سوشل میڈیا اور نوجوانوں کی رہنمائی میں شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کا نقطۂِ نظر: عبدالستار منہاجین
شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری عصرِ حاضر کے جلیل القدر اسلامی سکالر ہیں، جو نوجوانوں کی فکری، اَخلاقی اور روحانی تربیت کیلئے عالمگیر سطح پر بھرپور خدمات سر انجام دے رہے ہیں۔ اُن کا نقطۂ نظر نوجوان نسل کی رہنمائی اور سوشل میڈیا کے تعمیری اِستعمال کے حوالے سے نہایت متوازن اور رہنما اُصول فراہم کرتا ہے۔شیخ الاسلام نے تحریک منہاج القرآن کو جدید تقاضوں کے مطابق ایک ہمہ جہت دعوتی اور اِشاعتی تحریک کے طور پر اُستوار کیا ہے۔ اُنہوں نے تاجدارِ کائنات ﷺ کے پیغام کو عصرِ جدید کی ضروریات کے مطابق مؤثر اور منفرد انداز میں دنیا کے سامنے پیش کرنے کی سرپرستی کی اور اسے وسعت دی۔
منہاج القرآن کو اس بات کا اِمتیاز بھی حاصل ہے کہ اس نے 1980ء کی دہائی میں اپنے تمام دعوتی، تنظیمی اور اشاعتی نظام کو کمپیوٹرائزڈ کر لیا تھا۔ یہ وقت وہ تھا جب کمپیوٹر اور انٹرنیٹ کا عام فہم میں کوئی تصور بھی موجود نہ تھا۔ اس کے علاوہ تحریک منہاج القرآن نے اپنی ویب سائٹ کا اِجرا بھی اُس دور میں (1994ء) کیا جب پاکستان میں اکثریت نے انٹرنیٹ کا نام بھی نہیں سنا تھا۔ یہ اِقدام تحریک کے جدت پسند اور بصیرت افروز وژن کا مظہر ہے۔
شیخ الاسلام سوشل میڈیا کو جدید دور کا ایک طاقتور ذریعہ سمجھتے ہیں، جو معلومات کے تبادلے، تعلیم و تربیت اور مثبت پیغام رسانی کیلئے استعمال ہو سکتا ہے۔ اُن کے مطابق یہ پلیٹ فارم نوجوانوں کی صلاحیتوں کو نکھارنے اور دینِ اسلام کے حقیقی پیغام کو عام کرنے کیلئے بے حد مفید ہے، بشرطیکہ اُسے درست طریقے سے استعمال کیا جائے۔
ایک عالمی پلیٹ فارم ہونے کی وجہ سے سوشل میڈیا نے دنیا کے کونے کونے میں موجود افراد کو آپس میں جوڑ دیا ہے۔ اس کے ذریعے نوجوان نہ صرف مختلف نظریات اور خیالات سے آگاہ ہو سکتے ہیں بلکہ اپنے علم و فہم میں اضافہ بھی کر سکتے ہیں۔ شیخ الاسلام کے مطابق یہ مواقع ایک نعمت ہیں لیکن ان کے ساتھ ساتھ ذمہ داری کا شعور بھی ضروری ہے۔
۱۔ سوشل میڈیا کے منفی اَثرات سے خود بھی بچیں اور دوسروں کو بھی بچائیں
شیخ الاسلام نے بارہا نوجوانوں کو سوشل میڈیا کے منفی اثرات سے خبردار کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ غیر ضروری اور غیر اَخلاقی مواد، وقت کا ضیاع اور منفی پروپیگنڈا سوشل میڈیا کے ایسے بدنما پہلو ہیں جو نوجوانوں کی شخصیت پر منفی اثر ڈال سکتے ہیں۔ اُن کے مطابق ان خطرات سے بچنے کیلئے نوجوانوں میں دینی شعور اور اَخلاقی تربیت نہایت ضروری ہے۔
سوشل میڈیا کے غلط اِستعمال سے نوجوانوں کی جذباتی اور ذہنی صحت پر بھی گہرے اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر منفی تبصرے اور سائبر بُلنگ نوجوانوں کو احساسِ کمتری اور اِضطراب میں مبتلا کر سکتے ہیں۔ شیخ الاسلام اِس اَمر پر زور دیتے ہیں کہ نوجوانوں کو اپنے وقت کی قدر کرتے ہوئے ایسے مواد سے بچنا چاہئے جو اُن کے عقائد و نظریات اور کردار پر برا اَثر ڈالے۔
۲۔ محتاط سوشل سرکل اپنائیں
سوشل میڈیا کا استعمال آج کے دور میں زندگی کا ایک اہم حصہ بن چکا ہے، لیکن یہ ایک دو دھاری تلوار کی مانند ہے۔ اس کی افادیت یا نقصان کا اِنحصار اس بات پر ہے کہ ہم اسے کس طرح اور کن مقاصد کیلئے استعمال کرتے ہیں۔ سوشل میڈیا کو صحبت کے تناظر میں دیکھنا، اس کی طاقت کو سمجھنے کا ایک موثر زاویہ فراہم کرتا ہے، کیونکہ صحبت انسان کے کردار، خیالات اور عادات پر گہرا اثر ڈالتی ہے۔
شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری فرماتے ہیں کہ اپنے سوشل سرکل کو غیرضروری حد تک پھیلا لینے اور انجان لوگوں کے ساتھ دوستیاں لگا کر زندگی کے مقصد کو داؤ پر لگانے سے گریز کریں۔ ان کے مطابق، اچھے لوگوں کے ساتھ دوستی رکھنے سے انسان کی شخصیت میں مثبت تبدیلی آ سکتی ہے، جبکہ برے لوگوں کے ساتھ تعلقات انسان کو برائی کی طرف لے جا سکتے ہیں۔ وہ مزید فرماتے ہیں کہ سوشل میڈیا پر دوستوں کے انتخاب میں بھی حکمت اور سوچ بچار ضروری ہے۔
آج کے دور میں، جہاں سوشل میڈیا نے افراد کو ایک دوسرے کے قریب کر دیا ہے، وہیں اگر اس کا استعمال غیر ذمہ داری سے کیا جائے تو یہ اَخلاقی اور روحانی تباہی کا باعث بھی بن سکتا ہے۔ شیخ الاسلام نوجوانوں کو تاکید کرتے ہیں کہ وہ اپنی دوستیوں کو معیار اور مقصدیت کے پیمانے پر پرکھیں۔ ان کا ماننا ہے کہ اچھی صحبت انسان کو علم، اخلاق اور روحانیت میں ترقی دے سکتی ہے۔
مزید برآں، وہ والدین اور اساتذہ پر زور دیتے ہیں کہ وہ نوجوانوں کی دوستیوں اور تعلقات پر نظر رکھیں اور انہیں ایسے لوگوں کے ساتھ وقت گزارنے کی ترغیب دیں جو ان کے کردار کو سنوارنے میں مددگار ثابت ہوں۔ ان کے مطابق ’’ایک اچھا دوست انسان کی زندگی کو سنوار سکتا ہے، جبکہ ایک برا دوست اسے بربادی کی طرف لے جا سکتا ہے۔‘‘ شیخ الاسلام کے یہ الفاظ نوجوانوں کو نہ صرف اپنے تعلقات پر غور کرنے کی ترغیب دیتے ہیں بلکہ ان کے اندر ایک مثبت تبدیلی کا جذبہ بھی پیدا کرتے ہیں۔
۳۔ صحبت کے اثرات سے بچنا ممکن نہیں
اگر ہم سوشل میڈیا پر اچھی صحبت اختیار کریں، جیسے علمی، اخلاقی اور مثبت خیالات رکھنے والے افراد یا گروپس کو فالو کریں، تو اس کے نتیجے میں ہماری شخصیت پر مثبت اثرات مرتب ہوں گے۔ مثال کے طور پر تعلیمی مواد، دینی رہنمائی اور مثبت سوچ کے حامل افراد سے متاثر ہو کر ہم اپنے علم میں اضافہ اور شخصیت کی تعمیر کرسکتے ہیں۔ اچھی صحبت ہمیں زندگی کے مسائل کا حل، امید اور خوداعتمادی فراہم کرتی ہے۔ اچھی صحبت کے ذریعے ہم اپنے وقت کا بہتر استعمال کرتے ہوئے نئی چیزیں سیکھ سکتے ہیں، جیسے لکھنا، پڑھنا، یا کوئی ہنر سیکھنا۔
دوسری طرف، اگر ہم سوشل میڈیا پر بری صحبت اختیار کریں، یعنی منفی، غیر اخلاقی، یا نقصان دہ مواد دیکھیں، تو اس کے اثرات ہماری شخصیت پر بھی پڑیں گے۔ جیسا کہ غیر ضروری یا فضول مواد دیکھنے سے ہمارا قیمتی وقت ضائع ہو سکتا ہے۔ایسے افراد یا گروپس کے ساتھ وقت گزارنا جو جھوٹ، نفرت یا غیر اخلاقی رویوں کو فروغ دیتے ہوں، ہماری سوچ کو منفی بنا سکتا ہے۔بری صحبت سے متاثر ہو کر غیر اخلاقی عادات یا رویے اپنانے کا خطرہ ہوتا ہے، جس سے ہم اپنی اقدار اور اصولوں سے دور ہو سکتے ہیں۔
شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری اپنے دروس و خطابات میں اکثر فرماتے ہیں کہ انسان فطری طور پر اپنی صحبت سے متاثر ہوتا ہے، چاہے وہ حقیقی زندگی میں ہو یا سوشل میڈیا پر۔ یہ ممکن نہیں کہ ہم بری صحبت اختیار کریں اور اس کے اثرات سے خود کو محفوظ رکھ سکیں۔ اگر ہم ایسے افراد یا مواد کے قریب رہیں جو بدتمیزی، گالم گلوچ، یا نفرت آمیز باتیں کرتے ہوں، تو رفتہ رفتہ ہم بھی ایسے رویے اپنا سکتے ہیں۔غیر اخلاقی یا گمراہ کن مواد بار بار دیکھنے سے ہمارے خیالات اور جذبات پر اس کا اثر لازمی ہوگا، چاہے ہم شعوری طور پر اسے رد کرنے کی کوشش کریں۔
سوشل میڈیا ایک طاقتور ذریعہ ہے جو ہمیں علم، رہنمائی اور تفریح فراہم کر سکتا ہے، لیکن اس کے منفی اثرات سے بچنے کیلئے ہمیں محتاط رہنا ہوگا۔ اچھی صحبت کے انتخاب سے ہم اپنی شخصیت کو سنوار سکتے ہیں اور بری صحبت سے بچنے کیلئے ہمیں اپنے وقت اور انتخاب پر غور کرنا ہوگا۔ یہ ذمہ داری ہماری اپنی ہے کہ ہم اپنی صحبت کو مثبت رکھیں تاکہ ہم خود بھی مثبت اور کامیاب زندگی گزار سکیں۔
۴۔ سوشل میڈیا کے مثبت اِستعمال کی ترغیب
شیخ الاسلام ڈاکٹر طاہرالقادری نوجوانوں کو سوشل میڈیا کے مثبت اِستعمال کی تلقین کرتے ہیں۔ وہ انہیں تعلیم، تحقیق اور اصلاحِ معاشرہ کیلئے ان پلیٹ فارمز کا اِستعمال کرنے کی ترغیب دیتے ہیں۔ ان کے زیرِسایہ تحریکِ منہاج القرآن نے سوشل میڈیا کو فروغِ علم، امن اور محبت کے پیغام کو عام کرنے کیلئے مؤثر طریقے سے اِستعمال کر رہی ہے۔
شیخ الاسلام کے مطابق نوجوانوں کو چاہئے کہ وہ سوشل میڈیا پر ایسے مواد کو شیئر کریں جو علم و آگاہی میں اِضافہ کرے اور دوسروں کیلئے نفع بخش ہو۔آپ فرماتے ہیں کہ سوشل میڈیا کو امن و آشتی اور علمِ دین کے فروغ کیلئے استعمال کرنا چاہیے۔ اُن کے نزدیک سوشل میڈیا ایک ایسا عالمی پلیٹ فارم ہے جس کے ذریعے قرآن و سنت کی تعلیمات کو پوری دنیا میں پھیلایا جا سکتا ہے۔ نہ صرف لوگوں کو نیکی کی طرف دعوت دی جا سکتی ہے، اِسلامی تعلیمات کو آسان اور عام فہم انداز میں پیش کیا جا سکتا ہے بلکہ لوگوں کو دینی و سماجی مسائل کا حل بھی فراہم کیا جا سکتا ہے۔ اُن کا یہ بھی ماننا ہے کہ دینِ اسلام کی ترویج و اِشاعت کیلئے دینی تعلیمات کو جدید تقاضوں کے مطابق پیش کرنے کیلئے سوشل میڈیا ایک بہترین ذریعہ ہے۔
شیخ الاسلام کی یہ بات سوشل میڈیا کے موجودہ دور کے حوالے سے نہایت اہم اور قابلِ غور ہے۔ ان کا یہ پیغام نہ صرف دین کی حقیقی روح کو سمجھنے کی دعوت دیتا ہے بلکہ موجودہ دور میں سوشل میڈیا کے مثبت اور منفی استعمال کے اثرات کو بھی واضح کرتا ہے۔
۵۔ سوشل میڈیا پر تفرقہ بازی سے اِجتناب کی تلقین
شیخ الاسلام کے نزدیک سوشل میڈیا کو امن اور بھائی چارے کے فروغ کیلئے استعمال کیا جانا چاہئے۔ سوشل میڈیا کو اس طرح استعمال کیا جائے کہ وہ فرقہ واریت یا نفرت کے بجائے محبت، رواداری اور ایک دوسرے کے احترام کا درس دے۔ مختلف مکاتبِ فکر کے درمیان ہم آہنگی پیدا کی جائے۔ باہمی اِختلافات کو علم اور دلیل کے ذریعے ختم کرنے کی کوشش کی جانی چاہئے۔
شیخ الاسلام اس بات پر زور دیتے ہیں کہ سوشل میڈیا کو تفرقہ بازی کیلئے استعمال کرنے سے گریز کرنا چاہیئے۔ کچھ لوگ سوشل میڈیا پر مختلف مسالک یا عقائد کے خلاف نفرت انگیز مواد پھیلاتے ہیں، جس سے مسلمانوں میں اختلافات بڑھتے ہیں اور ایک دوسرے کے خلاف دشمنی پیدا ہوتی ہے۔ نیز سوشل میڈیا پر نفرت آمیز بیانات یا جھوٹی معلومات پھیلانے سے فساد کا ماحول پیدا ہوتا ہے، جو اسلام کی اصل تعلیمات کے خلاف ہے۔ اسلام محبت، بھائی چارے اور امن کا مذہب ہے۔ تفرقہ بازی اور نفرت پھیلانا نہ صرف گناہ ہے بلکہ امتِ مسلمہ کو کمزور کرنے کا سبب بنتا ہے۔
۶۔ سوشل میڈیا پر دین کے نام پر دنیاوی مفادات کےحصول سے اجتناب
شیخ الاسلام ڈاکٹرمحمد طاہرالقادری ان لوگوں کی مذمت کرتے ہیں جو سوشل میڈیا پر اِشتہارات کی کمائی کیلئے دین کا نام استعمال کرتے ہیں اور مذہبی دنگا فساد پیدا کرتے ہیں۔ سوشل میڈیا پر ہمیں کچھ افراد یا گروہ اپنی ویڈیوز، لائیو سیشنز، یا دیگر مواد کے ذریعے زیادہ سے زیادہ ویوز اور لائیکس حاصل کرنے کی کوشش کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ وہ جذباتی یا متنازع بیانات دیتے ہیں تاکہ لوگ زیادہ سے زیادہ ان کے مواد کو دیکھیں۔ ان کا مقصد دین کی خدمت نہیں بلکہ اپنی کمائی بڑھانا ہوتا ہے۔ ایسے لوگ دین کے حقیقی پیغام کو توڑ مروڑ کر پیش کرتے ہیں، جس سے نہ صرف غلط فہمیاں پیدا ہوتی ہیں بلکہ بسااوقات وہ اِسلامی تعلیمات کا حلیہ ہی بگاڑ دیتے ہیں۔
شیخ الاسلام اس بیانئے پر زور دیتے ہیں کہ سوشل میڈیا کو ہمیشہ ایک مثبت ذریعے کے طور پر استعمال کیا جائے۔ اس کے ذریعے اِسلام کی تعلیمات کو فروغ دیا جائے۔امن، محبت اور بھائی چارے کا پیغام عام کیا جائے۔ تفرقہ بازی، نفرت انگیزی اور دنیاوی مفادات کیلئے دین کو استعمال کرنے سے بچا جائے۔ اگر سوشل میڈیا کو اس نیت اور اخلاص کے ساتھ استعمال کیا جائے تو یہ دین کی خدمت کا ایک مؤثر ذریعہ بن سکتا ہے اور دنیا میں اسلام کی اصل تعلیمات کو پہنچانے میں مددگار ثابت ہو سکتا ہے۔
۷۔ سوشل میڈیا پر اسلام کے مثبت چہرہ کی عکاسی
شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نوجوانوں کی رہنمائی کیلئے سوشل میڈیا کے ذریعے اسلام کی تعلیمات اور مثبت پہلوؤں کو دنیا کے سامنے پیش کرتے ہیں۔ موجودہ دور میں جہاں سوشل میڈیا نے دنیا کو ایک گلوبل ولیج بنا دیا ہے، وہاں اسلام کی حقیقی تعلیمات اور اس کا پرامن چہرہ پیش کرنے کیلئے یہ ایک طاقتور ذریعہ بن چکا ہے۔ شیخ الاسلام سوشل میڈیا کو اِسلام کی حقیقی تعلیمات کے تعارف کیلئے استعمال کرنے پر زور دیتے ہیں۔ اُن کے نزدیک اسلام ایک امن پسند، محبت اور بھائی چارے کا دین ہے اور دنیا کو یہ سمجھانے کیلئے سوشل میڈیا ایک بہترین مؤثر پلیٹ فارم ہے۔ ہمیں چاہیئے کہ قرآن و سنت کی تعلیمات کو واضح اور مثبت انداز میں پیش کریں، غیرمسلموں کے سوالات اور شبہات کو دلیل اور حکمت سے دُور کریں اور عدل، مساوات، رواداری اور خدمتِ خلق جیسے اِسلام کے اُصولوں کو اجاگر کریں۔
دنیا میں بہت سے غیر مسلم اسلام کے بارے میں غلط فہمیوں یا پروپیگنڈا کی وجہ سے نفرت کا رویہ رکھتے ہیں۔ ایسے لوگوں کو سوشل میڈیا کی مدد سے محبت، اَخلاق اور حکمت کے ساتھ حقیقی اِسلام کا تعارف کروایا جا سکتا ہے۔ اسلام کے بارے میں پائی جانے والی منفی باتوں کو علمی اور منطقی دلائل سے رد کیا جا سکتا ہے۔ سوشل میڈیا پر ایسے تاریخی واقعات اور مثالیں پیش کی جا سکتی ہیں جو اسلام کی امن پسندانہ تعلیمات کو ثابت کرتی ہیں۔ حضور نبی اکرم ﷺ کا اخلاق اور غیر مسلموں کے ساتھ ان کے حسنِ سلوک کو پیش کیا جا سکتا ہے۔ اسی طرح اسلامی تاریخ میں بین المذاہب رواداری کی دیگر بہت سی مثالوں کو بھی اُجاگر کیا جا سکتا ہے۔
۸۔سوشل میڈیا: والدین اور اساتذہ کا کردار
شیخ الاسلام اِس بات پر بھی زور دیتے ہیں کہ والدین اور اساتذہ کو چاہئے کہ وہ نوجوانوں کی رہنمائی کریں اور اُنہیں سوشل میڈیا کے مثبت اور منفی پہلوؤں سے آگاہ کریں۔ والدین کو چاہئے کہ وہ اپنے بچوں کے ساتھ مضبوط تعلق قائم کریں اور اُنہیں ایسا ماحول فراہم کریں جس میں وہ اِعتماد کے ساتھ اپنے خیالات کا اِظہار کر سکیں۔ اساتذہ کیلئے ضروری ہے کہ وہ طلبہ کو تعلیمی مواد کے حصول کیلئے سوشل میڈیا کے مثبت اِستعمال کی ترغیب دیں اور اس کے ساتھ ساتھ اُن کی اَخلاقی تربیت پر بھی خصوصی توجہ دیں۔
۹۔ سوشل میڈیا پر شیخ الاسلام کے عملی اِقدامات
شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کے زیرِ قیادت منہاج القرآن کی طرف سے ڈیجیٹل میڈیا کے ذریعے قرآنی علوم، حدیث، فقہ اور اَخلاقی تربیت پر مبنی مواد کو دنیابھر میں پہنچایا جا رہا ہے۔ نیز نوجوانوں کیلئے خصوصی ورکشاپس اور سیمینارز کا اِنعقاد بھی کیا جاتا رہتا ہے، جن میں اُنہیں سوشل میڈیا کے مثبت اِستعمال کے اُصول سکھائے جاتے ہیں۔منہاج القرآن نے مختلف زبانوں میں اِسلامی تعلیمات پر مبنی ویڈیوز، آرٹیکلز اور ڈیجیٹل کورسز تیار کر رکھے ہیں، جو دنیا کے مختلف حصوں میں موجود نوجوانوں کیلئے آن لائن دستیاب ہیں۔ یہ مواد نوجوانوں کو دین کے بنیادی اُصولوں سے آگاہ کرنے کے ساتھ ساتھ اُن کی اَخلاقی اور روحانی تربیت میں بھی مددگار ثابت ہو رہا ہے۔ ذیل میں اس کے چند مظاہر ملاحظہ ہوں:
(۱) لٹریچر کی فراہمی
شیخ الاسلام کے وژن کی بدولت ہزارہا خطابات (www.minhaj.tv)، سیکڑوں تصانیف (www.minhajbooks.com)، گزشتہ تین دہائیوں سے مجلہ جات (www.minhaj.info) اور درجن بھر موبائل ایپس (www.minhaj.org)
وغیرہ آن لائن دستیاب ہیں۔
(۲) تعلیمی خدمات
منہاج القرآن انٹرنیشنل کے تعلیمی اِدارے منہاج یونیورسٹی لاہور، کالج آف شریعہ اینڈ اسلامک سائنسز، منہاج کالج برائے خواتین، تحفیظ القرآن کالج، اِی لرننگ، منہاج القرآن ویمن لیگ، نظامت تربیت، ایجوکیشن اینڈ پروفیشنل ڈویلپمنٹ کے تحت سارا سال مختلف تعلیمی و تدریسی کورسز آن لائن جاری رہتے ہیں۔
(۳) سالانہ ایونٹس
نوجوانوں کی دینی اور اخلاقی تربیت کیلئے سالانہ بنیادوں پر مختلف ایونٹس منعقد کئے جاتے ہیں، جنہیں سوشل میڈیا کے ذریعے عالمی سطح پر نشر کیا جاتا ہے۔ ان ایونٹس کا مقصد نوجوانوں کو دین اسلام کی تعلیمات سے روشناس کرانا اور اُن کے دلوں میں ایمان، اخوت اور خدمتِ خلق کا جذبہ پیدا کرنا ہے۔سالانہ پروگرامز کچھ اس طرح ہیں:
(i) انٹرنیشنل میلاد کانفرنس
یہ کانفرنس ہر سال 11 اور 12 ربیع الاول کی درمیانی شب منعقد کی جاتی ہے، جس میں لاکھوں لوگ شرکت کرتے ہیں۔ اسے یوٹیوب اور فیس بک جیسے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر براہِ راست نشر کیا جاتا ہے تاکہ دنیا بھر کے نوجوان اس کا حصہ بن سکیں۔
(ii) شہرِ اعتکاف
منہاج القرآن کے زیرِ اہتمام ہر سال رمضان المبارک کے آخری عشرے میں شہرِ اعتکاف بسایا جاتا ہے، جس میں ہزاروں مردو خواتین معتکف ہوتے ہیں۔ اس شہرِ اعتکاف میں منعقد ہونے والی جملہ علمی، فکری اور روحانی سرگرمیاں یوٹیوب، فیس بک اور سوشل میڈیا کے تمام پلیٹ فارمز کے ذریعے براہ راست نشر کی جاتی ہیں اور آن لائن لاکھوں لوگ، اصلاحِ احوال و اعمال کی اس روحانی بستی سے فیض یاب ہوتے ہیں۔
(iii) روحانی محافل
رمضان المبارک، شبِ برات اور دیگر مقدس راتوں میں خصوصی عبادات، ذکر اور دروس منعقد کئے جاتے ہیں۔ ان محافل کو سوشل میڈیا پر نشر کیا جاتا ہے تاکہ نوجوان روحانیت اور عبادت کے قریب ہو سکیں۔
(iv) علمی و فکری سیمینارز
منہاج القرآن اور اس کے ذیلی فورمز کے ذریعے مختلف دینی و قومی ایام اور مختلف قومی مسائل پر اسلام اور جدید دور کے تقاضوں پر سیمینارز منعقد کئے جاتے ہیں، جن میں نوجوانوں کو انتہا پسندی سے بچانے، مثبت سوچ اپنانے اور دینی و عصری تعلیم کو ہم آہنگ کرنے کی تعلیم دی جاتی ہے۔ یہ تمام سیمینارز بھی آن لائن نشر کیے جاتے ہیں جن کے ذریعے نوجوان نسل کو ہدایت و رہنمائی کا ایک وافر سامان میسر آتا ہے۔
(v) نوجوانوں کیلئے تربیتی کیمپ اور یوتھ کانفرنسز
ہر سال مختلف تربیتی کیمپ منعقد کئے جاتے ہیں، جن میں نوجوانوں کو دینی، اخلاقی اور قائدانہ صلاحیتوں کی تربیت دی جاتی ہے۔ ان کیمپوں کی جھلکیاں اور ریکارڈنگز سوشل میڈیا پر شیئر کی جاتی ہیں۔
(vi) منہاج سمر اسکول اور تربیتی کورسز
گرمیوں کی تعطیلات میں نوجوانوں کیلئے قرآنی تعلیمات، سیرت النبی ﷺ اور دیگر دینی موضوعات پر مختصر کورسز منعقد کئے جاتے ہیں، جنہیں سوشل میڈیا پر فراہم کیا جاتا ہے تاکہ زمان و مکاں کی قید کے بغیر ہر ایک ان سے استفادہ کرسکے۔
(۴) سوشل میڈیا اور بیداریٔ شعور کی مہم
تحریک منہاج القرآن نے دورِ جدید کے تیز ترین سمجھے جانے والے ذرائع یعنی سوشل میڈیا کو دعوتِ دین اور فروغِ تحریک کے مقصد کیلئے استعمال کیا ہے۔ مرکزی سوشل میڈیا ٹیم فیس بک، یوٹیوب، ٹوِٹر، ساؤنڈ کلاوڈ، وٹس ایپ، انسٹاگرام، پِنٹرسٹ، ویمیو، ڈیلی موشن اور فلِکر سمیت ہمہ قسم سوشل میڈیا پر بنے تحریک اور قائدین تحریک کے آفیشل اکاونٹس پر باقاعدہ اپ ڈیٹس دیتی ہے۔
تحریک منہاج القرآن نے سوشل میڈیا کے ذریعے مختلف مہمات کا آغاز کیا ہے، جو نوجوانوں میں شعور بیدار کرنے کیلئے مخصوص ہیں۔ اُن مہمات میں ’’علم اور امن کا پیغام‘‘، ’’نفرت کے خلاف محبت‘‘ اور ’’وقت کی اہمیت‘‘ جیسے موضوعات شامل ہیں۔ اِن مہمات کے ذریعے لاکھوں نوجوانوں کو اُن کے کردار، عقائد اور معاشرتی ذمہ داریوں کے بارے میں رہنمائی فراہم کی گئی ہے۔
خلاصۂ کلام
شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کا نقطۂ نظر نوجوانوں کو سوشل میڈیا کے منفی اَثرات سے بچانے اور اُس کے مثبت اِستعمال کی رہنمائی فراہم کرتا ہے۔ اُن کے تعمیری خیالات اور عملی اِقدامات نے نوجوانوں کو ایک نیا شعور دیا ہے، جو اُنہیں اپنے وقت اور صلاحیتوں کو درست سمت میں اِستعمال کرنے کی ترغیب دیتے ہیں۔ شیخ الاسلام کی کاوشوں نے یہ ثابت کیا ہے کہ سوشل میڈیا صرف اچھی تفریح کا ذریعہ نہیں بلکہ یہ نوجوانوں کے کردار اور علم کو سنوارنے کا ایک اہم وسیلہ بھی ہے۔ اُن کی رہنمائی نوجوانوں کو ایک بہتر معاشرہ تشکیل دینے کیلئے تیار کرتی ہے، جہاں وہ اپنے علم، اَخلاق اور صلاحیتوں کو مثبت اَنداز میں بروئے کار لا سکیں۔