شیخ الاسلام کی علم الحدیث میں خدمات

ڈاکٹر علی وقار قادری

شیخ الاسلام کی علم الحدیث میں خدمات

اسلام اللہ تعالیٰ کا آخری پیغام اور آخری دین ہے جو قیامت تک کے تمام انسانوں کے لئے دستورکی حیثیت رکھتا ہے۔ اس کے بعد نہ کوئی دین آنے والا ہے اور نہ کوئی شریعت، کیوں کہ نبوت ختم ہو چکی ہے۔ اب خاتم الانبیاء ﷺ کا دین ہی قدرتی طور پر خاتم الادیان، ان کی شریعت خاتم الشرائع اور اس شریعت کی کتاب خاتم الکتب ہے۔ اس لئے ضروری ہےکہ اس دین کی ہیئت اصلیہ مع اپنی تمام تر اساس کے قیامت تک باقی اور محفوظ رہے۔ اگر دین اپنے اصلی مآخذکے ساتھ باقی نہ رہے، نئی شریعت کے آنے کا امکان بھی مفقود ہو اور باطل ہرروز نیا روپ دھارے سر اٹھائےتو دنیا میں باطل ہی رہ جائے گا اور ایساہونا منشائے خداوندی کے خلاف ہے۔ سو ختم نبوت کے بعد احقاقِ حق کی صرف ایک ہی صورت ہے کہ اسلام کی اساس بغیر کسی زلل و خلل کے محفوظ رہے۔

ایسی غیر معمولی حفاظت انسان کے بس کی بات نہ تھی۔ کیونکہ انسانی فکر تغیر ات کا منبع ہے۔ انسان کا دل و دماغ، ذہنی رفتار، قلبی کیفیات، طبعی رجحانات و میلانات ہمیشہ ایک حال پر قائم نہیں رہتے۔ ا س حوالے سے ہنری برگسان کا تصورِ زمان پیش نظر رہے تو بات آسان ہو جاتی ہے۔ برگسان کہتا ہے کہ انسان ایک ’’دوران‘‘ میں حرکت پذیر ہے اور ’’دوران‘‘ ہمیشہ تغیر پذیر ہے۔ ہم کسی بھی لمحے ایک حالت پر قائم نہیں رہتے بلکہ ہمہ وقت تغیر کا شکار ہیں، مگر چونکہ ہم اپنی حالت فکری وحالت باطنی پر گہرے غور فکر کے عادی نہیں، اس وجہ سے ہمیں اس پہلو کا کامل شعور نہیں رہتا۔

اسی متغیر فطرت کے منفی تقاضوں نے ماقبل کتب تورات و انجیل کی حقیقی تعلیمات کو مسخ کر دیا اور صحف آدمؑ و ابراھیمؑ کو ناپید کر دیا۔ اگر قرآن مجید اور شریعت محمدی ﷺ کی حفاظت بھی انسانوں کے مرہون منت ہوتی تو کچھ بعید نہ تھی کہ اس کے ساتھ بھی یہی معاملہ ہوتا۔ پس اس کی حفاظت کا معاملہ اللہ تعالیٰ نے اپنے ذمۂ کرم پر لیا اور یوں ختم نبوت کا دائمی فیض اس حفاظتِ الہٰی کی وجہ سے قیامت تک میسر آنے کی ضمانت فراہم ہوئی۔ قرآن مجید نے اس حفاظت کا بیان یوں فرمایا: اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ وَاِنَّا لَہٗ لَحٰفِظُوْنَ۔ (الحجر، ۱۵: ۹)

’’ بے شک یہ ذکرِ عظیم (قرآن) ہم نے ہی اتارا ہے اور یقینا ہم ہی اس کی حفاظت کریں گے۔‘‘

غور کیا جائے تو اس حفاظت کی دو صورتیں سمجھ آتی ہیں:

۱۔ ان متون کی حفاظت جو اساس دین ہیں۔ (یعنی قرآن مجید اور احادیث/سنت)

۲۔ متون کے ان معانی ومفاہیم کی حفاظت جو متابعت نبی ﷺ میں کئے گئے اور ان کوحضور ﷺ کی تائید حاصل ہوئی۔

یہی دو پہلو مل کر دین کی ہیئتِ اصلیہ ترتیب دیتی ہیں اور انہی کی رعایت سے ہیئتِ کذائیہ تشکیل پاتی ہے جو زمانی تغیر کو بنیادی اساس قائم رکھتے ہوئےقبول کرتی ہے۔

ہمارے ہاں عام طور پر یہ تصور ہے کہ دین کی حفاظت سے مرادصرف متون کی حفاظت ہےمگر غور طلب بات یہ ہے کہ اگر ان متون کی وہ تعبیرات جو صراط السوی ہیں اور امت کے بڑے حصے نے گہرے اور طویل غورو فکر کے بعد ان کو بطورِ عقیدہ قبول کر لیا ہے اور ان پر اتفاق ہے، اگر یہ باقی نہ رہیں، دین باطل تعبیرات کا شکار ہو جائے، کوئی کسوٹی باقی نہ رہے جس پر ان تعبیرات کو پرکھا جاسکے تو کیا مطلق متون کی حفاظت کوکاملاً حفاظتِ دین قراردیا جاسکتا ہے؟ہر اہل علم اس جواب سے بخوبی آگاہ ہے۔

یہ تصور صحیح بخاری کی ایک حدیث سے مزید پختہ ہوتا ہے جس میں حضور نبی اکرم ﷺ نے دین کے عمل کا بیان فرمایا:

إِنَّ اللَّهَ لَا يَنْتَزِعُ الْعِلْمَ مِنَ النَّاسِ انْتِزَاعًا، وَلَكِنْ يَقْبِضُ الْعُلَمَاءَ، فَيَرْفَعُ الْعِلْمَ مَعَهُمْ وَيُبْقِي فِي النَّاسِ رُءُوسًا جُهَّالًا يُفْتُونَهُمْ بِغَيْرِ عِلْمٍ، فَيَضِلُّونَ وَيُضِلُّونَ۔

اللہ تعالیٰ علم کو لوگوں سے یک لخت چھین نہیں لے گا بلکہ وہ علماء کو اٹھا لے گا اور ان کے ساتھ علم کو بھی اٹھا لے گا۔ لوگوں میں جاہل سربراہوں کو باقی چھوڑ دے گا جو علم کے بغیر لوگوں کو فتوے دیں گے۔ اس طرح خود بھی گمراہ ہوں گے اور (لوگوں کو بھی) گمراہ کریں گے۔ (صحیح مسلم، الرقم: ۶۷۹۹)

اس حدیث میں علمِ حقیقی، جس کے بعد جہالت رہ جاتی ہے، اس کو متون کی موجود گی کے ساتھ نہیں بلکہ متون کے ساتھ ان کی اس معتمد اور قابلِ قبول تعبیرات جو بڑے علماء کرام نے کی ہیں، ان سے وابستہ کیا جارہا ہے۔

پس ثابت ہوا کہ قرآن و سنت کے الفاظ ہر دور میں موجود رہیں گے مگر ان کا ایسا فہم جو متابعتِ رسول ﷺ کی رعایت کے ساتھ ہو علمائے صالحین کے وجود کا مرہونِ منت ہے۔

صالحینِ امت اور ائمہ محدثین کا یہ کردار ہی ہر دور میں اسلام کی حقیقی ترجمانی اور ہر آئندہ مسئلہ پر حقیقی رہنمائی کا ضامن ہے۔ علمِ دین کا کوئی بھی میدان ہو، ائمہ امت اور صالحینِ امت کی بدولت ہی ہر دور میں دین کی نئی ہیئتِ کذائیہ قائم ہوتی ہے جو ہر نئے آنے والے فتنوں سے نبرد آزما ہونے کے لیے کافی ہوتی ہے۔

علم الحدیث کے حوالے سے شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی کاوشوں کا جائزہ

اسلامی تعلیمات کا دوسرا بڑا ماخذ احادیث و سنن رسول ﷺ ہیں۔ قرآن حکیم کی متعدد آیات؛ حدیث و سنت کی اہمیت اور حجیت کو بیان کرتی ہیں۔ علم حدیث کے حوالے سے علمائے امت کی شعوری کاوشوں کی فہرست بنائیں تو یہ بہت طویل ہے۔ سب سے پہلے حدیث کے جمع کے اہتمام کے لیے ایک ایک حدیث کے لیے ہزاروں میلوں کا سفر۔۔۔ پھر ان احادیث کے حفظ و ضبط کے لیے سالہاسال کی محنت و ریاضت۔۔۔ اس کے بعد حدیث کو سینہ بہ سینہ انتقال سے صفحہ قرطاس پر منتقل کرنا۔۔۔ پھر انتقال شدہ احادیث کی موضوعاتی، رواۃ اور فقہی ضروریات کے مطابق درجہ بندی۔۔۔ احادیث سے احکام کے اخذو استنباط کے اصول۔۔۔ تراجم الابواب کا آغاز۔۔۔ رواۃ کی جانچ پڑتال؛ جس نے علم جرح تعدیل کو جنم دیا۔۔۔ تیارشدہ ذخیرہ احادیث کی چھان پھٹک۔۔۔ فنِ علوم الحدیث کی تدوین و اصطلاحات کو وضع کرنا۔۔۔ متفقہ طور پر طے شدہ اصطلاحات کی رعائت رکھتے ہوئے نئے نسخوں کی تیاری۔۔۔ اورفنِ علوم الحدیث میں ارتقاء، وہ امور ہیں جنھیں علم الحدیث کے آغاز سے آج تک کے سفر کے مراحل کا اختصار سے بیا ن کہا جا سکتا ہے۔

حجۃ المحدثین شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری نے علم الحدیث کے مذکورہ شعبہ جات میں سے کئی میں خدمات انجام دیں مگر اس میں خاص امتیازی پہلو جو کہیں اور کم ہی دیکھنے کو ملتا ہے، وہ علم الحدیث کی عصر ی تقاضوں کی رعائت رکھتے ہوئے کی گئی تشریح ہے۔ یہ حصہ درج ذیل پہلوؤں پر مشتمل ہے:

(۱) تفردِ استنباطی

اس تشریح سے مراد احادیث مبارکہ سے براہِ راست عصری ضرورتوں کے پیش نظر ایسا استنباط ہے جو اس سے قبل سامنے نہیں آیا۔ اگرچہ بعض جگہوں پر اس میں قیاس کا ایک پہلو موجود تھایعنی انہی روایات سے ماقبل ائمہ نے پیش آمدہ صورتحال سے استنباط کیا تھا مگر ظاہر ہے آج کی ضرورت من وعن اس دور میں درپیش ہی نہ تھی۔ یوں ان عصری مسائل کے حل کے لیے احادیث سے استنباط حجۃ المحدثین شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری کا ایک تفرد ہے۔ اس کو تفرد استنباطی کہہ سکتے ہیں۔

(۲)تفردِ اجتہادی

عصری مسائل کے حوالے سے براہ راست احادیث سے استنباط کر کے رہنمائی فراہم کرنا تفردِ اجتہادی کہلاتا ہے۔ اس حوالے سے حجۃ المحدثین شیخ الاسلام کا استنباط درجہ اجتہاد میں تھا۔ اس لیے کہ ماقبل ائمہ نے ان احادیث سے وہ نکات و امور اخذ نہیں فرمائے تھے جو آپ نے فرمائے۔

(۳)تفردِ توضیحی

احادیث کی عصری تقاضوں کے مطابق تشریح کا ایک اور منفرد پہلو یہ ہے کہ ماقبل ائمہ میں سے کسی امام، مثلاً امام ابن حجرؒ نے کسی حدیث کی شرح میں کوئی نکتہ اٹھایا اور اس کا اطلاقی پہلو صراحت سے بیان نہ کیا یا اس دور میں اس کی اِس طور پر صراحت ممکن ہی نہ تھی کیوں کہ جو مسئلہ جس شکل میں آج ہے اُس دور میں نہیں تھا۔ شیخ الاسلام نے ان ائمہ کی اس تشریح کو اپنی کتب میں بیان کر کے اس کے متعلقہ اطلاقی و انطباقی پہلوؤں کو شاندار طریقے سے واضح کیا۔ حجۃ المحدثین شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری کے اس تفرد کو تفردِ توضیحی کہہ سکتے ہیں۔

شیخ الاسلام نے مذکورہ امور کن کن صورتوں میں انجام دیئے، اس حوالے سے چند مثالیں درج ذیل ہیں:

۱۔ احادیث پر نئے تراجم الابواب قائم کرنا

عام آدمی کے فہم اور آسانی کے لیے حضور نبی اکرم ﷺ کے فرامین و ارشادات کو محدثین نے مختلف کتابوں اور ابواب میں تقسیم کرکے منظم کیا ہے تاکہ کوئی بھی شخص کتاب اور باب کے عنوان کے ذریعے بآسانی متعلقہ حدیث تک پہنچ سکے۔ حدیث کی اصطلاح میں کتبِ حدیث کے ابواب کو ’’ترجمۃ الباب‘‘ کا نام دیا جاتا ہے۔

امام بخاری کے احادیث رسول ﷺ سے استدلال و استنباط کے منہج و اسلوب کو بڑی قوت اور مضبوط دلیل کے ساتھ عصرِ حاضر میں شیخ الاسلام نے زندہ کیا ہے۔ آپ نے امام بخاری کے تراجم الابواب کے جامع ترین اسلوب کو اختیارکیا ہے اور اس سے اخذ کرتے ہوئے تراجم الابواب کو دورِ حاضر کی ضروریات کے ساتھ جوڑا ہے اور احادیث کے اطلاقی اور عملی پہلوؤں کو اپنے اعلیٰ ترین طریقِ استنباط و استدلال کے ذریعے خوب نمایاں کیا ہے۔

شیخ الاسلام کی مرتب کردہ جمیع کتب احادیث میں قائم کردہ تراجم الابواب ہمیں عصرِ حاضر میں بڑی مضبوطی اور پختگی کے ساتھ علمِ حدیث کے ساتھ جوڑتے ہیں اور شریعتِ اسلامی کے عقائد و اعمال بڑی عمدگی اور بڑی واضحیت کے ساتھ نکھر کر ہمارے سامنے آجاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ عصرِ حاضر کے محققین اور محدثین اس امر کا برملا اعتراف کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔

اس حوالے سے اس موقع پر شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی متعدد کتب میں سے صرف المنہاج السوی کے مقام و مرتبہ کو بیان کرتے ہوئے اس میں قائم کیے گئے تراجم الابواب کو درج ذیل سطور میں بیان کیا جارہا ہے:

شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی تالیفات میں سے ایک نمایاں نام المنہاج السوی کا ہے اس کتاب کا تعلق کتب منتخبات الحدیث سے ہے۔ صحیح بخاری و صحیح مسلم سمیت صحاح ستہ اور دیگر کتب احادیث سے مجموعہ ہائے احادیث منتخب کیے گئے۔ ان مجموعہ ہائے احادیث میں سے امام منذری کی ’’الترغیب والترہیب‘‘ اور امام یحیی بن شرف النووی کی ’’ریا ض الصالحین‘‘ نے بہت شہرت حاصل کی۔ المنہاج السوی بھی منتخبات الحدیث کے سلسلے کا ایک منفرد اسلوب، ایک جامع منہج اور ایک مصدقہ تخریج کے قالب میں اپنی نوعیت کا ایک بے مثال، معتبر اور مستند کام ہے۔ شیخ الاسلام کے مرتب کردہ اس مجموعہ حدیث کے بعض تراجم الابواب کا اجمالی جائزہ نذرِ قارئین ہے:

(۱) آج جب دہشت گردی کی عالمی جنگ نے بری طرح مسلمانوں اور مسلمان ممالک کو نقصان پہنچایا ہے اور ساری دنیا میں کردار دیکھے بغیر صرف اسلام سے وابستگی کی بنا پر مسلم و مومن کا تعارف دہشت گرد کا ہوگیا تھا اور ساری دنیا نے اسلام اور مسلمانوں کو حقارت اور عداوت سے دیکھنا شروع کردیا تھا تو شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے احادیث کے تراجم الابواب کے ذریعے مضبوط استدلال اور ثقہ استنباط کے ذریعے ثابت کیا کہ اسلام تو امنِ عالم کا داعی اور محافظ ہے۔ مسلمان اور مومن تو اپنے کردار میں سراپا خیر ہی خیر ہے۔ شیخ الاسلام نے اس تناظر میں احادیث کے درج ذیل تراجم الابواب قائم کرکے ساری دنیا میں اسلام اور مسلمانوں کا بہت بڑا دفاع کیا:

(i) آج کے معاشرے میں ایک حقیقی مومن اور اس کی پہچان کی علامات کو ’’فصل فی علامات المومن و اوصافہ‘‘ کے ترجمۃ الباب کے ذریعے بیان کیا۔ اس طرح اس ترجمۃ الباب نے ایک مومن سے دہشت گردی کا تصور سرے سے ختم کرکے رکھ دیا ہے۔

(ii) اسلام کے چہرے کو جس دہشت گردی کے تصور کے ساتھ داغدار کیا گیا تھا، اس کا بھی دفاع کرتے ہوئے شیخ الاسلام نے اسلام کی حقیقت کو ’’فصل فی الاسلام‘‘ کے عنوان سے ترجمۃ الباب قائم کرکے واضح کیااور آج کے دور میں مسلمان کون ہے اور اس کی نشانیاں کیا ہیں؟ اس امر کو ’’فصل فی علامات المسلم و اوصافہ‘‘ کے عنوان سے ترجمۃ الباب قائم کرکے اجاگر کیا۔

(iii) جب ایک مسلمان نے دوسرے مسلمان کے خون کو بہانے کی ذمہ داری کسی غلط فکر و سوچ کی بنا پر اپنے ذمے لے لی تو شیخ الاسلام نے ہر مسلمان کو بتایا کہ اس کے وجود پر دوسرے مسلمان کے کیا کیا حقوق ہیں؟ آپ نے فصل فی حق المسلم علی المسلم کے عنوان سے قائم ترجمۃ الباب کے ذریعے اس امر کو بخوبی واضح کردیا۔

(۲) آج ایک بہت بڑا مسئلہ فتنہ خوارج کا دوبارہ ظہور پذیر ہونا ہے جنھوں نے معصوم مسلمانوں کو خودکش بم دھماکوں کے ذریعے قتل کرنا شروع کردیا ہے اور اپنے تصورِ مذہب کے مطابق صرف اپنے آپ کو جنتی قرار دینا شروع کردیا ہے۔ اس فکری اور اعتقادی بے راہ روی کا مقابلہ کرنا اور اس فتنے کے سامنے کھڑا ہونا اتنا آسان نہیں تھا۔ ہر کوئی اپنی جان کی امان میں راہِ رخصت پر چل پڑا مگر عالمِ اسلام کو اس فتنے سے پاک کرنے اور اس کا کلی انسداد کرنے کے لیے شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری محافظِ اسلام بن کر دنیا کے سامنے آئے اور ایک تاریخی فتویٰ بعنوان: ’’دہشت گردی اور فتنۂ خوارج: مبسوط تاریخی فتویٰ‘‘ جاری کیا اور احادیث رسول ﷺ کے ذریعے اس فتنے کی ساری حقیقت کو بے نقاب کیا اور باب حکم الخوارج کے عنوان سے ترجمۃ الباب قائم کرکے اس کے تحت بے شمار احادیث کو روایت کرکے امت کے اہلِ علم کو خوارج کے دہشت گرد ہونے پر قائل کیا۔

(۳) آج کے دور کا ایک بہت بڑا مسئلہ عقیدۂ رسالت ﷺ کو ذیلی ابحاث کے ذریعے متنازع بنانے کا بھی ہے۔ انگریز استعمار و سامراج نے اپنے دو سو سالہ اقتدار کو طوالت دینے اور مسلمانوں کو عملی بنیادوں پر کمزور کرنے کے لیے عقیدہ رسالت ﷺ کو تشکیک کے تیروں سے چھلنی کرنا شروع کردیا۔ رسول اللہ ﷺ کی ذات کے حوالے سے طرح طرح کی ابحاث کو امت کے درمیان فروغ دیا گیا اور ان متنازع ابحاث کو خوب چھیڑا گیا۔ وہ ابحاث جن پر امت نے ؓ2 سو سال تک کبھی جھگڑے و فساد، مذاکرے اور مناظرے نہ کیے تھے، انگریز کی گہری سازش کے تحت یہ تمام کچھ مساجد، مدارس، علماء، واعظین کے اہم موضوعاتِ دین بن گئے اور سارے دین کی تعلیمات کو عقیدہ رسالت کے ان ہی اعتقادی اور فکری مسائل میں بری طرح الجھا دیا گیا۔ عقیدہ رسالت کی من پسند اور فرقہ وارانہ تشریحات نے امت کے درمیان فرقہ واریت اور انتشار کو خوب فروغ دیا۔ باہمی محبتوں کی جگہ نفرتوں اور کدورتوں نے لے لی۔ ہر طرف مسلمان ہی کے لیے کفر اور شرک کے فتوے لگنے لگے۔

چنانچہ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے اس فتنے کے تمام سوالات کے جوابات مستند اور معتبر احادیث کے متون اور ان کے تراجم الابواب کے ذریعے دے کر امت کو راہِ اعتدال اور راہِ صواب دکھائی ہے۔

(i) شیخ الاسلام نے ترجمۃ الباب:ان الانبیاء احیاء فی قبورهم باجسادهم کے ذریعے امت پر واضح کیا ہے کہ انبیاءعلیھم السلام اپنی قبور میں برزخی حیات کے مطابق زندہ ہوتے ہیں۔

(ii) باری تعالیٰ اپنے انبیاء و رسل عظام علیھم السلام کو خاص علم عطا کرتا ہے۔ اس اہم عقیدہ کو ترجمۃ الباب فصل فی منزلۃ علم النبی و معرفتہ کے ذریعے بیان فرمایا۔

(iii) امت اپنی قبور میں رسول اللہ ﷺ کی زیارت کرے گی اور صاحبِ قبر سے رسول اللہ ﷺ کی ذات کے بارے میں سوال کیا جائے گا۔ اس عقیدہ کو ان اللہ تسئل عن مکانة النبی فی القبور کے ترجمۃ الباب کے ذریعے واضح فرمایا۔

(iv) رسول اللہ ﷺ آخرت میں اپنی امت کے گناہگاروں کی شفاعت کریں گے۔ اس عقیدہ کو فصل فی الشفاعة یوم القیامة کے ترجمۃ الباب کے ذریعے اجاگر کیا گیا۔

(v) رسول اللہ ﷺ کی محبت باعثِ اجر عظیم ہے۔ فصل فی اجر حب النبی کے عنوان سے قائم ترجمۃ الباب نے اس امر پر تمام شکوک و شبہات کو زائل کردیا۔

(vi) رسول اللہ ﷺ کی ذاتِ اقدس اور آپ ﷺ کے آثار سے تبرک حاصل کرنا جائز ہے۔ اس مسئلہ کو فصل فی التبرک بالنبی وآثاره کے ترجمۃ الباب کے ذریعے بیان کیا۔

(vii) رسول اللہ ﷺ کی ذات کو اللہ کی بارگاہ میں بطورِ توسل پیش کیا جاسکتا ہے۔ اس پر فصل فی التوسل بالنبی کے ترجمۃ الباب کے تحت روشنی ڈالی۔

(viii) امتِ مسلمہ کو رسول اللہ ﷺ کی نسبت سے کیا شرف و عظمت حاصل ہے، اسے فصل فی شرف النبوۃ المحمدیہ کے ترجمۃ الباب کے تحت واضح کیا۔

(ix) کل کائناتِ انسانیت میں رسول اللہ ﷺ کی مثل کوئی بھی فرد بشر نہیں ہے۔ اس پر فصل فی عدم نظیر النبی فی الکون کے ترجمۃ الباب کے ذریعے متعدد احادیث بیان کرکے امتِ مسلمہ پر حضور نبی اکرم ﷺ کے حوالے سے صحیح عقیدہ واضح کیا۔

(x) رسول اللہ ﷺ کی ذات ہر مکتبۂ فکر کے مسلمان کے لیے اور ہر طبقۂ انسانیت کے لیے تعظیمِ واجبہ اور تکریمِ لازمہ کی حامل ہے۔ فصل فی تعظیم النبی کے عنوان سے ترجمۃ الباب قائم کرکے اس کے تحت آپ ﷺ کی ہر شان میں تعظیم، احترام، تکریم بجا لانے کے عمل کو ایک مسلمان اور مومن کے ایمان کا حصہ قرار دیا۔

۲۔ فقہ الحدیث

علمِ حدیث کے حوالے سے شیخ الاسلام مدظلہ کے سامنے ایک اور بڑا چیلنج فقہ الحدیث کے حوالے سے تھا۔ فقہ الحدیث اپنے لغوی مفہوم میں جاننے اور سمجھنے کے معنی میں صریح ہے اور اپنے اصطلاحی مفہوم میں حدیث کی واضح مراد اور اس سے مستنبط ہونے والے احکام اور اس سے استدلال کیے جانے والے فوائد کو صائب طریقے سے جاننے کا نام ہے۔ فقہ الحدیث میں حدیث کے اُن معانی و مطالب کو جاننا اور سمجھنا ہوتا ہے جن کو عمل میں لانے کا ہم سے شارع کا مطالبہ ہے یا اُن پر عمل ہمارے لیے پسندیدہ ہے۔ فقہ الحدیث کی اہمیت کو واضح کرتے ہوئے امام حاکم نیشاپوری فرماتے ہیں:

’’یہ علم تمام علوم الحدیث کا ثمر ہے اور اُن کا حاصل ہے اور یہی علم مدارِ شریعت ہے۔‘‘ (معرفۃ علوم الحدیث، ص: ۷۹)

شیخ الاسلام مدظلہ نے علمِ حدیث کے اس بحرِ عظیم میں بھی غواصی کی ہے اور اس اسلوب پر بڑے ہی انمول موتی اخذ کیے ہیں اور اپنی استدلال کی قوت اور ثقاہت کی بنا پر اپنی رائے اور اپنے موقف کو قائم کیا ہے۔ آپ نے اپنے استدلال و استنباط کو ائمہ و محدثین کے اقوال اور ان کی ثقہ آراء کے ذریعے مؤید اور مصدق کیا ہے اور سیکڑوں احادیث مبارکہ سے وہ معانی اور مطالب اخذ کیے ہیں جنہوں نے ہمارے عقائد و اعمال کی بنیاد کو حکایات سے بلند کرکے نصوصِ شرعی پر قائم کرنے کا حوالہ فراہم کیا ہے۔

اگر کسی عقیدے پر عمل تھا اور کسی نظریے پر ہماری ثابت قدمی تھی تو اس کی دلیل فقط موجودہ اخلاف کا اسوہ و عمل تھا۔ شیخ الاسلام نے فقہ الحدیث کے ذریعے جہاں ہمیں متعدد مسائل میں نصِ شرعی کی دلیل دی ہے، وہاں اسلاف کے عمل سے بھی ہمارے لیے دلیل لائے ہیں۔ فقہ الحدیث کے حوالے سے اُن کی کتب و تصانیف اور خطبات و لیکچرز میں آنے والی اکثر احادیث ایک منفرد استدلال اور ایک مضبوط استنباط کے ساتھ ہمیں معانی و مطالب کے ایک نئے جہاں سے روشن و منور کرتی ہیں۔

قرآن و حدیث کے فہم میں شیخ الاسلام کا خداداد ملکہ و استعداد فقہ الحدیث کے کئی نئے گوشوں کو عیاں کرتا ہے۔ احادیث کے وہ متون جو ہماری نظروں سے اکثر و بیشتر گزرتے رہتے ہیں مگر معانی ومطالب کی جدّت اور انفرادیت ہماری نظروں اور ہمارے دماغوں سے اوجھل ہوتی ہے، وہ صرف شیخ الاسلام کے اظہارِ تکلم سے ظاہر ہوتی چلی جاتی ہے۔ اس کی ایک مثال یہ ہے کہ جب کرونا وائرس کی وبا سے پوری دنیا متاثر ہوئی اورباجماعت نماز ممکن نہ رہی تو کوئی عالم روئے زمین پر ایسا نہ تھا جس نے یہ جرأت کی ہواور دلیل کے ساتھ سب کو مطمئن کیا ہو کہ ان حالات میں مساجد میں باجماعت نماز کا حکم قائم نہیں رہتا۔ شیخ الاسلام نے کثیر احادیث سے استدلال کر کے پوری امت کی رہنمائی فرمائی۔ یہ احادیث کی عصری توضیح کی شاندارمثال ہے۔ اس کے بعد بڑے بڑے علما نے انہی دلائل کے سہارے بات کی۔

فقہ الحدیث کے حوالے سے منعقد ہونے والے صحیح بخاری اور صحیح مسلم کے آپ کے دروس اور لیکچرز، احادیث کے معانی ومطالب کا ایک نیا جہاں ہمارے اوپر منکشف کرتے ہیں۔ اُن لیکچرز کے ذریعے آپ نے امتِ مسلمہ کے ہاں مروّجہ عقائد و اعمال کی علمی اور فنی بنیادیں فراہم کی ہیں اور اسلاف کے طرزِ حیات اور اُن کے اسوہ و کردار کو احادیث کے موافق اور مطابق ثابت کیا ہے۔

اسی طرح فقہ الحدیث کے تناظر میں آپ نے مختلف موضوعات پر متعدد یادگاری اور تاریخی حیثیت کے حامل لیکچرز بھی امت کو عطا کیے ہیں اور آپ کی کتب کا ایک ایک جملہ ہمارے اوپر فقہ الحدیث کے نئے جہاں اور نئے افق روشن کرتا چلا جاتا ہے۔

۳۔ذخیرۂ حدیث کی ترتیبِ نو

علم الحدیث کے تناظر میں تیسرا بڑا چیلنج جس کا قابلِ رشک جواب شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے دیا ہے، وہ ذخیرۂ حدیث کی ترتیبِ نو ہے۔ شیخ الاسلام مدظلہ نے علوم حدیث پر اپنے کام کو مختلف اصناف کے حوالے سے پھیلایا ہے۔ کچھ ذخیرہ حدیث کو وہ ’’اربعینات‘‘ کے نام سے جمع کرکے امت تک پہنچاتے ہیں۔ عقائد و اعمال اور اخلاق کے حوالے سے بڑے سے بڑا کوئی ایک موضوع بھی ایسا نہیں ہے جس کو شیخ الاسلام مدظلہ کے قلم نے ذخیرۂ حدیث میں سے ’’اربعین‘‘ کی شکل و صورت نہ دی ہو۔ جس موضوع پر بھی احادیث کو ڈھونڈنا چاہیں، اُس پر ایک منفرد اسلوب کے ساتھ آپ کی تالیف شدہ ’’اربعینات‘‘ اپنے قارئین کا استقبال کرتی ہوئی نظر آتی ہیں۔ یہ ’’اربعینات‘‘ اپنی تعداد میں مسلسل اضافے کے عدد سے گزر رہی ہیں۔ اگر ان ’’اربعینات‘‘ کی بنیادی تقسیم کریں تو یہ اربعینات؛ عرفانِ الہٰی، قرآنیات، ایمانیات، اعتقادیات، عبادات، فضائلِ نبوی ﷺ ، مناقبِ صحابہ، مناقبِ اہل بیت، مناقبِ اولیاء اللہ و صالحین اور فکریات و عصریات کے بڑے بڑے عناوین کے تحت ہیں۔
اسی طرح فقہ الحدیث کے تناظر میں آپ نے مختلف موضوعات پر متعدد یادگاری اور تاریخی حیثیت کے حامل لیکچرز بھی امت کو عطا کیے ہیں اور آپ کی کتب کا ایک ایک جملہ ہمارے اوپر فقہ الحدیث کے نئے جہاں اور نئے افق روشن کرتا چلا جاتا ہے۔

۳۔ذخیرۂ حدیث کی ترتیبِ نو :

علم الحدیث کے تناظر میں تیسرا بڑا چیلنج جس کا قابلِ رشک جواب شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے دیا ہے، وہ ذخیرۂ حدیث کی ترتیبِ نو ہے۔ شیخ الاسلام مدظلہ نے علوم حدیث پر اپنے کام کو مختلف اصناف کے حوالے سے پھیلایا ہے۔ کچھ ذخیرہ حدیث کو وہ ’’اربعینات‘‘ کے نام سے جمع کرکے امت تک پہنچاتے ہیں۔ عقائد و اعمال اور اخلاق کے حوالے سے بڑے سے بڑا کوئی ایک موضوع بھی ایسا نہیں ہے جس کو شیخ الاسلام مدظلہ کے قلم نے ذخیرۂ حدیث میں سے ’’اربعین‘‘ کی شکل و صورت نہ دی ہو۔ جس موضوع پر بھی احادیث کو ڈھونڈنا چاہیں، اُس پر ایک منفرد اسلوب کے ساتھ آپ کی تالیف شدہ ’’اربعینات‘‘ اپنے قارئین کا استقبال کرتی ہوئی نظر آتی ہیں۔ یہ ’’اربعینات‘‘ اپنی تعداد میں مسلسل اضافے کے عدد سے گزر رہی ہیں۔ اگر ان ’’اربعینات‘‘ کی بنیادی تقسیم کریں تو یہ اربعینات؛ عرفانِ الہٰی، قرآنیات، ایمانیات، اعتقادیات، عبادات، فضائلِ نبوی ﷺ ، مناقبِ صحابہ، مناقبِ اہل بیت، مناقبِ اولیاء اللہ و صالحین اور فکریات و عصریات کے بڑے بڑے عناوین کے تحت ہیں۔

اس کے علاوہ دیگر موضوعات پر تقریباً300 کتب ہیں، جو نئے موضوعات پر ذخیرہ حدیث کا درجہ رکھتی ہیں۔ الموسوعۃ القادریہ 8جلدوں میں اصولِ حدیث پر اس دور کا سب سے بڑا اجتہادی و فنی نوعیت کا کام ہے۔
اس وقت علمِ حدیث میں اپنی نوعیت کا بڑا ہی منفرد اور بہت ہی عظیم الشان پراجیکٹ 40 ضخیم جلدوں پر مشتمل انسائیکلو پیڈیا آف حدیث تیار ہوکر جلد منظر عام پر آرہا ہے، جسے تمام علمی اور فنی بنیادوں پر تیار کیا جارہا ہے۔ اس میں علوم الحدیث کی تمام مباحث کو پیش نظر رکھا جارہا ہے اور ائمہ حدیث کے نقدِ حدیث کے تمام اصولوں اور ضابطوں کو اختیار کیا جارہا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ اس کو تصحیح و تنقیح کے اصولِ حدیث کے اطلاقی پہلوؤں سے گزارا جارہا ہے تاکہ اہلِ علم کے ہاں اس کی قبولیت ہو اور عامۃ الناس کے ہاں اُس کی مقبولیت ہو اور تمام میزانِ نقد سے آراستہ و پیراستہ ہو۔ یقینا جہاں یہ اس 2ؓ ویں صدی کا عظیم الشان اور تاریخ ساز کام ہے، وہیں یہ پوری تاریخِ علمِ حدیث کا بھی ایک انوکھا اور منفرد کام ہے۔

۴۔تخریجِ حدیث

تخریجِ حدیث سے مراد یہ ہے کہ ہر وہ حدیث جسے بیان کیا جارہا ہے، اُس کے حوالے میں ان تمام کتبِ حدیث کا ذکر کیا جائے جن کتب میں وہ حدیث موجود ہے۔ اُن احادیث کو اصل کتب کی طرف منسوب کیا جائے جن میں وہ بیان ہوئی ہیں اور اُن کے درجۂ صحت و ضعف کو بھی پرکھا جائے اور صحت کے اعتبار سے اُن کے استنادی معیار کی صحیح اور درست نشاندہی بھی کی جائے۔ یہ سارا جامع مفہوم تخریجِ حدیث کہلاتا ہے۔

علمِ حدیث کے حوالے سے عصرِ حاضر میں شیخ الاسلام کے سامنےایک چیلنج تخریجِ حدیث کا تھا۔ بغیر سند کے کتب میں حدیث کا اندراج، یا اشارتاً ایک آدھ کتاب کا ذکر عام تھا۔ یہ بات شیخ اسلام نےبروقت جانچ لی کہ فتنوں سے پُر اس ماحول میں اگر حدیث کو اس کے صحیح تصور اور جملہ امہات الکتب جن میں وہ حدیث آئی ہے، اس کے ساتھ بیان کرنے کی روش نہ ڈالی گئی تو لوگ اس کو وہ اہمیت نہ دیں گے جو اس کی اصل میں ہے۔ اس وجہ سے روزِ اول سے ہی آپ نے اس پہلو کا خاص اہتمام کیا۔

شیخ الاسلام کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ انہوں نے اپنے خطبات اور اپنی کتب میں تخریجِ حدیث کا کاملاً اہتمام فرمایا ہے۔ علم کے اعلیٰ معیارِ ثقاہت کو قائم کرنے کے لیے اس حد تک اہتمام میں اوّلیت کا اعزاز شیخ الاسلام کو حاصل ہے۔ جب تخریج کے جدید ذرائع انٹرنیٹ، سوفٹ ویئر، مکتبہ شاملہ وغیرہ اور دیگر کا دور دور تک نام بھی سننے کو میسر نہ تھا، اس وقت شیخ الاسلام نے اپنے لیکچرز اور کتب میں ایک ایک حدیث کی صحت اور اُس کی استنادی حیثیت پر بات کی اور ایک ایک حدیث کے متعدد حوالہ جات معتبر اور مستند کتب سے ذکر کیے۔ اس انداز و اسلوب نے جہاں اُن کے اچھوتے و منفرد طرزِ استدلال و استنباط کو بھی علمی اور تحقیقی قوت فراہم کی وہاں اُن کے مؤقف کو مستند بنانے میں بھی مدد و اعانت فراہم کی۔ اُن کے ہزاروں لیکچرز اور سیکڑوں کتب فنِ تخریج کے جملہ اصولوں کی پیروی کرتے ہوئے حوالہ جات کے ساتھ محقّقہ نظر آتی ہیں بلکہ یہ کہنا بھی بے جانہ ہوگا کہ وہ تحقیق و حوالہ جات کی کثرت میں تمام عصری مصنفین اور مؤلفینِ تحقیقات سے ممتاز اور منفرد حیثیت رکھتے ہیں۔

شیخ الاسلام کا سب سے بڑا کمال اور اُن کا سب سے بڑا حوالہ یہ ہے اُن کی ہر بات دلیل کے ساتھ ہے اور ہر قول حوالے کے ساتھ ہے۔ وہ اپنی بات کو دلیل کی قوت سے دوسروں پر حجت بناتے ہیں، اپنے مؤقف کو ہمیشہ برہان سے مزیّن کرتے ہیں اور اپنے قاری اور سامع کو درجۂ ایقان میں لاتے ہیں۔ علماء و مدرسین، محققین و مبلغین اور مصنفین و مؤلفین کی مجلس میں اُن کی علمی و تحقیقی طبع زاد اپنے کمال کی حدوں کو چھوتی نظر آتی ہیں۔

۵۔ابلاغِ حدیث کے ذریعے محبت اہل بیت اطہارؑ کا احیاء

شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری فرماتے ہیں کہ ’’فی زمانہ حُبِّ اَہلِ بیت خارجیت کی زد میں آچکی ہے۔ لوگ اخلاقی طور پر اتنے کمزور ہو چکے ہیں کہ وہ شیعہ کہلائے جانے کی تہمت کے خوف سے ذکرِ امام حسینؑ کی مجالس کا اہتمام کرتے ہوئے ڈرتے ہیں اور ان مجالس کے اہتمام میں لیت و لعل سے کام لیتے ہیں۔ اَہلِ بیتِ اَطہارؑ کی محبت کو صرف شیعیت کے ساتھ خاص کرنا تہمت ہے، اس لیے کہ اَہلِ بیتِ اَطہارؑ کی محبت ہر مسلمان کے ایمان کا حصہ ہے۔ یہ صرف کسی ایک مسلک کی پہچان نہیں بلکہ ہر مسلمان کی اُخروی نجات اور حفاظتِ ایمان کا ذریعہ ہے۔

اُمت میں ایسے فتنے بپا کرنے والے، جھوٹے فتوے لگانے والے، شر انگیزی کرنے والے، لوگوں کے عقائد کو طرح طرح کے حملوں سے منتشر کرنے والے اور راہِ حق سے ہٹانے والے لوگ ہمیشہ دنیا میں رہے ہیں۔ خارجی فکر تو تسلسل سے ہر صدی میں موجود رہی ہے۔ آج جن لوگوں نے مسلمانوں اور اُمتِ مسلمہ کے خلاف ہتھیار اُٹھا رکھے ہیں، وہ یہی خارجی ہیں جنہوں نے امن کی راہ چھوڑ دی ہے۔ یہ محبتِ رسول ﷺ اور محبتِ اَہلِ بیتِ اَطہارؑ کے خلاف ایک محاذ ہے۔ یہ خارجی فکر اَہلِ سنت و جماعت کو فقط حُبِّ صحابہؓ تک محصور کر رہی ہے جب کہ حُبِّ اَہلِ بیتؑ اور حُبِّ صحابہؓ دونوں کو جمع کرنا اَہلِ سنت و جماعت کے ہاں ایمان تھا اور ہے۔ دونوں کو جمع رکھنا ہی اَہلِ سنت کا امتیاز اور تشخص تھا اور ہے۔‘‘

شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری نے اس پُر فتن اور غیرمتوازن دور میں حُبِّ اَہلِ بیتِ اَطہارؑ کی ترویج میں بنیادی کردار ادا کیا ہے۔ انہوں نے حضور نبی اکرم ﷺ کے اَہلِ بیتِ نسب (وہ رشتے دار جو نسب کی وجہ سے بنتے ہیں، مثلاً چچا، پھوپھی وغیرہم)، اَہلِ بیتِ مسکن (وہ رشتے دار جو گھر کے اندر آباد ہوتے ہیں، مثلاً اَزواجِ مطہرات) اور اَہلِ بیتِ ولادت (اس سے مراد بیٹے، بیٹیاں اور آپ ﷺ کی اَولادِ اَطہار شامل ہے) کے فضائل کے بارے میں سیکڑوں پُر مغز خطابات کیے اور متعدد کتب تحریر کی ہیں۔

شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کاوجود اس امت اور پوری انسانیت کے لیے خیر، برکت اور منبع علم و عرفان ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کے فیوضات سے ہمیں حصہ وافر عطا فرمائے۔ آمین بجاہ النبی الامین ﷺ