نبوی کس طرح قدم بہ قدم ایک مکمل سائنس کا درجہ رکھتی ہے، اسے سمجھا نہ جاسکا۔ اسی غلطی کا نتیجہ یہ ہوا کہ معاشی و سماجی تبدیلی کے لیے کوئی کام نہ ہوسکا اور سیاسی پہلو میں سے بھی صرف اسلامی سزاؤں کا نفاذ اور عورت کا پردہ و عفت ہی مطمع نظر رہا۔ سیرتِ طیبہ قدم بہ قدم جس تدریج کا درس دے رہی تھی، اس سے صرفِ نظر کرکے صرف چند امور کو جذباتی انداز میں سمجھا اور بیان کیا جاتا رہا۔
(۵)بین الاقوامیت کی غیر موجودگی
نئی سائنسی ایجادات کے بعد دنیا دن بہ دن گلوبلائز ہورہی تھی، جس کے نتیجے میں عالمی طاقتوں کے اثرات محسوس اور غیر محسوس طور پر ممالک و اقوام پر گہرے ہوتے جارہے تھے۔ اکثر تحریکات اس گلوبلائزیشن کے اثرات اوراس سے نمٹنے کے طریقوں سے ناآشنا رہیں۔ تبدیلی کی خواہاں یہ تحریکات زیادہ تر لوکالائز (Localize) ہی رہیں۔ لہذا سیاسی اقتدار کے بعد جب انہیں بین الاقوامی معاملات سے نمٹنا پڑا تو ان سے جابجا غلطیاں ہوئیں اور اپنے سماج کو مضبوط کرنے سے پہلے ہی غیر ضروری بین الاقوامی جھگڑوں کو مول لے کر خود کو کمزور کربیٹھیں۔
(۶)ریسرچ ورک کی عدم موجودگی
ہم یہ کہنے میں شاید حق بجانب ہیں کہ ماضی کی یہ تحریکات اور زمانہ حال میں موجود تحریکات میں سوائے تحریک منہاج القرآن کے کسی کے پاس بھی مصطفوی معاشرے کے قیام پر کوئی ریسرچ ورک موجود نہیں۔ غیر مسلم دنیا میں معاشرے کی سطح پر ایک بڑی تبدیلی پیدا کرنا ایک مکمل سائنس کا درجہ رکھتی ہے۔ کسی بھی معاشرے میں بنیادی سطح پر تبدیلی پیدا کرنے کے لیے غیر مسلم مفکرین کا انداز مکمل طور پر سائنسی ہے۔ انقلاب صرف جذبات کا استعمال کرکے سیاسی تبدیلی پیدا کرنے کا نام نہیں بلکہ ایک ریسرچ ورک ہے۔ ہر دیرپا انقلاب انقلابی فکر پر مبنی کسی کتاب یا کتب کی بنیاد پر برپا ہوا ہے۔ وہ سیاسی تبدیلیاں یا انقلاب جو تحقیق، علم اور گہری فکر پر مبنی نہ ہوں وہ جلد ہی اپنا اثر کھودیتے ہیں۔ خود اللہ تعالیٰ کا طریقہ مبارکہ بھی یہی رہا ہے کہ جب وہ کسی نبی کو انسانیت کے رہنما اور لیڈر کے طور پر مبعوث فرماتا ہے تو ساتھ اسے ایک کتاب بھی دیتا ہے۔ یہ کتاب اس نبی کا سیاسی، معاشی و سماجی ایجنڈا ہوتا ہے، یہی کتاب اس کا منشور ہوتا، اسی کتاب کی طرف وہ دعوت دیتا ہے، اس کتاب کے پروگرام کو اس نے نافذ کرنا ہوتا ہے۔ لہذا لیڈر کے ساتھ کتاب (Written document) کا ہونا ضروری ہوتا ہے پھر اس کتاب کی بنیاد پر ایک جماعت تشکیل پاتی ہے اور پھر وہی جماعت انقلاب برپا کرتی ہے۔ اس باب میں ہمارا المیہ یہ رہا کہ کسی بھی لیڈر نے اس موضوع پر بطور سائنس کام ہی نہیں کیا، نتیجتاً وہ مطلوبہ نتائج حاصل نہ کرسکا۔
۳۔ عصرِ حاضر کے چیلنجز اور شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری
امت مسلمہ اس وقت ہمہ گیر زوال کا شکار ہے۔ لہذا چیلنجز بھی ہمہ گیر ہیں۔ زندگی کے جس بھی شعبے کو لیں وہی چیلنجز سے گھرا ہوا ہے۔ جس سمت نگاہ اٹھائیں چیلنجز ہی چیلنجز ہیں۔ ہر چیلنج کے اندر اس کے ذیلی چیلنجز موجود ہیں۔ چیلنجز کی فہرست بنانا بجائے خود ایک محنت طلب کام ہے۔۔۔ پھر ان چیلنجز کو منطقی ترتیب دینا، اہم اور کم اہم چیلنجز کو مرتب کرنا بھی ایک چیلنج ہی ہے۔۔۔ اور پھر ان چیلنجز کو حل کرنے کے لیے پالیسی وضع کرنا انتہائی اہم فکرو فلسفہ پر مبنی علمی و تحقیقی کام ہے۔ عصر حاضر کے چیلنجزکو دو بڑے عنوانات کے تحت بیان کیا جاسکتا ہے۔
۱۔ اندرونی (داخلی چیلنجز) ۲۔ بیرونی (خارجی) چیلنجز
۱۔ اندرونی چیلنجز میں اہم ترین تعلق باللہ میں کمزوری، ربطِ رسالت میں کمی، قرآن مجید سے دوری، عقائد و معاملات میں افراط و تفریط، فرقہ واریت، لسانی و نسلی و علاقائی تعصبات، فتنہ وطن پرستی، زندگی کی بے مقصدیت، عدمِ برداشت، اخلاقی انحطاط، جزئیت پرست، دنیا پرستی، فکری جمود وغیرہ ہیں۔ قرآن و حدیث کی من مانی تاویلات و تعبیرات و تشریحات بھی ایک اہم چیلنج ہے۔
۲۔ بیرونی چیلنجز میں درج ذیل چیلنجز شامل ہیں:
(i) فکری و نظریاتی چیلنجز: اس میں الحاد (Atheism) اور سیکولرازم (Secularism)
کا فروغ، اسلامی اصولوں پر جدید فلسفوں اور نظریات کی تنقید وغیرہ شامل ہیں۔
(ii) تعلیمی و سائنسی چیلنجز:اس میں دینی و عصری علوم کے درمیان خلا، مسلمانوں کی علمی
پسماندگی اور سائنسی ترقی میں کمی، جدید سائنس و ٹیکنالوجی کے ساتھ دینی تعلیمات کی
تطبیق کا چیلنج، بے خبری کا بحران، عصری چیلنجز کا سامنا کرنے کے طریقے سے ناآشنائی
وغیرہ شامل ہیں۔
(iii) معاشرتی و ثقافتی چیلنجز:اس میں مغربی تہذیب کے اثرات اور ثقافتی یلغار، اسلام
کے خاندانی نظام پر حملے، نوجوان نسل کی دینی بے راہ روی وغیرہ شامل ہیں۔
(iv) سیاسی و اقتصادی چیلنجز:اس میں مسلم ممالک میں عدمِ استحکام، مغربی طاقتوں کی
مداخلت اور نوآبادیاتی ورثے کے اثرات، سودی معیشت کے مقابل اسلامی معیشت کے قیام میں
مشکلات وغیرہ شامل ہیں۔
(v) اسلامو فوبیا:اس میں مغربی دنیا کی اسلام کو دہشت گردی سے جوڑنے کی کوشش، مسلمانوں
کے خلاف تعصب اور منفی پروپیگنڈہ، پیغمبر اسلام اور قرآن مجید کی اہانت کی کوششیں
وغیرہ شامل ہیں۔
تاریخ کا مطالعہ اس امر کو واضح کرتا ہے کہ یہ کبھی نہیں ہوا کہ مفکر فکر دینے کے ساتھ ساتھ اپنی فکر کو عملی جامہ پہنانے کی سعی بھی خود ہی کررہا ہو، مفکر فکر دے کر چلا جاتا ہے اور اسے عملی جامہ کوئی اور پہناتا ہے۔ مثلاً: کارل مارکس Das Kapitall لکھ کر چلا گیا مگر اسے عملی جامہ لینن اسٹالن اور ماؤزے تنگ نے پہنایا۔۔۔ کیپٹلزم پر کتب ایڈم سمتھ اور ڈاڈ ریکارڈو نے لکھیں مگر عملی جامل مغربی سیاستدانوں نے پہنایا۔۔۔ فکر اقبال نے دی اور اسے منصہ شہود پر لانے کا کام محمد علی جناح نے سرانجام دیا۔ مگر شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری وہ واحد شخصیت ہیں کہ آپ نے ان چیلنجز پر نہ صرف فکری و نظریاتی کام کیا ہے بلکہ عملاً بھی بے مثال کام کیا ہے۔ اپنے نظریات و فکریات کو عملی جامہ پہنانے کے لیے وہ انتہائی جرأت اور حکمت کے ساتھ قدم بہ قدم اپنی طے کردہ منزل کی طرف بڑھتے چلے جارہے ہیں۔
شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی جمیع کتب اور خطابات سے یہ بات عیاں ہے کہ آپ نے عصرِ حاضر کے چیلنجز کا نہ صرف ادراک کیا بلکہ سائنسی انداز میں ان کی درجہ بندی، تدریج و ترتیب کے ذریعے اصل امراضِ امت کی تشخیص کی اور پھر ان امراض کا شافی و وافی علاج اور طریق علاج بھی دریافت کیا۔۔۔ آپ نے جذباتیت کی بجائے خالص عملیت کو مدنظر رکھ کر اسباب و نتائج کو بیان فرمایا۔۔۔ اسلامی فکر کو جذباتیت سے ہٹا کر خالص سائنسی بنیادوں پر استوار کیا۔۔۔ شیخ الاسلام نے اپنی کتب اور خطابات کے ذریعے چیلنجز کے عدمِ ادراک کو ادراک میں بدلا اور فکرو فلسفہ سے عاری اندھا دھند جدوجہد کو ایک واضح سمت عطا کی۔۔۔ وقتی ایشوز کو الگ اور مستقل چیلنجز کو الگ قرار دیا۔۔۔ علم کو توجیہات سے اٹھا کر تخلیقی علم کے شعور کو جلا بخشی۔۔۔ نبوی سیاست کو اس کی اصل روح کے ساتھ گہرائی میں جاکر سمجھا۔۔۔ گلوبلائزیشن کے اثرات کو سمجھ کر جدوجہد کی بین الاقوامیت کے تقاضوں کو اجاگر کیا۔ اِن تمام کی کاملاً تفہیم کے لیے شیخ الاسلام کی تصانیف میں سے بالخصوص ’’قرآنی فلسفۂ انقلاب‘‘ کا مطالعہ نہایت مفید ثابت ہوگا۔
(۱)اندرونی (داخلی) چیلنجز اور شیخ الاسلام
شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے عالم اسلام کو درپیش اندرونی چیلنجز کے لیے
نہ صرف فکرو فلسفہ پیش کیا بلکہ ان چیلنجز سے نمٹنے کے لیے باقاعدہ عملی جدوجہد کا
بھی آغاز کیا۔ ان کا کوئی کام بھی ریسرچ کے بغیر نہیں ہوتا بلکہ ہر ہر قدم پر گہرا
شعور کار فرما ہوتا ہے۔ ذیل میں چند مظاہر ملاحظہ ہوں:
۱۔ تعلق باللہ کی کمزوریوں کو دور کرنے کے لیے انھوں نے محافلِ ذکر و فکر، شب بیداریوں
کا سلسلہ بھی شروع کیا اور اس پر تحریری و تقریری علمی مواد بھی فراہم کیا۔
۲۔ ربط رسالت کی بحالی کے لیے گھر گھر میلاد النبی ﷺ کی محافل، عالمی میلاد کانفرنس،
گوشہ درود، حلقات درود و فکر عملی طور پر قائم کیے اور اس سلسلہ میں تحریر و تقریرکا
ایسا حق ادا کیا کہ تحریک منہاج القرآن فروغِ عشق رسول ﷺ کا پوری دنیا میں استعارہ
بن گئی۔
۳۔ امت کی قرآن مجید سے دوری کو رجوع الی القرآن سے بدلنے کے لیے نہ صرف علمی، تفسیری
اور تقریری کام کیا بلکہ شہر شہر، قصبہ قصبہ دروس ِ قرآن کا تحریک کی نظامت دعوت کے
تحت ایک جال بچھادیا۔
۴۔ قرآن و حدیث کی من مانی تاویلات، تعبیرات اور تشریحات کرکے وحدتِ امت کا شیرازہ
جس طرح بکھیرا جارہا تھا، اس کے آگے بے مثال علمی و تحریری کام کرکے بند باندھ دیا۔
انسائیکلو پیڈیا آف قرآن، انسائیکلوپیڈیا آف حدیث، ڈھائی سو سے زیادہ علوم الحدیث
پر کتب، دروس حدیث، ختم بخاری کے ذریعے امت کی شیرازہ بندی اور قرآن و حدیث کی صحیح
رہنمائی کا شاندار فریضہ سرانجام دیا۔
۵۔ امت کے اخلاقی انحطاط کو دور کرنے کے لیے تعلیماتِ تصوف کے فروغ کو لازمی قرار دیا۔
انھوں نے اپنی ابتدائی کتب میں لکھا کہ صرف عقلی غذا دینے سے انسانی طبیعت کو مثالی
شخصیت میں نہیں بدلا جاسکتا بلکہ اس کے لیے قلبی غذا کی بھی ضرورت ہے کہ اصل فساد تو
قلوب میں واقع ہوگیا ہے۔ پھر انھوں نے فسادِ قلب پر تفصیلی گفتگو کی اور بتایا کہ فسادِ
قلب کو صرف تین طریقوں صحبتِ صالحہ، عشقِ رسول ﷺ اور کثرتِ ذکرِ الہٰی سے دور کیا جاسکتا
ہے اور یہ سارا راستہ تصوف کا راستہ ہے۔ انھوں نے اسلاف کی اصل تعلیماتِ تصوف کو اجاگر
کیا اور رسمی تصوف کی رسوم و رواج پر کھل کر تنقید کی۔
۶۔ فرقوں اور مسالک میں بٹی امتِ مسلمہ کو اتحادِ امت کا نہ صرف درس دیا بلکہ درد مندی
کے ساتھ اس پر عملی کام بھی کر دکھایا۔ آج منہاج القرآن کے پلیٹ فارم پر تمام مسالک
کے علماء و مشائخ و قائدین کا گلدستہ اکٹھا ہوتا ہے۔ انھوں نے عدمِ برداشت کے ماحول
میں برداشت کے جذبوں کی تعلیم دی۔
۷۔ شیخ الاسلام نے لسانی، علاقائی، نسلی تعصبات اور فتنہ وطن پرستی و قوم پرستی کی
نہ صرف سائنسی وجوہات بیان کیں بلکہ ان کو دور کرنے کے لیے ضروری اقدامات بھی تجویز
کیے۔ یہ تعصبات کیسے اور کیوں ابھرے، امتِ مسلمہ کا شیرازہ کیوں اور کیسے بکھرا، ہر
ایک کی وجوہات کو بیان کیا۔
۸۔ امتِ مسلمہ کی اکثریت جس بے مقصدیت کا شکار تھی، اسے غلبہ دین حق کی بحالی کے عظیم
مقصد کی طرف رہنمائی کی اور اس مقصد کے لیے ایک عظیم تحریک بپا کی جس کا اولین ہدف
پاکستان میں مصطفوی معاشرے کا قیام عمل میں لانا ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ صرف اندرونی
و داخلی چیلنجز سے نمٹنے کے لیے شیخ الاسلام کی خدمات کا ہی جائزہ لیا جائے تو دفتر
کے دفتر درکار ہوں گے۔ بنظرِ غائر جائزہ لیا جائے تو ان کی ذات ایک امت کا کام کرتی
نظر آتی ہے۔
(۲) بیرونی (خارجی) چیلنجز اور شیخ الاسلام
امتِ مسلمہ کو درپیش بیرونی و خارجی چیلنجز کی جتنی طویل فہرست ہے، اسی طرح ہر ہر چیلنج کے مقابل شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی خدمات کی بھی ایک طویل فہرست ہے۔ انسان حیران رہ جاتا ہے کہ ہر ہر چیلنج کے مقابل شیخ الاسلام کھڑے نظر آتے ہیں۔ اس حوالے سے چیلنجز کا مقابلہ کرنے کے لیے شیخ الاسلام کے چند اقدامات ملاحظہ ہوں:
(i) فکری و نظریاتی چیلنجز
فکری و نظریاتی چیلنجز کے باب میں فتنہ الحاد (Atheism) کو لیں تو اس کے مقابل وہ ’’خدا کو کیوں مانیں اور مذہب کو کیوں اپنائیں؟‘‘ کے لیکچرز کے ساتھ منفرد نظر آتے ہیں۔ اسلامی اصولوں پر جدید نظریات اور فلسفوں کی تنقید کا وہ تقریباً اپنی ہر کتاب میں اور ہر خطاب میں جواب دیتے نظر آتے ہیں۔ سیکولرازم (Secularism) کے مثبت تصورات کو قبول بھی کرتے ہیں اور اس کے منفی تصورات کا رد بھی کرتے ہیں۔ جدیدیت (Modernity) اور انفرادیت پسندی (Individualism) کا قرآن و سنت کی روشنی میں جائزہ لے کر خالص قرآنی سائنسی انداز میں اس کے رد و قبول کا فیصلہ کرتے ہیں۔ ان کے ہاں اجتہاد ایک زندہ قوت ہے۔ وہ لفظی فتوؤں سے زیادہ عملی فتویٰ دیتے ہیں اور قدیم و جدید کے حسین امتزاج سے ہر حوالے سے ایک نئے طریقے کی بنیاد رکھتے ہیں۔
(ii) تعلیمی و سائنسی چیلنجز
امتِ مسلمہ کو جو تعلیمی و سائنسی چیلنجز درپیش ہیں۔ ان کے بھی ہر ذیلی چیلنج پر شیخ الاسلام محاذ آرا نظر آتے ہیں۔ دینی و عصری علوم کے درمیان خلا کو پُر کرنے میں جس قدر کام شیخ الاسلام نے کیا ہے، کوئی دوسرا اس کا عشرِ عشیر بھی سامنے نہیں لاسکتا۔ انھوں نے منہاج القرآن کی بنیاد رکھتے ہی دینی و عصری علوم کو یکجا کرکے ایک نئی طرح ڈالی اور اب تو منہاج یونیورسٹی کی شکل میں اس کی روشنی سے ایک عالم منور ہورہا ہے۔ انھوں نے فتوؤں کو بوچھاڑ میں بھی جدید ٹیکنالوجی کو ہر طرح سے استعمال کرنے کا اجتہاد کیا اور جب لوگ تصویر کو حرام اور TV، VCR کو گند قرار دیتے تھے، تب بھی جرأت رندانہ سے اس کا استعمال کیا۔ بالآخر شیخ الاسلام کی ہمنوائی ہی سے سب کو کام چلانا پڑا۔ انھوں نے بے خبری کے بحران میں صحیح خبر سے سماعتوں کو آشنا کیا اور عصری چیلنجز کا سامنا کرنے کے طریقے سے امت کی ناآشنائی کو فکر صحیح سے آشنا کرکے ایک واضح اور روشن راستہ کی طرف رہنمائی کی۔
(iii) معاشرتی و ثقافتی چیلنجز
امت کو درپیش معاشرتی و ثقافتی چیلنجز کا بھی کوئی محاذ ایسا نہیں جس پر شیخ الاسلام کھڑے نظر نہ آئیں۔ وہ اپنی عظیم تصنیف قرآنی فلسفہ انقلاب میں امت مسلمہ پر مادیت، اشراقیت، متنبیت اور معرضیت کے حملوں کی سائنسی درجہ بندی کرتے ہیں اور پھر ان چیلنجز سے نبرد آزما ہونے کے طریقے کار کی طرف رہنمائی کرتے ہیں۔ وہ مغربی تہذیب کے اثرات، اسلامی خاندانی نظام پر مغربی اعتراضات اور نوجوان نسل کی بے راہ روی کا عمیق نظری سے جائزہ لیتے ہیں اور اس کے تدارک کی غیر جذباتی اجتہاد کے ذریعے تدبیر بھی بتاتے ہیں، رہنمائی بھی کرتے ہیں اور خود عملاً بھی اس کا نمونہ پیش کرتے ہیں۔
(iv)سیاسی و اقتصادی چیلنجز
یہ چیلنجز نہ صرف امت مسلمہ بلکہ اس وقت بین الاقوامی سطح تک ہر ملک و قوم کو درپیش ہیں۔ امت مسلمہ کے سیاسی چیلنجز میں مسلم ممالک میں سیاسی عدم استحکام، مغربی طاقتوں کی مداخلت اور نو آبادیاتی (Colminal) ورثے کے اثرات، وطن پرستی اور قوم پرستی کے اثرات شامل ہیں یعنی سیاست و سماج دونوں ہی کو چیلنجز کا سامنا ہے۔ شیخ الاسلام سیاسی و سماجی انقلاب سے پہلے ذہنی و فکری انقلاب کا فلسفہ پیش کرتے ہیں۔ قرآنی فلسفہ انقلاب میں پہلے وہ فکری سطح پر وقوع پذیر ہونے والے تغیرات کا سائنسی تجزیہ پیش کرتے ہیں پھر علمی سطح پر سیاسی فکر میں برپا ہوجانے والے تغیرات بیان کرتے ہیں۔ اس کے بعد عملی سطح پر سیاسی فکر میں تغیرات کا تجزیہ کرتے ہوئے سیاسی و سماجی انقلاب سے پہلے ذہنی و فکری انقلاب کو لازمی قرار دیتے ہیں۔ اس تناظر میں جب ہم شیخ الاسلام کی سیاسی جدوجہد کا جائزہ لیتے ہیں تو وہ سوفیصد اپنے نظریات کے مطابق سیاست کرتے نظر آتے ہیں۔ وہ روایتی سیاست کی بجائے انقلابی سیاست کرتے ہیں۔ ان کی سیاست کا سارے کا سارا محور بھی ذہنی و فکری شعور پیدا کرنے کے اردگرد رہا ہے۔ انھوں نے سیاست کو بھی عوامی شعور کی بیداری کے لیے استعمال کیا ہے۔
(v) معاشی چیلنجز
معاشی چیلنجز نے عالم اسلام سمیت تمام دنیا کو اپنے گھیرے میں لیا ہوا ہے۔ دنیا
کے 150 سے زائد ممالک میں جن میں عالمِ اسلام کے ممالک بھی شامل ہیں، ان پر سرمایہ
داری (Capitalism) نے پنجے گاڑے ہوئے ہیں۔ سودی نظام معیشت نے انسانیت کو ذلت و خواری
کا شکار کردیا ہے۔ سوشلزم و کمیونزم کچھ عرصہ سرمایہ داریت کا مقابلہ کرنے کے بعد اپنی
موت آپ مرچکے ہیں۔ دونوں فلسفے ہی انسانی دکھوں کا مداوا کرنے سے قاصر رہے ہیں۔ برطانیہ
کے کنگ چارلس نے آکسفورڈ یونیورسٹی کے سنٹر فار اسلامک اسٹڈیز میں لیکچرز کے دوران
کہا تھا کہ دنیا کا موجودہ سسٹم ناکارہ ہوگیا ہے جوکہ بیساکھیوں کے سہارے چل رہا ہے۔
لہذا ہمیں اس کا متبادل تلاش کرنا ہوگا۔ میں اس کے لیے اہل دانش کو ایک مشورہ دوں گا
کہ وہ متبادل کے طور پر اسلام کو اسٹڈی کریں اور اسلام کو ماضی کے لحاظ سے نہیں بلکہ
موجودہ سسٹم کی ناکامی کے تصور کے ساتھ متبادل کے طور پر اسٹڈی کریں۔ اسلام کو اسٹڈی
کرنے کے لیے تین باتوں کو ذہن میں رکھیں:
۱۔ ہمارے بڑوں نے ہمیں اسلام کے متعلق جو بتا رکھا ہے اسے بھول کر اسٹڈی کریں۔
۲۔ اس وقت مسلمان جیسے نظر آرہے ہیں، اسے بھی نظر انداز کردیں۔
۳۔ اسلام کو اوریجنل سورسز سے اسٹڈی کریں۔
اگر آپ یہ تین باتیں سامنے رکھ کر اسلام کو اسٹڈی کریں گے تو میرا وجدان کہتا ہے کہ
مستقبل کے لیے ہمارے پاس اسلام کے علاوہ کوئی متبادل نظام نہیں۔
کنگ چارلس کے یہ الفاظ اسلام کو اوریجنل سورسز سے اسٹڈی کرنے کی اہمیت کو اجاگر کررہے ہیں۔ شیخ الاسلام کی یہی انفرادیت ہے کہ انھوں نے اسلام کو اوریجنل سورسز سے اسٹڈی کرکے اس پر پڑی زمانے کی گرد ہٹا کر اسے بالکل اوریجنل شکل میں پیش کردیا ہے۔ اسی کو تو ہی تجدید کہتے ہیں۔
شیخ الاسلام نے مارکسزم، سوشلزم اور سرمایہ داری اور عصر حاضر کی اسلامی فقہی معاشی ابحاث سے جدا ہوکر اسلام کا اصل معاشی انقلابی نظریہ اقتصادیات اسلام (تشکیل جدید) کی صورت میں دیا ہے۔ نظامِ معیشت ملکیت کی بحث سے شروع ہوتا ہے۔ شیخ الاسلام نے قرآن و سنت کی روشنی میں مال کی تعریف کرتے ہوئے ملکیت مال (Possessiveness of goods) اور منفعتِ مال (Profitablity of goods) کو الگ الگ کرکے ایک انقلابی نظریہ پیش کیا ہے جو سرمایہ داری کی چیرہ دستیوں کا بھی حل ہے اور کمیونزم کی محدودیت کا بھی حل ہے۔ انھوں نے ملکیت مال کے حقوق کو بھی مشروط کیا ہے کہ مال اور اشیاء تب تک ہی کسی ملکیت میں رہ سکتی ہیں جب تک ان سے منفعت بنی نوع انسان کو پہنچتی رہے۔ اشیاء و اموال پر ذاتی قبضہ ہوسکتا ہے لیکن ان کا منافع صرف ملکیت والے تک محدود نہیں ہے بلکہ منفعت میں بنی نوعِ انسان مشترکہ طور پر شریک ہے۔ یہی وہ معاشی فکر ہے جو نہ صرف عالمِ اسلام کی کایا پلٹ سکتی ہے بلکہ تمام انسانیت کے معاشی دکھوں کا مداوا بھی ہے۔
(vi) اسلاموفوبیا کا چیلنج
اسلاموفوبیا جس کے تحت مغربی دنیا نے اسلام کو دہشت گردی سے جوڑنے کی کوشش کی ہے۔ مسلمانوں کے خلاف تعصب اور منفی پروپیگنڈہ کیا گیا ہے اور قرآن مجید و پیغمبر اسلام کی بار بار توہین کی کوشش کی گئی ہے۔ اس فتنے کے سامنے بھی سب سے منفرد اور جاندار کردار شیخ الاسلام نے ادا کیا ہے۔۔۔ آپ کا دہشت گردی کے خلاف فتوی جس نے دنیا کے اسلام کے متعلق غلط فکری اشکالات کو دور کیا، ایک شاہکار ہے۔۔۔ سیرت نبوی ﷺ کا اصل خاکہ پیش کرکے آپ نے ذاتِ نبوت سے متعلق فکرِ مغرب کے اوہامات کا ازالہ کیا۔۔۔ اہانت کے معاملات پر جذباتیت کی بجائے خالص فکری و نظریاتی اور قانونی سطح پر جنگ لڑ کر ڈنمارک میں اہانت رسول اور قرآن مجید کی بے ادبی کو قانوناً جرم ڈیکلیئر کروایا۔ اس محاذ پر بھی آپ ہر جگہ نظریاتی دفاع کرتے نظر آئے۔
شیخ الاسلام کی انفرادیت صرف یہ نہیں کہ چیلنجز کو سمجھتے بھی ہیں، ان کے دفاع کی مؤثر پلاننگ بھی کرتے ہیں بلکہ وہ ہر چیلنج سے نمٹنے کی سائنسی حکمت عملی بھی ترتیب دیتے ہیں۔ وہ توپ سے چڑیا کا شکار نہیں کرتے بلکہ جہاں علمی جدوجہد کی ضرورت ہو وہاں علمی انداز اپناتے ہیں۔۔۔ جہاں قانونی معاملات ہوں وہاں قانونی جنگ لڑتے ہیں۔۔۔ جہاں فلسفیانہ موشگافیاں ذہن پراگندہ کررہی ہوں وہاں فلسفہ کی زبان میں جواب دیتے ہیں۔۔۔ اور جہاں جذبات کی ضرورت ہو، وہاں جذبات بھی ابھار دیتے ہیں۔ ان کا انداز مکمل حکیمانہ اور سائنٹیفک ہوتا ہے۔
خلاصۂ کلام
عصر حاضر کے چیلنجز کے بالمقابل شیخ الاسلام کی ذات کو دیکھیں تو انھیں حضرت ابراہیمe کا وہ فیض ملا ہوا نظر آتا ہے جس کے متعلق اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
اِنَّ اِبْرٰھِیْمَ کَانَ اُمَّۃً قَانِتًا لِّلّٰہِ
حَنِیْفًا وَلَمْ یَکُ مِنَ الْمُشْرِکِیْنَ۔ (النحل: ۱۲۰)
’’بے شک ابراہیم (e تنہا ذات میں) ایک اُمت تھے، اللہ کے بڑے فرمانبردار تھے، ہر باطل
سے کنارہ کش (صرف اسی کی طرف یکسو) تھے، اور مشرکوں میں سے نہ تھے۔ ‘‘
احادیث مبارکہ سے بھی یہ بات ثابت ہے کہ عام انسانوں میں سے بھی ایسے لوگ ہوتے ہیں جو تنہا ایک امت کا کام کرجاتے ہیں۔ عصرِ حاضر کے چیلنجز کے حوالہ سے لیے گئے مذکورہ جائزے کی روشنی میں ہم یہ کہنے میں حق بجانب ہیں کہ بلاشبہ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے جس علم و حکمت، جرأت و بہادری، ترتیب و تدریج اور عزمِ مصمم کے ساتھ ہر ہر چیلنج کا مقابلہ کیا ہے، وہ تنہا ایک امت کی حیثیت اختیار کرگئے ہیں اور ان شاء اللہ قیامت کے دن ایک امت کے طور پر اٹھائے جائیں گے۔