اَخلاقی بحران اور اُن کا حل( شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری کے افکار کی روشنی میں)
عصر حاضر میں دنیا کو بے شمار چیلنجز کا سامنا ہے۔ دیانتداری سے جائزہ لیا جائے تو آج کا سب سے بڑا مسئلہ اخلاقی بحران ہے۔ یہی وہ منبع و مصدر ہے جہاں سے باقی سارے مسائل جنم لے رہے ہیں۔ یہ مادی ترقی اپنے ساتھ بہت سارے مسائل بھی لے کر آئی ہے جنہوں نے زندگی کا فطری حسن چھین لیا ہے۔ سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ انسان دنیوی سامانوں میں گم ہو کر اعلیٰ اخلاقی اقدار سے محروم ہو چکا ہے جس کے نتیجے میں زندگی مصنوعی، کھوکھلی، سطحی اور بناوٹی بن گئی ہے۔
قرآن مجید کا بغور مطالعہ کیا جائے تو یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ جتنی بھی اقوام ہلاک ہوئیں اوراُن پر جو عذاب بھی آیا وہ اُن کے کسی نہ کسی اخلاقی بگاڑ کا ہی نتیجہ تھا۔ اللہ رب العزت کایہی قانون ایک فرد کے لیے بھی ہے اور یہی اقوام کے لیے بھی۔ فلسفہ تاریخ کے بانی ابن خلدون نے بھی اس بات کو قوموں کے عروج و زوال کے ایک مسلّمہ اُصول کے طور پر بیان کیا ہے کہ اخلاقِ حمیدہ کے زوال کے ساتھ قوم کا زوال لازمی ہے۔ چنانچہ آغاز کائنات سے لے کر انسانی تاریخ کے تمام ادوار میں جتنی بھی اقوام ہلاک اور برباد ہوئیں، اُن کی تباہی و بربادی کا ہر واقعہ گو عالمِ اسباب میں پیش آیا مگر اُس کی جڑیں اُس خلاقی انحطاط تک جاتی ہیں جن میں وہ مبتلا ہوئے۔ یہی وجہ ہے کہ جتنے بھی انبیاءکرامؑ دنیا میں مبعوث ہوئے، توحید کے بعد اُنہوں نے زیادہ زور اخلاقیات پر ہی دیا۔ اس ضمن میں اپنی سیرت و کردار کو ایک عملی اور مثالی نمونہ کے طور پر پیش کیا۔ یہیں سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ جب کوئی قوم ا خلاقی انحطاط کا شکار ہونے لگے تو اصلاحِ احوال کی کوشش کرنے والے ہر شخص کو اپنی ترجیحات میں اسے سب سے اُوپر رکھنا چاہیے۔ کیونکہ دیگر تمام شعبوں کا بگاڑ اخلاقی بگاڑ ہی کا براہِ راست یا بالواسطہ نتیجہ ہوتا ہے۔
شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری عصرِ حاضر کے عظیم معلمِ اخلاق
عصر حاضر میں ہمہ گیر نوعیت کا اخلاقی بحران جس نے انسانیت کی جڑوں کو کھوکھلا کر دیا ہے اور معاشرے کو بے شمار مسائل اور جرائم کی آماجگاہ بنا کر رکھ دیا ہے، اس کے حل کے لیے اس عہد کی دانش شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری کے پاس کیا لائحہ عمل ہے؟ اسے جاننا از حد ضروری ہے۔ مگر اس سے پہلے یہ بتانا ضروری ہے کہ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری کی شخصیت کن او صاف وخصوصیات کی مالک ہے؟ یہ جاننا اس لیے ضروری ہے کہ جو شخصیت اخلاق و کردار کا سبق دے رہی ہے اور موجودہ اخلاقی بحران کا ایک واضح علمی و عملی حل عطا کررہی ہے، وہ خود کس علمی، فکری اور روحانی مقام کی حامل ہے۔
علامہ اقبال کا مشہور شعر ہے کہ
؎ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی رہی
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا
چمن میں دیدہ ور کی آمد کے لیے گلشنِ ہستی کو صدیوں انتظار کرنا پڑتا ہے پھر کہیں جا کر وہ صاحبِ نظر، معاملہ فہم، حقیقت شناس، صاحبِ ادراک و بصیرت اور گوہر ِنایاب سامنے آتا ہےجو اُجڑے ہوئے اور خزاں رسیدہ چمن کو بہار آشنا کر دے۔ کائنات کا اصول یہی ہے کہ ہر قیمتی چیز نایاب ہوا کرتی ہے۔ بنجر زمین لامحدود اور زرخیز زمین محدود ہے۔ گھاس پھونس کثیر اور ثمر بار درخت قلیل، کانٹے زیادہ اور پھول کم، ہیرے نایاب اور کنکر بے حساب ہوتے ہیں۔ آسمان پر ستارے بے شمار مگر چاند ایک ہی ہوتا ہے۔ اگر قیمتی چیزیں اتنی آسانی سے مل جایا کرتیں تو پھر اُن کی قدر کون کرتا۔ یہ انسانی فطرت ہے کہ جو چیز آسانی سے مل جاتی ہے اس کی قدر بالعموم کم ہوا کرتی ہے۔
انہیں دیدہ وروں میں سے ایک یکتائے روزگار شخصیت شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری کی ہے جن کے متعلق بجا طور پر کہا جا سکتا ہے کہ
؎مت سہل ہمیں سمجھو پھرتا ہے فلک برسوں
تب خاک کے پردے سے انسان نکلتا ہے
اس بات کو یوں سمجھا جا سکتا ہے کہ کچھ لوگ اپنے دور کے حوالے سے جانے جاتے ہیں جبکہ کچھ لوگوں کا دور اُن کے حوالے سے جانا جاتا ہے یعنی وہ اپنے عہد کی پہچان ہوتے ہیں۔ کچھ لوگ تاریخ کو یاد رکھنے والے ہوتے ہیں جبکہ کچھ لوگ تاریخ کو بنانے والے ہوتے ہیں کچھ لوگ تاریخ کے دھارے پر بہنے والے ہوتے ہیں جب کہ کچھ لوگ تاریخ کا دھارا موڑنے والے ہوتے ہیں۔ لوگوں کی اکثریت ٹرینڈ کے پیچھے چلنے والی ہوتی ہے مگر خال خال لوگ ہوتے ہیں جو ٹرینڈ بنانے والے ہوتے ہیں۔ بلاشبہ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمدطاہر القادری کا شمار ان گنے چنے نادر روزگار انسانوں میں کیا جا سکتا ہے جو اپنے عہد کی پہچان اور تاریخ ساز ہوتے ہیں۔ جھنگ کی زرخیز زمین پر متوسط گھرانے میں پیدا ہونے والا شخص مختصر سے عرصہ میں کس طرح اپنی خداداد صلاحیتوں کی بدولت عالمی سطح پر توجہ کا مرکز بن جاتا ہے اور شرق سے غرب تک دنیا اس کی عظیم شخصیت اور بے مثال کارناموں کا برملا اعتراف کرتی ہوئی دکھائی دیتی ہے۔ اپنے تو اپنے بیگانے بھی حتی کہ بدترین مخالف بھی اس کی علمی قابلیت اور کامیابیوں کے سامنے انگشت بہ دندان ہیں اور چار و ناچار انہیں تسلیم کرنے پر مجبور ہیں۔
دیدہ ور کے اوصاف اور شیخ الاسلام کی شخصیت
قرآن مجید کا کہنا ہے کہ اِنَّ اِبرٰهِيمَ كَانَ اُمَّةً (ابراھیم علیہ السلام ایک اُمت تھے )گویا حضرت ابراہیم علیہ السلام کی ایک شخصیت کو ایک اُمت یا جماعت کے برابر قرار دیا گیا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ بعض لوگ اپنی ذات میں اتنے جامع الصفات ہوتے ہیں کہ وہ اکیلے اتنا کام کر جاتے ہیں جو ایک جماعت کے لیے مل کر کرنا بھی ممکن نہیں ہوتا۔ جب اس معیار پر شیخ الاسلام کی ذات کو دیکھتے ہیں تو وہ اس میدان میں بہت نمایاں دکھائی دیتی ہے۔ وہ اپنے پیچھے اتنا علمی کام چھوڑ کر جا رہے ہیں جسے مستقبل کا مؤرخ کبھی فراموش نہیں کر سکے گااور تاریخ کے اوراق کی تابانی میں اضافہ کرتا رہے گا۔ دُنیا بھر میں پھیلے ہوئے اُن کے عظیم الشان علمی، اصلاحی اور فلاحی مراکز اوران کے ہزار ہا شاگرد جو مختلف ممالک میں دعوت و تبلیغ دین اور تعلیم و تربیت کا فریضہ سرانجام دے رہے ہیں، نیز ان کی ہزار کے لگ بھگ کتب جن میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے، یہ کوئی اتنی معمولی چیزیں نہیں ہیں جنہیں آسانی سے نظر انداز کیا جا سکے۔ علاوہ ازیں مختلف محاذوں پر ان کے کارنامے اتنے زیادہ ہیں جنہیں اختصار کے ساتھ شمار کرنے کے لیے بھی ایک ضخیم کتاب درکار ہے۔
دُنیا میں ایسی ہستیوں کی تعداد بہت کم ہے جنہوں نے اپنی مختصر زندگی میں ہمہ جہت علمی خدمات انجام دی ہوں۔ مطالعۂ تاریخ سے ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ ایک وقت میں ایک علم میں رسوخ و ثقاہت کے حامل اہل علم موجود رہے اور اپنے علم و فضل سے فکری اندھیروں میں بھٹکنے والوں کو روشنی فراہم کرتے رہے۔ مثلاً کہیں مفسرِ قرآن ملتے ہیں تو کہیں علمِ حدیث کے ماہر، کہیں اُصولِ فقہ کے ماہر علم الفقہ کے قوانین بیان کرتے ہوئے ملتے ہیں تو کہیں اہلِ تصوف روحانی و باطنی رازوں کو آشکار کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ علیٰ ھٰذا القیاس عام طور پر کوئی ایک فرد کسی ایک میدان میں ہی کامل ہوتا ہے۔ بہت کم شخصیات ایسی ہوتی ہیں جو جامع الصفات ہوتی ہیں اور بیک وقت مختلف علوم و فنون میں مہارت کی حامل ہوتی ہیں۔
شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری کا شمار نابغہ روزگار لوگوں کی اس فہرست میں اُن گنے چنے لوگوں میں کیا جا سکتا ہے جن کی شخصیت کو اللہ تعالی نے ہمہ جہت بنایا، غیر معمولی فہم و فراست اور بے پناہ صلاحیتوں سے نوازا اور پھر یہ توفیق بھی بخشی کہ وہ اپنی زندگی کے اندر اپنی فکر اور نظریہ کو قرطاسِ ابیض پر اُتاریں اوراسے لاکھوں کروڑوں لوگوں کے لیے رہنمائی کا ذریعہ بنا دیں۔ ان کی تصانیف علوم القران، علوم الحدیث، سیرت نبوی ﷺ ، علوم فقہ، تصوف، اخلاقیات، دعوت و تبلیغ، مکالمہ بین الادیان وغیرہ جیسے موضوعات پر مشتمل ہیں۔ علاوہ ازیں اُن کا قلم آئین، جمہوریت، عدل و انصاف، قانون، سیاست، معیشت اور معاشرت وغیرہ جیسے موضوعات پر بھی چلا اور خوب چلا۔ اپنوں کے ساتھ ساتھ مخالفین بھی عش عش کر اٹھے۔ بالخصوض ترجمہ عرفان القران، قرانی انسائیکلوپیڈیا اور مجموعہ احادیث وہ نادر و نایاب علمی کارنامے ہیں جو اُن کی کتابِ زندگی میں سنہری حروف سے لکھے جائیں گے۔
دیدہ ور کی ایک خوبی یہ بھی ہوتی ہے کہ وہ اپنے زمانے کے حالات پر پوری طرح نگاہ رکھنے کے ساتھ ساتھ مستقبل میں بھی جھانک لیتا ہے۔ وہ آنے والے زمانوں اور حالات کا ادراک اُن کے آنے سے پہلے کر لیتا ہے اور اِن کے مطابق انتظام بھی کر لیتا ہے۔ صرف ایک مثال سے شیخ الاسلام کی بصیرت اور دور اندیشی کا اندازہ لگائیں کہ 1980 کی دہائی میں جب ہمارے ہاں ایک طبقہ تو باقاعدہ تصویر کو حرام سمجھتے ہوئے اس کی سخت مخالفت کرتا تھا اور ویڈیو کو ناجائز سمجھتے ہوئے طرح طرح کے فتوے لگاتا تھا، بعض لوگ تو ٹی وی تڑوا کر خوش ہوتے تھے۔ عام طور پر بھی دینی پروگراموں میں تصویر کشی یا ویڈیو کو اچھا نہیں سمجھا جاتا تھا۔ اس زمانے میں یہ دیدہ ور شخص آنے والے دور کے تقاضوں کو دیکھ رہا تھا اور مسجد میں بیٹھ کر اپنے لیکچرز اور خطابات کی باقاعدہ ویڈیو ریکارڈنگ کروا رہا تھا۔ چند سال نہ گزرے کہ مخالفین کی سمجھ میں بھی یہ بات آگئی اور آج تمام لوگ بڑے ذوق و شوق سے یہ کام کر رہے ہیں۔ یہ بات وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ دعوت و تبلیغ اور اشاعت دین میں جدید ٹیکنالوجی اور سوشل میڈیا وغیرہ کو جس بھرپور انداز میں تحریک منہاج القران نے استعمال کیا ہے کوئی دوسری جماعت یا تنظیم اس کی برابری کا دعوٰی نہیں کر سکتی۔
شیخ الاسلام کی شخصیت اور ان کے اوصاف کو اگر ایک جملہ میں بیان کرنا چاہوں تو یوں کہوں گا کہ ان کا انداز مدبرانہ، اسلوب محققانہ، تحریر مفکرانہ اور رنگ صوفیانہ ہے۔
شخصی اور دینی اخلاقیات کا حسین امتزاج
دین کی دعوت اور ترویج و اشاعت کے لیے جدوجہد کرنے والوں میں بالعموم (لا ماشاءاللہ) ایک فطری کمزوری یہ پائی جاتی ہے کہ ان کے علم اور عمل میں بہت زیادہ فاصلہ ہوتا ہے اور قول اور فعل میں نمایاں تضاد ہوتا ہے۔ یہ چیز دعوت کی اثر انگیزی کو بہت کم کر دیتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بڑی بڑی خوبصورت تقریریں کرنے والوں سے باہر کے لوگ تو کچھ متاثر ہو جائیں، ان کے اپنے گھر والے عموماً متاثر نہیں ہوتے۔ قرآن و حدیث میں اس روش کو سخت ناپسند کرتے ہوئے اس سے سختی سے منع کیا گیا ہےاور اس پر باقاعدہ وعیدیں سنائی گئی ہیں۔ علم و عمل اور قول و فعل میں کامل یکسانیت تو انبیاء کرامؑ کا خاصہ ہے۔ دیگر انسانوں میں بشری کمزوریوں کے پیش نظر کچھ نہ کچھ کمی ہو سکتی ہے۔ تاہم اس تضاد کو فطری حدود میں رہنا چاہیے۔ جب یہ تضاد ایک حد سے زیادہ بڑھتا ہے تو پھر تبلیغ بھی ایک مذاق بن کر رہ جاتی ہے۔
شیخ الاسلام کی شخصیت کا ایک انتہائی خوبصورت پہلو جس نے ان کی شخصیت کے حسن کو چار چاند لگا دیے ہیں اور ان کی تحریر و تقریر کی اثر اندازی میں بے پناہ اضافہ کر دیا ہے، وہ یہ ہے کہ ان کی تعلیمات میں خود ان کی اپنی شخصیت جھلکتی ہوئی دکھائی دیتی ہیں۔ وہ لوگوں کو جن اخلاقِ حسنہ کی ترغیب دیتے ہیں، خود اپنی ذات کو ان اوصاف کے سانچے میں ڈال رکھا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا میں کروڑوں لوگ ان کی شخصیت و کردار اور تقریر و تحریر کے گرویدہ ہیں اور انہیں اپنے لیے ایک جیتا جاگتا عملی نمونہ(Role Model) سمجھتے ہوئے ان کی اداؤں اور مثبت اوصاف کو اپنانے میں خوشی محسوس کرتے ہیں۔
اس معاملے کا ایک اور دلچسپ پہلو یہ ہے کہ اخلاقیات کا تجزیہ کرتے ہوئے انہیں دو بڑے شعبوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے:
(۱)شخصی اخلاقیات
شخصی اخلاقیات سے مراد وہ اوصاف ہیں جن پر انسان کے اخلاقی وجود کی اساس قائم ہے۔ ان میں وہ تمام صفات شامل ہیں جو دنیا میں انسان کی کامیابی کے لیے بہرحال شرطِ لازم ہیں۔ قطع نظر اس بات کے کہ وہ صحیح مقصد کے لیے کا م کر رہا ہے یا غلط مقصد کے لیے۔ ان اخلاقیات میں اس سوال کا کوئی عمل دخل نہیں ہے کہ آدمی مومن ہے یا کافر، نیک ہے یا بد، خدا ، وحی اور آخرت کو مانتا ہے یا نہیں، طہارتِ نفس، نیتِ خیر اور عمل صالح سے آراستہ ہے یا نہیں۔ جو شخص اور جو گروہ بھی اپنے اند ر وہ اوصاف پیدا کرلے گا، جو دنیا میں کامیابی کے لیے نا گزیر ہیں تو وہ یقیناً کامیاب ہوگا اور اُن لوگوں سے بازی لے جائے گا جو ان اوصاف کے لحاظ سے اس کے مقابلے میں ناقص ہوں گے۔ انہیں بنیادی انسانی اخلاقیات بھی کہا جاسکتا ہے۔
ان اوصاف میں خود اعتمادی، قوتِ ارادی، مستقل مزاجی، ضبّطِ نفس، استقلال، تحمل، برداشت، عزم، حوصلہ، صبرو ثبات، برداشت، ہمت، شجاعت، مستعدی، جفاکشی، حزم و احتیاط، معاملہ فہمی و تدبر وغیرہ جیسی خوبیاں شامل ہیں۔ یہ ہیں وہ اخلاقیات جنہیں بنیادی اخلاقیات کے لفظ سے تعبیر کیا گیا ہے کیونکہ فی الوقع یہی اخلاقی اوصاف انسان کی اخلاقی طاقت کا اصل منبع ہیں اور انسان کسی مقصد کے لیے بھی دنیا میں کامیاب نہیں ہو سکتا جب تک معقول حد تک یہ اوصاف اُس کے اندر موجود نہ ہوں۔ ان اخلاقیات کی مثال ایسی ہے جیسے فولاد کہ وہ اپنی ذات میں مضبوطی و استحکام رکھتا ہے اور اگر کوئی کارگر ہتھیا ربن سکتا ہے تو اسی سے بن سکتا ہے۔ قطع نظر اس سے کہ وہ غلط مقصد کے لیے استعمال ہو یا صحیح مقصد کے لیے۔ فرعون، نمرود، شداد، چنگیزخان، ہلاکو خاں، نپولین بونا پارٹ اور ہٹلر جیسے لوگوں کو ان شخصی اوصاف میں سے ایک وافر حصہ ملا تھا۔ یہ الگ بات ہے کہ اُن کے سامنے کوئی مثبت مقصد نہیں تھا جس کی بنا پر اُن کی صلاحیتیں تخریبی مقاصد کے لیے استعمال ہوتی رہیں۔ اسی نکتے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے حضور علیہ السلام نے فرمایا:۔
فخياركم في الجاهلية خياركم في الإسلام إذا فقهوا
’’پس تم میں سے جو جاہلیت میں بہتر تھے وہ اسلام میں بھی بہتر ہیں جب کہ وہ سوجھ بوجھ
رکھتے ہوں۔ ‘‘
مطلب یہ کہ زمانہ جاہلیت میں جو لوگ اپنے اندر جو ہر ِ قابل رکھتے تھے وہی زمانۂ اسلام میں مردانِ کار ثابت ہوئے۔ فرق صرف یہ ہے کہ اُن کی قابلیتیں اور صلاحتیں پہلے غلط راہوں میں استعمال ہو رہی تھیں اور اسلام نے آکر انہیں صحیح راہ پر لگا دیا۔ مگر بہر حال ان اوصاف سے خالی انسان نہ جاھلیت کے کسی کام کے تھے اور نہ ہی اسلام کے لیے کارہائے نمایاں سرانجام دے سکتے تھے۔
(۲) دینی اخلاقیات
اخلاقیات کا دوسراشعبہ وہ ہے جسے دینی اخلاقیات سے تعبیر کیا جا سکتا ہے۔ ان میں انسانی سیرت اور کردار سے متعلقہ وہ تمام خوبیاں اور اوصاف شامل ہیں جن کو قرآن و حدیث میں بیان کیا گیا ہے اور اُنہیں اپنا نے کی تاکید کی گئی ہے۔ مثلاً: خود داری، فیاضی، رحم دلی، ہمدردی، انصاف پسندی، وسعتِ قلب و نظر، تقویٰ، صبر، سچائی، امانت و دیانت، راست بازی، عہدکی پابندی، معقولیت، شائستگی، اعتدال و توازن اور طہارت و نظافت وغیرہ۔ غور سے دیکھا جائے تو یہ تمام اخلاقی فضائل بنیادی اخلاقیات سے الگ نہیں ہیں بلکہ اُنہی کی تصحیح، تکمیل اور اعلیٰ ترین صورت ہیں۔
ہمارے ہاں دینی طبقہ میں عام طور پر اول الذکر اخلاقیات کو کوئی خاص اہمیت نہیں دی جاتی اور زیادہ زور دوسری قسم کے اخلاق کو اپنانے پر دیا جاتا ہے۔ حالانکہ شخصیت کی تعمیر و ترقی کے لیے دونوں اقسام کا ہونا ضروری ہے۔ اللہ تعالی نے شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی ذات کو اخلاق کی ان دونوں اقسام کا خوبصورت مرقع بنایا ہے۔ اس چیز نے ان کی شخصیت میں بلا کی جاذبیت، دلکشی اور سحر انگیزی پیدا کر دی ہے جس بنا پر دنیا بھر میں بے شمار لوگ ان سے والہانہ محبت کرتے ہیں۔ ان کی شخصیت کی اثر انگیزی اور تعلیم و تربیت کے زیر اثر ان اوصاف کی جھلک ان کے چاہنے والوں اور پیروکاروں میں بھی دکھائی دیتی ہے۔
اخلاقی بحران کے حل کے لیے شیخ الاسلام کی کاوشیں
شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری کے اس مختصر مگر جامع تعارف کے بعد آیئے اب
اس امر کا جائزہ لیتے ہیں کہ عصرِ حاضر کے ہمہ جہتی اخلاقی بحران کے سدِّباب کے لیے
شیخ الاسلام نے علمی اور عملی سطح پر کیا اقدامات فرمائے:
شیخ الاسلام کی حقیقت شناس اور دور رس نگاہوں نے اس معاشرے کے ہر طبقہ کے اندر موجود
اخلاقی بحران کی تباہ کاریوں کے پیشِ نظر اس کا سدِّباب کرنے کی اہمیت اور نزاکت کو
محسوس کیا اور اپنی تحریر و تقریر اور دیگر عملی صلاحیتوں کو بھرپور انداز میں استعمال
میں لاتے ہوئے اصلاح کی بھرپور کوششیں کیں جن کے مثبت نتائج کھلی آنکھوں سے دکھائی
دے رہے ہیں۔ ان کے نزدیک اس مسئلے کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ
انہوں نے تحریک منہاج القران کا آغاز کیا تو اپنی دعوت کی بنیاد تعلق باللہ، ربطِ رسالت،
رجوع الی قران، اتفاق و اتحاد امت اور فروغِ علم و امن کو قرار دیا۔ یہ وہ مختصر مگر
جامع ایجنڈا ہے جس کا ایک ایک نقطہ اخلاقی بحران کے خاتمے میں موثر کردار ادا کر سکتا
ہے۔ اس نسخہ کیمیا پر اس کی روح کے ساتھ عمل کر لیا جائے تو انفرادی سطح سے لے کر اجتماعی
سطح تک اخلاقی بگاڑ کا مسئلہ حل کیا جا سکتا ہے اور امت مسلمہ کو پھر سے ایک ایسی جاندار
اور مؤثر قوت بنایا جا سکتا ہے جو اقوام عالم کی قیادت اور سیادت کے منصب پر فائز ہو
سکے۔
اخلاقی بحران کے حل کے لیے یوں تو شیخ الاسلام نے متعدد علمی و عملی اقدامات فرمائے، لیکن زیرِ نظر سطور میں ان میں سے صرف دو اہم اقدامات؛ ’’تعلیمی اصلاحات‘‘ اور ’’سیاسی نظام کی اصلاح کے لیے اقدامات‘‘ کو بیان کیا جارہا ہے۔ (اس حوالے سے شیخ الاسلام کے بقیہ اقدامات اسی خصوصی شمارہ کے دیگر مضامین میں ذکر کیے گئے ہیں)۔
(۱) تعلیمی اصلاحات
کسی بھی فرد یا قوم کی اصلاح کا نقطۂ آغاز علم ہی ہے۔ ظاہر و باطن کی اصلاح ہو یا عقیدہ و عمل کی، معاملات کی ہو یا اخلاق کی، ہر طرح کی اصلاح کے لیے بنیادی مواد، لائحہ عمل اور روڈ میپ ’’علم ِصحیح‘‘ فراہم کرتا ہے۔ دوسری طرف ہمارے ملک میں رائج نظامِ تعلیم کو دیکھیں تو اس میں اتنی ساری خامیاں اور برائیاں ہیں جنہوں نے نظام تعلیم کو تباہ و برباد کر کے رکھ دیا ہے۔ اس کے نتیجے میں نسلِ نو کے اخلاق بڑی تیزی سے بگڑ رہے ہیں۔
شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری نے اس ضمن میں نہایت قابلِ ذکر کارنامے سرانجام دیے۔ اس ضمن میں ان کی خدمات انتہائی شاندار، محیرالعقول اور کثیر الجہات ہیں:
ایک طرف تو انہوں نے اپنے بے شمار مدلل، پُر اثر اور سحر انگیز خطابات کے ذریعے ایک زمانے کو متاثر کیا اور لاکھوں کروڑوں افراد کی ذہن سازی کی اور ان کے اخلاق و کردار کی اصلاح کی۔ یہ تقریری سرمایہ پوری طرح محفوظ ہے اور آنے والے زمانے میں بھی لوگوں کے قلوب و اذہان کو متاثر کرتا رہے گا۔
دوسری طرف آپ نے فروغِ علم کے لیے متنوع موضوعات پر اتنی زیادہ کتابیں لکھیں جنہیں دیکھ کر انسان ورطہ حیرت میں مبتلا ہو جاتا ہے کہ ایک فردِ واحد اپنی دیگر بے شمار مصروفیات کے ساتھ اتنا زیادہ تحریری کام کیسے کر لیتا ہے؟ ان کتابوں کا اسلوب انتہائی جاندار، مدلل اور محققانہ ہے اور ہر کتاب ایک مستند حوالہ کی حیثیت رکھتی ہے۔ یہ شاندار تحریری سرمایہ بھی موجودہ نسل کے بے شمار لوگوں کی علمی تشنگی کو بجھانے، شکوک و شبہات کو رفع کرنے اور الجھی ہوئی گرہوں کو سلجھانے کے ساتھ ساتھ آئندہ آنے والی نسلوں کے لیے بھی ایک لازوال علمی خزانے کی حیثیت سے محفوظ رہے گا اور مستقبل کا مصنف یا محقق ان موضوعات پر لکھتے ہوئے ان کتابوں سے صرفِ نظر نہیں کر سکے گا۔
درج بالا تعلیمی خدمات کے ساتھ اس ضمن میں ان کا تیسرا بڑا اور شاندار کارنامہ ہے معیاری تعلیمی اداروں کا قیام ہے۔ جامعہ اسلامیہ منہاج القرآن کے منصوبے سے شروع ہونے والا تعلیمی سفر آج ہزاروں تعلیمی اداروں کی شکل اختیار کر چکا ہے۔ پاکستان سمیت پوری دنیا میں اسلامی مراکز، کمیونٹی سینٹرز اور تعلیمی ادارے قائم کیے گئے ہیں۔ جو ہر ملک میں بے شمار لوگوں کو علم و حکمت کے نور سے منور کرتے ہوئے ان کی فکری، اخلاقی اور روحانی اصلاح کا کام بخوبی سرانجام دے رہے ہیں۔ براعظم ایشیا، یورپ، افریقہ، امریکہ، آسٹریلیا کے متعدد ممالک میں تعلیمی اور اسلامی مراکز قائم کیے گئے ہیں۔
منہاج یونیورسٹی، منہاج ایجوکیشن سوسائٹی(MES) کے تحت چلنے والے سیکڑوں تعلیمی ادارے، لارل ہوم انٹرنیشنل سکولز کے نام سے جدید طریقہ تعلیم پر مبنی سیکڑوں سکولز، آغوش اور فن کیئر ہوم نیز فروغِ علم کے لیے قائم کی جانے والی جدید لائبریریوں پر مشتمل ہزارہا اداروں کی صورت میں یہ عالمگیر تعلیمی و دعوتی انفراسٹرکچر ہے جو گراس روٹ لیول سے لے کر علم کی بلند ترین سطح تک جہالت کی تاریکیاں ختم کرنے اور نورِ علم کو پھیلانے میں مصروفِ عمل ہے۔
تعلیم کے میدان میں شیخ الاسلام کی دو باتیں ایسی ہیں جن کو بطور خاص الگ سے ذکر کرنا ضروری ہے:
(i)تعلیمی ثنویت کا خاتمہ
آج سے چار دہائیاں قبل پیچھے جا کر دیکھیں تو ہمیں دو قسم کے نظامِ تعلیم دکھائی دیتے ہیں جن میں تقسیم اور تفریق واضح ہے۔ ایک طرف قدیم مدرسے کا ماحول تھا جہاں دینی تعلیم مکمل طور پر روایتی انداز میں دی جا رہی تھی۔ اہلِ مدرسہ کا جدید تعلیم سے کچھ لینا دینا نہیں تھا۔ دوسری طرف جدید تعلیمی ادارے تھے جہاں دنیاوی اور سائنسی علوم پڑھائے جا رہے تھے۔ ان کا دینی علوم کے ساتھ تعلق تقریباً نہ ہونے کے برابر تھا۔ یہ روش قوم کو واضح طور پر دو طبقوں میں تقسیم کیے ہوئے تھی۔
شیخ الاسلام کی مجتہدانہ بصیرت نے اس نظامِ تعلیم کے منفی اثرات کو محسوس کرتے ہوئے اس خلیج کو پُر کرنے کا فیصلہ کیا۔ چنانچہ آپ نے جو تعلیمی ادارے قائم کیے، ان میں دینی علوم اور عصری علوم کو بڑی خوبصورتی سے یکجا کر دیا۔ نیز دینی علوم میں بھی قدامت پسندی کا جو پہلو تھا اس کی بڑی حد تک اصلاح کی۔ آج اس کا نتیجہ ہے کہ اس رجحان کو بہت پذیرائی مل رہی ہے اور مداراس میں دینی علوم کے نصاب میں جدت کے ساتھ ساتھ عصری علوم بھی شامل ہو رہے ہیں جس کے بہرحال مثبت اثرات بھی دکھائی دے رہے ہیں۔ اس سارے معاملے کا ابتدائی سہرا بلا شبہ شیخ الاسلام کے سر پر ہے۔
(ii) تعلیم مع تربیت
تعلیم اور تربیت دو قریب المفہوم الفاظ ہیں۔ دونوں کے معنی و مفہوم میں انسان میں چھپے ہوئے پوشیدہ جوہر کو نکالنا، اس کی صلاحیتوں کو نکھارنا اور نظامِ کائنات میں اسے اپنا مخصوص و منفرد کردار بھرپور اور موثر طریقے سے سرانجام دینے کے لیے تیار کرنا ہے۔ تاہم ان میں کسی درجے میں فرق بھی ہے۔ تعلیم کا تعلق زیادہ تر علم اور مہارتوں کو منتقل کرنے سے ہے جبکہ تربیت کا تعلق بطور خاص کردار سازی سے ہے۔ ماضی میں تو یہ دونوں زیادہ تر ایک ہی معنی میں استعمال ہوتے تھے اور ان کا مفہوم بہت سادہ سا تھا۔ تاہم صدیوں کی مسافت نے نظامِ تعلیم پر جو اثرات مرتب کیے ہیں انہوں نے تعلیم کو تربیت سے بالکل الگ کر کے اسے ایک جداگانہ حیثیت دے دی ہے۔
شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری نے تعلیم کے ساتھ تربیت کی ضرورت اور ناگزیریت کو محسوس کرتے ہوئے تعلیم کے ساتھ تربیت کا ایک مؤثر نظام وضع کیا جس نے قلوب و اذہان کو بدلنے اور اخلاق و کردار کی اصلاح کے حوالے سے بہت وسیع پیمانے پر مثبت اثرات مرتب کیے۔ تحریک منہاج القران کے قیام کے آغاز سے ہی شب بیداریوں کا ایک وسیع و عریض سلسلہ، مرکز میں گوشہ درود اور جگہ جگہ حلقہ ہائے درود کا انعقاد، ہر سال رمضان المبارک میں مرکز میں ہزارہا لوگوں کا اجتماعی اعتکاف اور اس میں شیخ الاسلام کے تربیتی اور اصلاحی خطابات، دروس قرآن کا وسیع و عریض سلسلہ اور محافل میلاد ونعت کا گھر گھر انعقاد، وہ چیزیں ہیں جن کے نتیجے میں پاکستان سمیت دنیا بھر میں لاکھوں کروڑوں لوگوں کی زندگیاں بدلیں اور ان کے اخلاق کی اصلاح ہوئی۔
(۲)سیاسی نظام کی اصلاح کے لیے اقدامات
اصلاح کے ضمن میں ایک اہم سوال یہ ہے کہ جب پورا معاشرہ ہی عمومی طور پر بگاڑ کا شکار ہو چکا ہو۔ حکمرانوں سے لے کر رعایا تک اور عوام سے لے کر خواص تک ہر طبقہ ہی اخلاقی انحطاط کی زد میں آ چکا ہو اور کوئی شعبہ بھی اس سے محفوظ نہ رہا ہو تو پھر اصلاح کا نقطہ آغاز کیا ہونا چاہیے؟ کس طبقے کی ذمہ داری ہےکہ وہ آگے بڑھے اور معاشرے کی اصلاح کے لیے اپنی ضروری کردار ادا کرے؟ امام غزالیؒ نے اپنے زمانہ کے اخلاقی بگاڑ پر بہت غور و فکر کیا۔ ان کے سامنے سب سے مقدم اور قابلِ غور مسئلہ یہ تھا کہ معاشرہ میں پھیلی ہوئی بد اخلاقیوں کا ذمہ دار کون ہے یا ان کا اصلی مخرج کیا ہے؟ قوم اور اجتماعی زندگی کا ہر شعبہ ان کے سامنے ایک کھلی کتاب کی طرح تھا۔ سلاطین، وزرا ، اُمراء، علماء اورصوفیا میں سے وہ ہر طبقے کو جانتے تھے اور اس طرح قریب سے انہیں دیکھ چکے تھے کہ ان کا کوئی اخلاقی پہلو امام صاحب کی نظروں سے اوجھل نہیں رہ گیا تھا۔ چنانچہ اپنے عمیق مشاہدے، تجربے اور غور و فکر کے بعد وہ جس نتیجے پر پہنچے، وہ ان کے اپنے الفاظ میں یوں ہے :
وفساد الرعایا لفساد الملوک وفساد الملوک بفساد العلماء و فساد العلماء باستیلاء حب المال و الجاہ۔
’’رعایا اس وجہ سے ابتر ہو گئی کہ سلاطین کی حالت بگڑ گئی اور سلاطین کی حالت اس وجہ سے بگڑی کہ علماء کی حالت بگڑ گئی اور علماء کی خرابی اس وجہ سے ہے کہ جاہ و مال کی محبت ان کے دلوں میں سرایت کر گئی۔ ‘‘
امام غزالی کا یہ تجزیہ اتنا درست اور حقیقت پسندانہ ہے کہ جس طرح ان کے زمانے کے حالات پر صادق آتا ہے، اسی طرح آج کے دور اور بعد میں آنے والے ادوار کے لیے بھی اس کی صحت سے انکار مشکل ہے۔ اس نقطہ کو قران مجید کی روشنی میں بھی سمجھا جا سکتا ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ انبیاء کرام ؑبالعموم اپنی قوم کے لیڈرز اور سرداروں سے مخاطب ہو کر انہیں دعوتِ حق دیتے ہیں۔ وجہ یہی ہے کہ ایک ایک بڑے کے زیر اثر کئی عام اور چھوٹے لوگ ہوتے ہیں جو فکری حوالے سے اس سے مرعوب ہوتے ہیں۔ چنانچہ ایسے کسی ایک شخص کا دعوتِ حق کو قبول کر لینا کئی لوگوں کے ہدایت یافتہ ہونے کے مترادف ہوتا ہے۔ پھر قرآن یہ بھی بتاتا ہے کہ انبیاء کرامؑ کو جھٹلانے والے لوگ زیادہ تر قوم کے بڑے لوگ ہوتے ہیں جن کا اثر پھر عام لوگوں پر بھی پڑتا ہے۔ جیسا کہ موسی علیہ السلام کے معاملے میں قرآن بتاتا ہے کہ حضرت موسی علیہ السلام کی کوششوں کے باوجود بہت کم لوگ ایمان لائے۔ اس کی وجہ فرعون کا ڈر اور خوف تھا:
فَمَآ اٰمَنَ لِمُوْسٰٓی اِلاَّ ذُرِّیَّۃٌ مِّنْ قَوْمِہٖ عَلٰی خَوْفٍ مِّنْ فِرْعَوْنَ وَمَلَاْئِہِمْ اَنْ یَّفْتِنَہُمْ۔
(یونس، ۱۰: ۸۳)’’ پس موسیٰ (علیہ السلام) پر ان کی قوم کے چند جوانوں کے سوا (کوئی) ایمان نہ لایا، فرعون اور اپنے (قومی) سرداروں (وڈیروں) سے ڈرتے ہوئے کہ کہیں وہ انہیں (کسی) مصیبت میں مبتلا نہ کر دیں۔ ‘‘
اس بات کی طرف اشارہ عربی زبان کے اس مشہور قول میں بھی کیا گیا ہے۔ الناس علی دین ملوکھم ’’لوگ اپنے بادشاہوں کے دین پر ہوتے ہیں۔ ‘‘
امام غزالیؒ کی فکر کے خوشہ چیں اور اپنے زمانے پر مجددانہ نظر رکھنے والے شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری نے جب اپنے زمانے کے حالات اور قومی و ملکی سطح پر زندگی کے ہر شعبہ میں بگاڑ اور انحطاط کو دیکھا تو وہ اس نتیجے پر پہنچے کہ اس سارے بگاڑ کی بڑی وجہ اس ملک میں رائج فرسودہ، ناکارہ، کرپٹ اور ظالمانہ نظام ہے جس سے مستفیض ہونے والے ملک و قوم پر مسلط ہیں اور ملکی وسائل کو گِدھوں کی طرح نوچ رہے ہیں جس کے اثرات قومی زندگی کے ہر شعبہ میں سرایت کر رہے ہیں۔ شیخ الاسلام نے حضور علیہ السلام کے فرمان افضل الجہاد کلمۃ عدل عند سلطان جائز (بہترین جہاد جابر سلطان کے سامنے کلمہ حق کہنا ہے) پر عمل پیرا ہوتے ہوئے اس ظالمانہ، فاسقانہ اور فاجرانہ نظام کو للکارنے کا فیصلہ کیا۔ 1989ء میں پاکستان عوامی تحریک کے نام سے سیاسی جماعت بنا کر سیاست کے ٹھہرے ہوئے تالاب میں ہلچل پیدا کر دی۔ ان کا کوچۂ سیاست میں قدم رکھنا ملک میں جاری سیاسی نظام کے لیے اتنا بڑا بھونچال تھا کہ سالہا سال سے ملک و قوم کی گردن پر سوار مافیاز کی نیندیں اڑ گئیں اور وہ آپس کی دشمنیاں بھول کر اپنی سیاسی بقا کے لیے ایک ہو گئے۔ کل تک ایک دوسرے کو ملک دشمن کےطعنے دینے اور سیکیورٹی رسک قرار دینے والے باہم شیر و شکر ہو گئے۔ اس کے بعد جو ہوا وہ تاریخ کا حصہ ہے۔
شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری نے سیاسی میدان میں بھی اپنی انفرادیت برقرار رکھی۔ ان سے پہلے دینی و مذہبی طبقہ کے ہاں دو قسم کے طرز عمل دکھائی دیتے ہیں۔ ایک طبقہ وہ تھا جو سیاست کو ایک گھناؤنا کھیل سمجھتے ہوئے اس سے کوسوں دور رہتا تھا جبکہ دوسرا طبقہ وہ تھا جو سیاست کے میدان میں آیا تو پھر نمک کی اس کان میں نمک بن کر رہ گیا لیکن شیخ الاسلام نے اس نظام کو بھرپور انداز میں للکارنے اور اس میں پوری طرح شامل ہونے کے باوجود خود کو اس کی قباحتوں سے بچائے رکھا۔ اس میدان میں ان کی جدت و ندرت کو سمجھنے کے لیے صرف ایک واقعہ کی طرف اشارہ کافی ہے کہ 2002 میں منعقد ہونے والے عام انتخابات میں وہ قومی اسمبلی کے ممبر بن گئے۔ جب انہوں نے دیکھا کہ ممبرانِ اسمبلی تو صرف اپنے مفادات کے اسیر ہیں، ان کے پاس تو ملک و قوم کے مسائل کے حل کا ویژن ہی نہیں اور نہ ہی انھیں اس سے کوئی سروکار ہے۔ ملک و قوم کے بڑے بڑے فیصلےاسمبلی کے فلور پر نہیں بلکہ کہیں اور ہوتے ہیں، یہ تو صرف حکم کے پابند اور غلام ہیں۔ چنانچہ یہ سوچ کر کہ وہ اپنی انفرادی حیثیت میں اس فورم پر ملک و قوم کے لیے چاہنے کے باوجود کوئی کردار ادا نہیں کرپائیں گے تو انہوں نے اس فرسودہ نظام کا حصہ بننے سے انکار کرتے ہوئے اسمبلی کی رکنیت سے استعفیٰ دے دیا۔
ان کا یہ قدم اس کرپٹ نظام کے منہ پر اتنا بڑا طماچہ تھا جس کی مثال پاکستان کی پوری تاریخ میں دکھائی نہیں دیتی۔ یہ وہی قومی اسمبلی کی رکنیت ہے جسے حاصل کرنے کے لیے لوگ کیسے کیسے حربے اختیار کرتے ہیں اور بعض اوقات تو دین و ایمان کو داؤ پر لگانے سے بھی گریز نہیں کرتے اور تمام اخلاقی حدود و قیود کو پامال کرنے پر تیار ہو جاتے ہیں۔
بعد ازاں اکیسویں صدی کی دوسری دہائی میں اس نظام پر ایک اور کاری ضرب لگانے کے لیے مختلف اوقات میں دو عدد لانگ مارچ کیے جن کے اختتام پر دھرنے بھی شامل تھے۔ دونوں مرتبہ لاکھوں لوگ والہانہ جذبوں کے ساتھ ان کے رفیق سفر بنے۔ ان دھرنوں کی بھی کوئی دوسری نظیر پاکستان کی تاریخ میں نہیں ملتی۔ ان دھرنوں نے پاکستان کے فرسودہ سیاسی نظام کی بنیادوں تک کو ہلا کر رکھ دیا مگر اقتدار پر براہ راست اور بالواسطہ طور پر مسلط تمام طبقات کے گٹھ جوڑ اور پوری ریاستی مشینری کے ظالمانہ، جابرانہ اور قاہرانہ ظلم و بربریت اور وحشت و درندگی نے مطلوبہ نتائج تک نہ پہنچنے دیا۔
حصول مقصد میں بظاہر کامیابی تو حاصل نہ ہو سکی مگر اس ساری جدوجہد کا ایک بہت بڑا فائدہ یہ ہوا کہ قوم کو ایک سیاسی شعور مل گیا اور وہ جان گئی کہ ان کے حقوق کیا ہیں اور کون کون سے طبقات ان کے حقوق کو غصب کر کے ان کے سروں پر ظلم و زیادتی اور ناانصافی پر مبنی اس نظام کو قائم رکھے ہوئے ہیں۔ آج ملکی اور قومی سطح پر سیاسی حوالے سے جو بیداری اور شعور عوام میں دکھائی دے رہا ہے، یہ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری کا مرہون منت ہے۔
حرفِ آخر
سطور بالا میں جو کچھ بیان کیا گیا ہے وہ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری کی شخصیت اور کام کے ان گنت پہلوؤں میں سے صرف ایک پہلو کے متعلق سرسری سا جائزہ ہے۔ ان کی اخلاقی تعلیمات میں انفرادی سطح سے لے کر بین الاقوامی سطح تک اخلاقی بگاڑ کا حل موجود ہے اور یہ سب کچھ قرآن اور حدیث کی تعلیمات سے ہی اخذ شدہ ہے، کوئی الگ چیز نہیں ہے۔ فراز کا ایک شعر ہے؎
عمر بھر سنگ زنی کرتے رہے اہل ِ وطن
یہ الگ بات ہے دفنائیں گے اعزاز کے ساتھ
یہی کچھ اس دیدہ ور اور نابغۂ عصر کے ساتھ ہو رہا ہے۔ جہاں بے شمار لوگ جان نچھاور کرنے والے موجود ہیں، وہاں خدا واسطے کا بیر رکھنےاور مخالفت برائے مخالفت کرنے والوں کی بھی کمی نہیں ہے۔ تاریخ کی یہ کتنی بڑی ستم ظریفی ہے کہ ماضی کے بزرگوں کے قصیدے پڑھنے والے حال کے بزرگ کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیتے ہیں۔ اس میں زیادہ عمل دخل معاصرانہ چشمک کا ہوتا ہے۔ حال کے بزرگ کو ماننے کے لیے خود کو چھوٹا سمجھنا پڑتا ہے اور یہی وہ قربانی ہے جو ہر دور کے لوگ کے لیے خاصی مشکل رہی ہے۔ مبارک ہے وہ دور جس کی فضاؤں میں صدیوں کی ذہانت و دانائی کو اپنے سینے میں سموئے ہوئے یہ دیدہ ور شخص سانس لے رہا ہے اور خوش نصیب ہیں وہ لوگ جو اسے پہچان کر اس کی صحبت اور تعلیم و تربیت سے استفادہ کر رہے ہیں۔
اللہ تعالی اس چشمۂ علم و حکمت کو تادیر سلامت رکھے اور اس کی ضوفشانیوں کو ابد الآبادتک قائم و دائم رکھے۔ آمین بجاہ سیدالمرسلین ﷺ