مصطفوی معاشرہ کی تشکیل، شیخ الاسلام کا ویژن
جب انسان اپنی بنیادی ضروریات کے حصول کے لیے دوسرے انسانوں کے ساتھ مل کر رہتا ہے تو معاشرہ معرضِ وجود میں آتا ہے۔ جب معاشرہ کسی خاص علاقے کی رسم و رواج کے ساتھ جڑ جاتا ہے تو پھر معاشرے کی شناخت علاقائی سطح کے ساتھ ہونا شروع ہوجاتی ہے اور علاقائی مفادات کے تحفظ کے لیے بھی لوگ مل کر تگ و دو کرتے ہیں۔ تب معاشرہ، ہندوستانی معاشرہ، مشرقی معاشرہ، مغربی معاشرہ کے ناموں سے موسوم ہوجاتا ہے۔
کم و بیش تمام معاشروں کی شناخت ان کی معاشرتی اقدار ہوتی ہیں اور معاشرے کی بنیاد مشترکہ مفادات ہوتے ہیں۔ معاشرے کا ہر فرد اپنا حقوق کے حصول کے لیے اس معاشرے سے جڑا ہوتا ہے۔ اس کے برعکس جب ہم مصطفوی معاشرے کی بات کرتے ہیں تو اس کی بنیاد (Foundation) حصولِ حقوق پر نہیں بلکہ ادائیگی فرائض پر ہے۔ مصطفوی معاشرے کی بنیاد نظریہ پر ہے۔ اس نظریہ کے اشتراک کی بنیاد پر رنگ، نسل، زبان، قبیلہ، ذات برادری، علاقہ اور وطن کی کوئی قید نہیں ہے۔ ان قیود سے ماوراء صرف اور صرف نظریاتی بنیادوں پر قائم ہونے والا معاشرہ مصطفوی معاشرہ کہلاتا ہے۔
مصطفوی معاشرے کی بنیاد تاجدار کائنات ﷺ نے 13 سالہ مکی جدوجہد کے بعد سرزمین مدینۃ المنورہ میں رکھی۔ مدینۃ المنورہ میں قائم ہونے والے معاشرے کی بنیاد تین ستون تھے:
1۔ مسجد
2۔ مواخات
3۔ بقائے باہمی معاہدات
مصطفوی معاشرے کی تشکیل کے وقت جو چیلنجز درپیش تھے ان سے نبرد آزما ہونے اور نئے معاشرے کی تشکیل جو آفاقی ہونے کے ساتھ ساتھ ہر زمانے، ہر علاقے کے لیے قابلِ قبول بھی ہو، اس کے لیے تاجدار انبیاء ﷺنے سب سے پہلے مسجد نبوی کی بنیاد رکھی۔ پھر ایمان والوں کے مابین مواخات کروائی اور اس کے بعد مدینہ میں بسنے والے دیگر مذاہب کے ساتھ معاہدات کیے جو بقائے باہمی کے لیے ضروری تھے۔ ان امور سے نبی کریم ﷺ کی اس حکمتِ عملی کا پتہ چلتا ہے جس کے ذریعہ محدود افرادی قوت، محدود وسائل اور ناموافق حالات میں بھی اپنی منزل کا حصول ممکن ہوجاتا ہے۔
آج امتِ مسلمہ کی حالت بالعموم اور پاکستانی معاشرے کی حالت بالخصوص ہمارے سامنے ہے۔ اس معاشرے کو مصطفوی معاشرے کی اقدار میں ڈھالنے کے لیے شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی علمی و فکری خدمات کا جائزہ درج ذیل سطور میں بیان کیا جارہا ہے:
شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری عصرِ حاضر کے مجدد ہیں۔ جن کی خدمات ہمہ جہتی ہیں اور زمانہ ان کی خدمات کا معترف ہے۔ انھوں نے مصطفوی معاشرے کی تشکیل کے لیے بھی خدمات سرانجام دی ہیں۔ انھوں نے معاشرے کی زوال پذیر اقدار کو بدل کر نئے معاشرہ کی تشکیل کی مساعی بھی کی ہیں تاکہ یہ معاشرہ صرف قول کے لحاظ سے ہی نہیں بلکہ عملی اقدار کے لحاظ سے بھی مصطفوی دکھائی دے۔ وطنِ عزیز اسلام کے نام پر حاصل کیا گیا، جس کی بنیاد ہی یہ تھی کہ مسلم قوم معاشرتی، معاشی، اخلاقی، تعلیمی اور تہذیبی لحاظ سے الگ تھلگ اقدار کی حامل ہے اور وہ اقدار ہی اسے دنیا کی اقوام میں منفرد مقام عطا کرتی ہیں۔
مصطفوی معاشرے کی تشکیل کا لائحہ عمل
شیخ الاسلام نے مصطفوی معاشرے کی تشکیل کے لیے 7 ’’میم‘‘ کا تصور دیا ہے جو درج ذیل ہیں:
1۔ ماں
2۔مسکن
3۔ مکتب
4۔ مسجد
5۔ معلم
6۔ میڈیا
7۔مواخات
ذیل میں شیخ الاسلام کی اس منفرد فکر کی وضاحت ملاحظہ ہو:
1- ماں
معاشرے کی بنیادی اکائی فرد ہوتا ہے۔ فرد اگر تربیت یافتہ اور باشعور ہوگا تو معاشرہ بھی باشعور ہوگا۔ معاشرے کی سب سے پہلی اکائی جس فرد سے شروع ہوتی ہے، وہ ماں ہے۔ ہمارے معاشرے میں خواتین کوکتنی عزت دی جاتی ہے اور بالخصوص بیوی جو کل کی ماں ہے، اس کی عزت اور پھر جب وہ بیٹی ہے، تب اس کی تعلیم و تربیت پر کس قدر فوکس کیا جاتا ہے، یہ حقیقت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے۔
عورت جو ماں، بہن، بیوی اور بیٹی کے مقدس رشتوں کو اپنے اندر سموئے ہوئے ہے، شیخ
الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے ان چاروں رشتوں کی اہمیت کو خوب اجاگر کیا ہے۔ شیخ
الاسلام نے بیٹی سے پیار، اس کی تعلیم اور تربیت کی ضرورت و اہمیت کو باقاعدہ اپنی
تحاریر اور تقاریر کا مستقل موضوع بنایا ہے۔ انھوں نے بیٹیوں سے محبت کو تاجدار کائنات
ﷺ کی سیدہ کائنات سے محبت کے انداز، طریقے اور جذبات کا ذکر کرکے اجاگر کیا
ہے کہ سچا مسلمان اور راسخ العقیدہ
عاشقِ رسول ﷺ وہی ہوسکتا ہے جو اپنے افعال میں اسوۂ حسنہ کا پیروکار ہے۔
بیٹی کی آمد پر سرکار دو عالم ﷺ کا اٹھ کر کھڑے ہونا، اسے اپنے جگر
کا ٹکڑا کہنا، بیٹی کی عظمت کو اجاگر کرتا ہے۔
شیخ الاسلام نے اسی بیٹی کو جب ماں کے روپ میں پیش کیا ہے کہ تو فرمایا کہ تربیت
یافتہ اور باشعور ماں کی گود سے ہی باشعور اور باادب اولاد جنم لیتی ہے۔ آپ نے سیدنا
امام عالی مقامؓ، سیدنا غوث الاعظمؓ، خواجہ فریدالدین گنج شکرؒ اور اسی طرح کے اکابرینِ
امت کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ یہ سارے نفوسِ قدسیہ
اچھی ماں کی بدولت میسر آتے ہیں۔ ماں ہی بچے کا پہلا آئیڈیل ہوتا ہے، ماں کی
عادات کا بچے کے کردار پر گہرا اثر پڑتا ہے۔ ماں کے اخلاق، رویہ، عبادت، سلیقہ شعاری
اور میل جول بچے کا لائف سٹائل بنتا ہے۔
شیخ الاسلام نے آج کی بیٹی جو کل کی ماں ہے، اس کی تعلیم و تربیت کے لیے شعبہ حفظ، گرلز سکول اور ویمن کالجز کا دنیا بھر میں جال بچھا دیا تاکہ مصطفوی معاشرے کی پہلی اور اہم اکائی کو مصطفوی بناکر عملی زندگی میں اتارا جائے۔ شیخ الاسلام نے اپنے اس وژن کو اداراتی (Institutional) شکل دی ہے اور اس کے لیے مرکزی سطح سے لے کر یونٹ سطح تک بچوں کی تربیت کے لیے Eagers، وویمن ایمپاورمنٹ کے لیے Woice اور MWL کے فورم اور شعبہ جات قائم کردیئے ہیں۔ اسی طرح قوم کی بیٹی کی تربیت کی غرض سے صالحات خواتین کے اسوہ پر متعدد کتب بھی تحریر کیں۔
’’ماں‘‘ مصطفوی معاشرے کا اہم ستون ہے۔ یہ بچوں کی تربیت کے ساتھ ساتھ گھریلو نظم
و نسق میں کلیدی کردار اداکرتی ہے۔ بچوں کی اخلاقیات کا دارومدار بھی ماں پر ہوتا ہے۔
ان تمام پہلوؤں کو مدنظر رکھتے ہوئے شیخ الاسلام نے انفرادی سطح سے لے کر اجتماعی
سطح تک خواتین کی کردار سازی پرپوری لگن کے ساتھ محنت کی ہے۔ شہر اعتکاف میں ہزارہا
خواتین کی شرکت انہیں معاشرے کا بہترین فرد بنانے میں معاون بنتا ہے۔ اسی طرح عالمی
میلاد کانفرنس میں ہزارہا خواتین کی شرکت، انہیں عشق رسول ﷺ میں کندن بناتا
ہے اور پھر اس قوت کے ساتھ وہ گھر کے باہر اجتماعی کاوشوں میں حصہ دار بنتی ہیں اور
ان کے اعتماد (Confidence) میں اضافہ ہوتا ہے۔ مرکزی، زونل، ضلعی اور تحصیلی سطح پر
خواتین کے لیے تربیتی کنونشن کے انعقاد نے انھیں معاشرے کا انتہائی فعال رکن بنایا
ہے۔ ماں کے اس کردار کو اجاگر کرنے اور ماؤں کی اس نہج پر تعلیم و تربیت کے حوالے
سے شیخ الاسلام کی ان علمی و فکری کاوشوں کے نتیجہ میں
عرب و عجم اور ویسٹرن ورلڈ میں بھی مصطفوی معاشرے کی جھلک دکھائی دینا شروع ہوچکی ہے۔
2۔ مسکن (گھر)
یہ بات مسلّم ہے کہ انسانی زندگی کے دو پہیے خاوند اور بیوی ہوتے ہیں۔ انہی سے معاشرے کا ایک اہم ستون خاندان بنتا ہے اور خاندانوں کے جمع ہونے سے معاشرہ معرضِ وجود میں آتا ہے۔ ان دو اہم عناصر کی علمی و فکری تعلیم و تربیت آج کے زمانے کی اہم ضرورت ہے کیونکہ مشرقی معاشرے میں خاوند کو مجازی خدا کا درجہ دیا جاتا ہے جبکہ بیوی پاؤں کی جوتی تصور کی جاتی ہے۔ اس افراط و تفریط کے شکار معاشرے کی اصلاح کا بیڑہ شیخ الاسلام نے اٹھایا۔ جب تک میاں اور بیوی کو اپنے اپنے حقوق و فرائض کی آگاہی نہیں ہوگی، زندگی کسی بھی طرح معتدل و متوازن ہوکر آگے نہیں بڑھ سکتی۔
مصطفوی معاشرے کی تشکیل کے لیے شیخ الاسلام نے مثالی خاندان کا تصور نبی کریم ﷺ
اور امہات المومنین، مولائے کائنات اور سیدہ کائنات اور
حضور غوث الاعظم رضی اللہ عنہ اور دیگر اکابرین کی زندگیوں سے دیا ہے۔ شیخ الاسلام
نے مصطفوی معاشرے کی تشکیل میں خاوند کے قوام ہونے کی
علمی و فکری وضاحت کرکے اس کے فرائض کو اجاگر کیا ہے اور اسے کسی صورت میں مطلق العنان
ہونے سے روکا ہے۔ مسکن (گھر) کا ماحول ہی بنیادی طور پر بچوں کو اپنی زندگی کا راستہ
فراہم کرتا ہے۔
3۔ مکتب
ماں کی گود کے بعد بچے کی دوسری درسگاہ اس کی مادرِ علمی یعنی اس کا سکول/ مدرسہ ہوتاہے۔ مکتب کا نصاب ہمیشہ ، قومی، اخلاقی اقدار کا آئینہ دار ہونا چاہیے۔ بنیادی طور پر نصاب ہی وہ بنیادی چیز ہے جو قومی و دینی اقدار کو پروان چڑھانے کا سبب بنتا ہے۔ اگر نصاب ہی گزرے ہوئے وقتوں کا آئینہ دار ہو تو مستقبل کیسے روشن ہوسکے گا؟ موجودہ حالات کے تقاضے کیا ہیں؟ زمانے کے کیا کیا چیلنجز ہیں؟ زمانہ قیامت کی چال چل رہا ہو اور مکتب ہاتھ پر ہاتھ رکھے منتظرِ فردا ہو تو معاشرے کی حالت کیسے سنورے گی؟ اسی مکتب سے اہلِ علم و فن امید کرتے ہیں کہ معاشرے کی مجموعی حالت کی تبدیلی مکتب کے موثر کردار سے ہی ممکن ہے۔
شومئی قسمت کہ ان مدارس میں پڑھایا جانے والا نصاب 275 سال پرانا ہے۔ معاشرے کو
حقیقی معنیٰ میں مصطفوی بنانے کی عملی کاوش شیخ الاسلام نے کی۔ انھوں نے مدارس کے 275
سال پرانے نصاب کی تجدید کی اور وقت کی ضرورت اور نئے چیلنجز کے پیش نظر نیا نصاب مرتب
کیا۔ اس نصاب کو حکومتی اور
غیر سرکاری سطح پر بہت زیادہ پذیرائی ملی۔ اس نصاب کے عملی نفاذ سے ان شاء اللہ علامہ
اقبال کا شکوہ بھی دور ہوجائے گا، جس میں وہ کہتے ہیں:
گلا تو گھونٹ دیا اہلِ مدرسہ نے تیرا
کہاں سے آئے صدا لا الہ الا اللہ
منہاج القرآن کی تعلیمی خدمات کے پیش نظر ریاست کی طرف سے دینی تعلیم کا ایک وفاقی
بورڈ نظام المدارس پاکستان کے نام سے اسے دیا گیا ہے۔ اس بورڈ کے ساتھ ملک کے طول و
عرض سے ہزارہا بچوں اور بچیوں کے مدارس ملحق ہوچکے ہیں۔ ان مدارس سے فارغ التحصیل ہونے
والے افراد ان شاء اللہ مصطفوی معاشرے کی تشکیل اور قیام میں عملی کردار ادا کریں گے۔
اسی طرح شیخ الاسلام نے منہاج القرآن ماڈل سکولز، منہاج گرائمر سکولز، منہاج کالجز،
منہاج گرلز کالجز کا ایک وسیع نیٹ ورک ملک کے طول و عرض میں بچھایا۔ جس کی بدولت اس
قوم کے بچے زیورِ تعلیم کے ساتھ ساتھ اخلاقی، فکری اور روحانی تربیت سے گزر کر ایک
مفید شہری بن رہے ہیں۔ اس طرح ایک فقید المثال یونیورسٹی منہاج یونیورسٹی لاہور کے
نام سے قائم کی، جس نے بہت کم عرصہ میں قومی اور
بین الاقوامی سطح پر بہت سے اعزازات اپنے نام کیے ہیں۔ ان تمام اقدامات سے یہ پیغام
دینا مقصود ہے کہ مصطفوی معاشرے کا قیام تبھی ممکن ہے جب اس کے تعلیمی ادارے اپنا مؤثر
کردار اداکررہے ہوں۔
4۔ مسجد
نبی کریم ﷺ نے ہجرتِ مدینہ کے بعد سب سے پہلے مسجد کی تعمیر کروائی۔ یہ اس بات کا عندیہ ہے کہ مدینہ منورہ میں جس معاشرے کی تشکیل ہونے جارہی ہے، اس کی بنیاد مسجد بنے گی۔ مسجد معاشرے کی وحدت کی آئینہ دار ہوتی ہے۔ قرونِ اولیٰ میں مسجد اللہ کی عبادت کے لیے ہی نہیں بلکہ اس کا استعمال کثیرالجہتی ہوتا تھا۔ مسجد پارلیمنٹ بھی تھی،عدالت بھی تھی، GHQ بھی تھی اورغیر ملکی وفود سے ملاقات بھی مسجد میں کی جاتی تھی۔
تعلیماتِ اسلام کی روشنی میں مسجد معاشرتی، قبائلی، نسلی، لسانی اور علاقائی امتیازات کے خاتمے کا سبب بنتی ہے۔امیر اور غریب،حاکم اور محکوم، گورے اورکالے کے فرق کو مٹا کر ان کو ایک ڈوری میں پرونے کی بنیاد فراہم کرتی ہے۔ اگر اختصار سے بات کرنی ہو تو یہ بات زیادہ موزوں ہے کہ معاشرتی سرگرمیوں کا مرکز ومحور مسجد ہوتی ہے۔ دن میں 5 مرتبہ ایک دوسرے سے ملاقات کئی لحاظ سے معاشرے اور افرادِ معاشرے کے لیے مفید بنتی ہے۔
درج بالا اہمیت کے پیش نظر شیخ الااسلام نے وطنِ عزیز سمیت بیرونِ دنیا میں اسلامک سنٹرز کے قیام کا جدید تصور دیا۔ جس میں مسجد کے ساتھ کمیونٹی سنٹر، لائبریری، ڈسپنسری اور مختلف معاشرتی سرگرمیوں کے لیے ہال کے ساتھ سیکڑوں کی تعداد میں اسلامک سنٹرز کا قیام عمل میں لایا جاچکا ہے۔ ان اسلامک سنٹرز کی بدولت معاشرے کے افراد (خواتین و حضرات) کو یکساں مواقع میسر آتے ہیں کہ وہ دینی تعلیمی کے ساتھ ساتھ معاشرتی سرگرمیوں میں برابر شریک ہوکر اپنا اپنا کردار ادا کریں۔
5۔ معلم
معلم (استاد) معاشرے کی تعمیر میں کلیدی کردار ادا کرتا ہے۔ اللہ کریم نے جتنے بھی انبیاء کرام علیھم السلام کو دنیا میں مبعوث فرمایا، وہ تمام کے تمام معلم بن کر تشریف لائے کیونکہ انھوں نے معاشرے کی تشکیل نو فرمانا تھی۔ نبی کریم ﷺ کا اپنا ارشاد مبارک ہے:
انما بعثت معلما۔
تعلیم و تربیت کارِ پیغمبراں ہے۔ معلم مدرسے میں ہو، مسجدمیں ہو، سکولز، کالجز یا یونیورسٹیز میں ہو، افرادمعاشرہ انہی کےہاتھوں سے تراشے جاتے ہیں۔ انہی معلمین سے تعلیم و تربیت حاصل کرکے، بزنس مین، سیاست دان، علماء، مشائخ، وکلاء، جج، جرنیل، معیشت دان اور دیگر ذمہ دار افراد تشکیل پاتے ہیں۔ ہر محکمے میں ادنیٰ سے لے کر اعلیٰ افسران تک کے پیچھے معلم ہوتاہے۔ آج معاشرے کی دگرگوں حالت دیکھ کر احساس پیداہوتاہے کہ اگر معلم نے اپنا صحیح اور بھرپور کردار ادا کیا ہوتا تو معاشرہ کچھ اور نقشہ پیش کرتا۔
شیخ الاسلام نے خود کو ایک مثالی معلم کے طور پر پیش کیا۔ آپ بطورِ معلم کبھی جامعہ اسلامیہ منہاج القرآن میں، کبھی جامعہ پنجاب میں، کبھی مسجد میں اورکبھی دنیا کی مختلف یونیورسٹیز میں تعلیم دیتے نظر آتے ہیں۔ کبھی شہر اعتکاف میں اخلاقی اور روحانی تعلیم دیتے نظر آتے ہیں، کبھی دنیا بھر میں الھدایہ کیمپس میں ایک مثالی معلم اور مربی کے روپ میں دکھائی دیتے ہیں۔ اسی طرح مختلف ممالک کی پارلیمنٹ اور عالمی کانفرنسز میں بھی آپ اپنا یہ فرضِ منصبی ادا کرتے نظر آتے ہیں۔
مصطفوی معاشرے کی تشکیل کے لیے شیخ الاسلام نے تنظیمی نظم میں معلمین کی ایک بڑی کھیپ تیار کی ہے اور یہ سلسلہ روز بروز تنظیمی ذمہ داران کی صورت میں زون، ڈویژن، ضلع، تحصیل، یونین کونسل اور یونٹ سطح تک بڑھتا جارہا ہے۔ ان تیار ہونے والے معلمین کی ایک خاص بات یہ ہے کہ معاشرے کے ہر طبقہ کے لیے معلم بھی اسی طبقہ زندگی سے لیا جاتاہے۔ علماء و مشائخ، خواتین،یوتھ، طلبہ، وکلاء کے لیے الگ الگ تنظیمی ذمہ دار اپنے اپنے حلقات میں معلم کا کردار اداکررہے ہیں۔
6۔ میڈیا
آج کے معاشرے کو جو سب سے بڑا چیلنج درپیش ہے، وہ میڈیا ہے۔اس میں الیکٹرانک ، سوشل اور پرنٹ میڈیا سبھی شامل ہیں۔ معاشرے کی تشکیل میں میڈیا کی آج ایک مسلّمہ حیثیت ہے۔ شیخ الاسلام نے زمانے کی نبض پر ہاتھ رکھا ہوا ہے۔وہ پیدا شدہ اور متوقع پیدا ہونے والی بیماریوں کا خوب ادراک رکھتے ہیں۔ اس لیے معاشرے کو مصطفوی معاشرے میں بدلنے کے لیے آپ نے سب سے پہلے میڈیا کا مثبت اور بہترین استعمال دینی سطح پر کیا۔ میڈیاکے مصطفوی معاشرے کی تشکیل کے لیے استعمال پر آ پ کو اپنے ہم عصر علماء کی مخالفت کا بھی شدید سامنا کرنا پڑا۔ مگر آپ مصطفوی معاشرے کی تشکیل کا ایک Broad vision رکھتے ہیں۔
اس تناظر میں آپ نے کسی مخالفت کی پرواہ نہیں کی۔ اسی میڈیا کے استعمال سے مصطفوی مشن کا پیغام دیکھتے ہی دیکھتے چہار دانگ عالم میں پہنچ گیا۔اس میڈیا کے استعمال سے وقت اور وسائل کی بچت بھی ہوئی اور ایک فرد کی بجائے پوری کی پوری فیملی بہ یک وقت مستفید ہوتی ہے۔ مصطفوی معاشرے کی تشکیل کے لیے شیخ الاسلام نے مرکز سے لے کر یونٹ تک تنظیم میں ایک میڈیا ذمہ دار کا تعین لازمی قرار دے دیا۔ مرکز پر پوری نظامت قائم کی، جس کے ذمہ میڈیا کا بہترین استعمال کرکے معاشرے کی برائیوں کا تدارک اور مصطفوی معاشرے کی تشکیل نو ہے۔ بحمداللہ تعالیٰ گلوبل ویلج میں بسنے والے افراد تک اسلام کا صحیح تصور اجاگر کیا جارہا ہے۔ کم افرادی قوت کے ساتھ زیادہ سے زیادہ افراد تک رسائی ہورہی ہے۔ اس میڈیا کی بدولت نوجوان نسل کشاں کشاں دین کی طرف راغب ہورہی ہے۔
7۔ مواخات (Brotherhood)
ہجرتِ مدینہ کے بعد نبی کریم ﷺ نے مسجد کی تعمیر کروائی، اس کے بعد مہاجرین اور انصار صحابہ کرامl کے درمیان مواخات کروائی۔ نبی کریم ﷺ کی حیاتِ مبارکہ کے مطالعہ سے 3 اصول بڑے وضاحت کے ساتھ ملتے ہیں:
1۔ منصوبہ بندی 2۔ ترجیحات
3۔ حصولِ مقاصد کے لیے عملی جدوجہد
مواخات بھی اسی منصوبہ بندی کا ایک بڑا حصہ ہے۔ مواخات کے عمل پر عمیق نظر ڈالیں تو پتہ چلتا ہے کہ نبی کریم ﷺ نے مصطفوی معاشرے کی عملی تشکیل کے لیے کتنا خوبصورت عملی قدم اٹھایا۔ مواخات کے اس عمل میں مکہ مکرمہ سے ہجرت کرکے آنے والوں میں معاشی اور سیاسی طور پر مضبوط قبیلہ کے افراد بھی شامل تھے۔ بڑے مقصدکے حصول کے لیے یہ ضروری تھا کہ جن عصبیتوں کی بنا پر اہلِ عرب اپنے آپ کو دوسروں سے افضل و اعلیٰ سمجھتے تھے، ان عصبیتوں کو عملی طور پر ختم کرکے ایسے معاشرے کی بنیاد رکھ دی جائے جس میں رنگ، نسل، زبان، قبیلہ، علاقہ، سیاسی برتری، معاشی برتری وغیرہ سب ختم ہوجائیں۔
قول اقبال؎
بتانِ رنگ و بو کو توڑ کرملت میں گم ہوجا
نہ تورانی رہے باقی، نہ ایرانی نہ افغانی
اس عملِ مواخات کے نظائر آج بھی دنیا نہیں بھولی۔ بہت سے مورخین نے اس عمل کو بہترین منصوبہ بندی اور حکمتِ عملی کا نا م دیاہے۔ جس کی بدولت مہاجرین کی اجنبیت جاتی رہی، احساسِ محرومی نہ رہا اور اس سے بڑھ کر یہ کہ انہیں کبھی ماضی کے دریچوں میں جھانک کر احساسِ ندامت تک نہ ہوا۔ رہتی دنیا تک آباد کاری، سخاوت، کشادہ دلی اور اپنے مقاصد کے حصول کے لیے ایثار و انفاق کرنے کے واقعات انصار کے مثالی کردار کے طور پر جانے جاتے ہیں۔
شیخ الاسلام نے تاجدار کائنات ﷺ کے اس عمل مبارک سے خیرات لیتے ہوئے منہاج القرآن سے وابستہ تمام افراد کو اپنی تحریر اور تقریر کے ذریعہ بھائی بھائی بن جانے کی نہ صرف تلقین کی بلکہ فرمایا کہ مصطفوی معاشرے کی تشکیل کا خواب تب تک شرمندہ تعبیر نہیں ہوسکتا، جب تک مشن سے وابستہ افراد اپنی ذاتی شناختوں کو مشن کی شناخت میں ضم نہیں کردیتے۔
شیخ الاسلام نے عملی طور پر بھی 16 مارچ 2003ء میں ایک عظیم ورکرز کنونشن میں مواخات کے عمل میں وابستگان کو گزارا۔ تمام وابستگان نے اپنے ساتھ بیٹھے ہوئے فرد (رفیق) کے ہاتھ میں ہاتھ ڈال کر مواخات کے اس عمل کا عہد کیا۔ آج دنیا کے 100 سے زائد ممالک میں بسنے والے اور مصطفوی معاشرے کی تشکیل کے لیے کاوشیں کرنے والے افراد جب آپس میں ملتے ہیں تو دیکھنے والے تعجب کا شکار ہوجاتے ہیں کہ اس نفسا نفسی کے دور میں ایسے افراد بھی زمین کو زینت بخش رہے ہیں۔
شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے اپنے بچے، بچیوں اور پوتے پوتیوں کی شادیاں تحریکی گھرانوں میں کرکے اس مواخات کو عملی فروغ دیا ہے۔ دنیا میں پھیلا ہوا تنظیمی نیٹ ورک جس میں ہزارہا خواتین و حضرات اپنے اپنے فورم پر خدمات سرانجام دے رہے ہیں، تنظیم میں اپنے سینئرز کو فالو کرنا، ان کا ادب کرنا، ان کی ہدایات پر عمل کرنا، یہ سب مواخات کے عملی مظاہر ہیں۔