فیضانِ مصطفی ﷺ کی امین قیادت
جب ہم لفظِ قیادت پر غورو فکر کرتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ یہ لفظ ’’القود‘‘ سے مشتق
ہے، جس کا معنی ہی چلنا اور چلانا ہے۔ قوم کو متحرک و فعال کرنا اور اسے ہر سو اور
ہر شعبہ میں تحرک دینا ہے۔ قیادت کسی اجتماعی مقصد کو حاصل کرنے کے لیے افراد اور قوم
کو متحرک کرنے کے وصف کا نام ہے۔ وصفِ قیادت کے ذریعے ایک قائد مشترکہ مقصد کو حاصل
کرنے کے لیے افرادِ قوم کوفعال اور متحرک کرتا ہے۔
قیادت میں قوم اور افراد کے معاملات کو سدھارنے اور بہتر کرنے کا تصور انھیں شاہراہِ
حیات پر کامیابی کے ساتھ چلانے کا خیال و فکر پایا جاتا ہے۔ قائد وہ شخص ہوتا
ہے جو قوم کو ایک واضح ہدف اور ایک روشن خاکہ و منصوبہ دیتا ہے۔ قائد اور لیڈر ساری
قوم کے لیے ایک رول ماڈل ہوتا ہے۔۔۔ وہ اپنی قوم کو ہر ہر جہت پر راہنمائی دیتا اور
ناموافق ماحول کو اپنے کردار کے ذریعے موافق بناتا ہے۔۔۔ لیڈر حوصلے کا نام ہے، مشکل
ترین حالات میں بھی اس کا حوصلہ نارمل حالات کی طرح ہوتا ہے۔۔۔ وہ کبھی اپنے مقصد کے
حصول پر سمجھوتہ نہیں کرتا اور نہ کبھی خوش فہمی میں مبتلا ہوکر اپنے آپ کو فہمِ کل
سمجھتا ہے بلکہ حالات کی نزاکت کو مسلسل پرکھتا رہتا ہے اور اس کے مطابق ہی صائب فیصلے
کرتا ہے۔
قیادت اپنے اہداف کے حصول کے لیے ایک وژن رکھتی ہے اور اس راستے میں پیش آنے والی مشکلات اور آنے والے مسائل کا ایک واضح حل اپنے سامنے ہر وقت رکھتی ہے۔لیڈر ایک دبنگ شخصیت کا مالک ہوتا ہے، وہ کسی سے ڈرتا اور خوفزدہ نہیں ہوتا۔۔۔ اس کا اعتماد دوسروں کے لیے قابلِ رشک ہوتا ہے اور وہ دوسروں کے ساتھ چلنے والا اور دوسروں کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے انھیں اپنے ساتھ چلانے والا ڈیموکریٹک راہنما ہوتا ہے۔۔۔ لیڈر خود اعتمادی کا پیکر ہوتا ہے۔۔۔ اس کے اندر بے پناہ تخلیقی و اختراعی صلاحیتیں ہوتی ہیں اور وہ سخت سے سخت بحران میں بھی اپنے ہوش و حواس پر قابو رکھتا ہے اور اپنی خداداد صلاحیتوں کے بل بوتے پر ان بحرانوں پر قابو پالیتا ہے۔۔۔ وہ کسی بھی ردِعمل میں بڑا ہی ذی فہم اور صاحبِ بصیرت ثابت ہوتا ہے۔۔۔ وہ معاشرتی تبدیلیوں کو کھلے ذہن کے ساتھ دیکھتا ہے اور اپنے معاشرے کے ساتھ ہم آہنگ ہوکر چلتا ہے اور تخلیقی صلاحیت اور جدت طرازی کی ہمیشہ حمایت کرتا ہے۔
لیڈر ہر لمحہ متحرک و چست ہوتا ہے اور ہمیشہ دوسروں میں مسلسل ترغیب و تحریک پیدا کرتا رہتا ہے۔۔۔ لیڈر اپنے کام کو اپنی پہچان بناتا ہے۔۔۔مخلص لیڈر اپنے مقصد کے سامنے ذاتی معاملات، ذاتی مفادات اور ذاتی تعلقات کی کچھ بھی پرواہ نہیں کرتا۔
قیادت کو ہمیشہ اس کی کامیابیوں اور اس کے اہداف کے حصول کے تناظر میں دیکھا جاتا ہے۔اسی لیے قیادت کی تعریف ہی یہ کی گئی ہے:
فالقیادۃ دائماً عبارۃ عن نتیجۃ.
قیادت کو ہمیشہ اس کے اہداف اور نتائج کے حوالے سے دیکھا جاتا ہے۔
القیادۃ ھی السبق والتقدم لارتیاد الافضل.
قیادت ہمیشہ افضل چیز کے حصول کے لیے مسلسل آگے بڑھنے کا نام ہے۔
ھی القدرۃ علی التاثیر علی الاخرین و توجیہ سلوکھم لتحقیق اھداف مشترکۃ.
قیادت سے مراد وہ انسانی وصف ہے جو دوسرے انسانوں کو متاثر کرتا ہے اور انھیں مشترکہ مقاصد کے حصول کے لیے سرگرم رکھتا ہے۔
بلاشبہ صفاتِ قیادت میں صحتِ فکر، مشاورت، مساوات اور عدل پروری نمایاں اوصاف ہیں۔ قیادت ہمیشہ مستقل مزاج اور اپنے مقصد و منزل کے ساتھ Committed ہوتی ہے۔۔۔ قیادت اپنی تمام تر ذمہ داریوں اور اپنے تمام اعمال میں ہر حال میں شفافیت کو برقرار رکھتی ہے۔۔۔ قیادت اپنی مضبوط شخصیت، دلکشی، علمی پختگی اور اپنی منفرد صلاحیتوں کی وجہ سے ایک کرشماتی شخصیت ہوتی ہے۔
فیضانِ مصطفی ﷺ کی امین قیادت
بلاشبہ اس کائنات انسانی میں وہ ذات جس پر لفظِ قیادت بھی ناز کرتا ہے اور جس کے دم قدم سے دنیامیں لاکھوں انسان منصبِ قیادت پر فائز ہوئے ہیں اورجن کی سیرت و کردار آج بھی لاکھوں انسانوں کو صفاتِ قیادت کی ترغیب و تحریک ایک حاضر و موجود ذات کی طرح دے رہی ہے اور جن کی صفاتِ حسنہ اور اخلاقِ عالیہ سے دنیا بھر کی قیادتیں اکتسابِ فیض کرتی ہوئی دکھائی دیتی ہیں، وہ رسول اللہ ﷺ کی ذاتِ بابرکات ہے۔
رسول اللہ ﷺ کی صفاتِ قیادت سے ہر دور کی قیادت نے اپنے اپنے زمانے کے مطابق فیض حاصل کیا ہے۔ مذکورہ صفاتِ قیادت کو عصرِ حاضر کی قیادتوں میں اگر تلاش کیا جائے تو ساری کی ساری صفاتِ قیادت اگر کسی ذات و شخصیت میں اس دور میں مجتمع نظر آتی ہیں تو وہ عظیم المرتبت شخصیت شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی ہے۔ہر صفت کو جب ہم انطباقی اور عملی تناظر میں ان کی شخصیت میں دیکھتے ہیں تو وہ صفتِ قیادت شیخ الاسلام کی شخصیت میں اطاعت و اتباعِ رسالت ﷺ کے جذبۂ فنائیت کی بنا پر اپنے کمال پر نظر آتی ہے۔عصرِ حاضر میں شیخ الاسلام کی قیادت پر رسول اللہ ﷺ کی قیادت کےکون کون سے رنگ غالب ہیں، زیرِ نظر تحریر میں اس امر کا ایک جائزہ پیش کیا جارہا ہے:
(1 )معلمِ انسانیت ﷺ کا فیض
رسول اللہ ﷺ کو باری تعالیٰ نے ساری کائناتِ انسانی کا معلم بنایا ہے۔ آپ ﷺ نے انسانی لبادوں میں نظر آنے والے حیوانِ ناطق میں انسانیت کو پیدا کیا ہے۔ آپ ﷺ نے اپنے ہر ماننے والے کو حصولِ علم کی خوب ترغیب دی ہے۔ حتی کہ تحصیلِ علم کو ہر مسلمان مردو عورت کا فرضِ حیات قرار دیا ہے اور اپنے اوپر نازل ہونے والی کتاب قرآن حکیم کا پہلا درس ہی علم حاصل کرنے اور علم کے فروغ کا دیا ہے۔ بلاشبہ ساری دنیا میں آج جتنی بھی ترقی اور روشنی ہے، وہ ساری کی ساری رسول اللہ ﷺ کی بپا کردہ اسی تحریکِ علم کی وجہ سے ہے۔ آپ کی شانِ علم کا ذکر کرتے ہوئے قرآن بیان کرتا ہے:
وَ عَلَّمَکَ مَا لَمۡ تَکُنۡ تَعۡلَمُ
’’ اور اس نے آپ کو وہ سب علم عطا کر دیا ہے جو آپ نہیں جانتے تھے۔‘‘
(النساء، 113/4)
رسول اللہ ﷺ کی ذات اللہ کے حضور متعلم تھی اور آپ ﷺ کا معلم خود باری تعالیٰ تھا۔ لفظ علمک اسی حقیقت کو واضح کرتا ہے۔ دنیوی تعلیم قوتِ شنوائی اور قوتِ بینائی کے ذریعے دی جاتی ہے اور پھر جو علم انسانی حواس میں قرار پکڑ لیتا ہے، وہی انسانی علم بنتا ہے جبکہ باری تعالیٰ انبیاء علیھم السلام کو تعلیم بذریعہ قلب عطا کرتا ہے۔ انزلہ علی قلبک۔ اس بنا پر اللہ کی تعلیم دینے میں اور بندے کی تعلیم دینے میں بڑا فرق پایا جاتا ہے۔ رب کے علم دینے کی شان یہ ہے:
سَنُقْرِئُكَ فَلَا تَنْسٰۤیۙ
’’ (اے حبیبِ مکرّم!) ہم آپ کو خود (ایسا) پڑھائیں گے کہ آپ (کبھی) نہیں بھولیں گے۔‘‘
(الاعلیٰ، 87/ 6)
تعلیمِ ربانی میں کوئی نسیان نہیں پایا جاتا ہے جبکہ تعلیم انسانی نسیان سے پاک نہیں ہے۔
ہلی وحی کی صورت میں اترنے والی سورۃ العلق کی ابتدائی آیات رسول اللہ ﷺ کی تعلیم کا پہلا سبق ہیں۔ارشاد فرمایا:
اِقْرَاْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِیْ خَلَقَۚخَلَقَ الْاِنْسَانَ مِنْ عَلَقٍۚ
’’ (اے حبیب!) اپنے رب کے نام سے (آغاز کرتے ہوئے) پڑھیے جس نے (ہر چیز کو) پیدا فرمایا۔ اس نے انسان کو (رحمِ مادر میں) جونک کی طرح معلق وجود سے پیدا کیا۔‘‘
(العلق، 1،2/96)
قابلِ غور امر یہ ہے کہ جب تعلیم کی ابتداء کا پہلا سبق ہی تخلیقِ انسان کی حقیقت سے پردہ اٹھارہا ہو تو اس تعلیم کی انتہا کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔بلاشبہ آپ ﷺ کی تعلیم کا پہلا مسئلہ ہی انتہائی اعلیٰ ہے اور یہ آج تک منتہی فلاسفر کے لیے بھی باعثِ حیرت بنا ہوا ہے۔
رسول اللہ ﷺ کی قیادت کے اسی وصف تعلیم و تعلم کو ہر زمانے میں ہر قائد نے اپنے اندر جاگزیں کیا ہے۔ عصرِ حاضر میں شیخ الاسلام نے اس وصفِ علم کی تحصیل میں عرب و عجم کے سفر کیے اور اپنے زمانۂ تحصیلِ علم میں ہر قدآور اور نامور شخصیت کے سامنے زانوئے تلمذ طے کیا ہے، جن کے اسماء مبارکہ شیخ الاسلام کی سندِ حدیث میں محفوظ ہیں۔ ان سب سے تحصیلِ علم کے بعد خود کو سب سے پہلے تعلیم و تعلم کے اسی وصف میں مکمل طاق کیا ہے اور پھر اپنے اس وصف کا اظہارِ اول قومی اداروں میں درجہ اول کی یونیورسٹی پنجاب یونیورسٹی کو اپنا ہدف بنایا۔
یہاں آپ کو چشمہ؛ انما بعثت معلما سے وہ فیضِ جاوداں ملا کہ آپ نے نہ صرف پنجاب یونیورسٹی کے طلبہ و طالبات کو پڑھایا بلکہ چند ہی سالوں کے بعد ٹی وی سکرین کے ذریعے پوری قوم آپ کے سامنے متعلم تھی۔ آپ ساری قوم کے ایسے معلم تھے کہ ہر کوئی آپ کو ایسے ہی سنتا تھا جیسا یونیورسٹی کے طلبہ و طالبات اپنے استاد کا لیکچر ہر حال میں سننا اپنا فرض جانتے تھے۔ فہم القرآن پروگرام نے نہ صرف شیخ الاسلام کو پاکستانی قوم کا معلم بنایا بلکہ یہی سکرین دنیا بھر کے لوگوں کے لیے آپ سے تحصیلِ علم کا ذریعہ بن گئی۔ اس لیے کہ آپ کا علم زمانے کے علم کے تقاضوں کو پورا کرتا تھا۔
آپ کی آواز کو ہر کوئی علم کی آواز جانتا تھا اور ہر کوئی اس آواز کو سننے کے بعد خود کو اس آواز کا اسیر بنالیتا تھا۔اسی سبب یہ آواز دنیا کے ہر کونے میں گونجنے لگی۔ اس طرح آپ معلمِ یونیورسٹی سے معلمِ عصر کے منصب پر فائز ہوگئے۔ اس نئے منصب اور اس کی وسعت اور اس کے تقاضوں کے مطابق آپ نے یونیورسٹی کی معلمیت کو تقریباً دس سال سے زائد عرصہ تک نبھایا اور پھر آپ مستقل معلمِ عصر کی ذمہ داری کی طرف منتقل ہوگئے اور زمانے کے لوگوں کو دین اس طرح پڑھایا جو منشا الہٰی اور منشا رسول ﷺ کی آئینہ داری کرتا ہے اور اس طرح لوگوں کو دین سکھایا جو کہ فیضانِ نبوت کی صحیح ترجمانی کرتا ہے۔
آج بھی پوری دنیا میں اسلام کی نظریاتی سرحدوں پر جب بھی دشمن کا حملہ ہوتا ہے تو آپ صفِ اول میں دکھائی دیتے ہیں اور اس لشکر کے سب لشکریوں کی قیادت اور سیادت کا فریضہ انجام دیتے ہیں۔
(2) ’’الکوثر‘‘کے فیض کے امین
قیادت کے منصب پر فائز ہونے والی ذات و شخصیت کے لیے لازم ہے کہ وہ جامع الصفات ہو۔۔۔ وہ اپنی ہر صفت کو بلندی دے اور اپنی ہر عادت کورفعت دے۔۔۔ وہ اپنے ہر رویے کو قابلِ ستائش بنائے۔۔۔ اپنے ہر عمل کو قابلِ تقلید بنائے۔۔۔ وہ اپنی ہر نشست کو یادگار بنائے۔۔۔ اپنے ہر قول کو حوالہ بنائے۔۔۔ وہ اپنے ہر خلق کو خلقِ عظیم کا آئینہ دار بنائے۔ یہ وصفِ قیادت اس کو میسر آسکتا ہے جس کی زمینِ سیرت میں چشمۂ سیرت النبی ﷺ کا آب فیض جاری ہوجائے۔ پھر اس زمینِ سیرت میں جو بھی فصلِ خلق اور جو بھی فصلِ عمل اُگے گی، وہ یقیناً اس چشمۂ سیرت کے اثرات کو اپنے اندر جذب کرے گی اور ظاہر کرے گی۔ اس لیے کہ اس چشمۂ سیرت کے تاجدار کا تعارف ہی ہر ہر وصفِ قیادت میں الکوثر ہے۔
’’الکوثر‘‘ کا لفظ ہر وصف میں فراوانی کو ظاہر کرتا ہے۔ کوثر کا معنی ھوالخیر الکثیر ہے۔ قیادت عادت و خصلت پر مدار رکھتی ہے اور عادت و خصلت ہی کا نام خلق ہے۔ رسول اللہ ﷺ کے خلقِ کثیر اور خلقِ رفیع کو باری تعالیٰ نے قرآن میں خلقِ عظیم قرار دے کر خلق میں بھی آپ ﷺ کی شانِ کوثر کو بیان کیا ہے۔ ارشاد فرمایا:
وَ اِنَّكَ لَعَلٰی خُلُقٍ عَظِیْمٍ
’’ اور بے شک آپ عظیم الشان خلق پر قائم ہیں (یعنی آدابِ قرآنی سے مزّین اور اَخلاقِ اِلٰہیہ سے متّصف ہیں)۔‘‘
(القلم، 4/68)
اب ہر وہ قائد جو خلقِ عظیم کی حامل ذات کے ساتھ اپنے تعلق کو اخلاص کے ساتھ قائم کرے گا، وہ ہی اس وصف خلقِ عظیم سے الکوثر والا فیض پائے گا۔
شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کا قول و فعل، ان کا رویہ و کردار اور ان کا عملِ حیات ہمیشہ اطاعتِ رسول اور اتباعِ رسول ﷺ کے سانچے میں ڈھلتا رہا ہے۔ وہ اپنے قول، فعل اور اپنے حال پر اس کا پہرہ دیتے رہے ہیں۔انھوں نے ہمیشہ اپنے قول کو قولِ رسول ﷺ کی روشنی دی ہے۔۔۔ انھوں نے دائماً اپنے فعل کو فعلِ رسول ﷺ سے منور و تاباں کیا ہے۔۔۔ انھوں نے بالاستمرار اپنے حال کو حالِ رسول ﷺ سے مزین کیا ہے۔۔۔ انھوں نے اپنی جلوت اور خلوت کو یکسانیت دی ہے۔۔۔ انھوں نے نقوشِ سیرت میں اپنی حیات کی روشن راہیں تلاش کی ہیں اور اس امر پر رؤیت عام اور رؤیت خاص گواہ و شاہد ہے۔ یقیناً محبت و اطاعتِ رسول ﷺ کی اسی فنائیت نے ان میں رسول اللہ ﷺ کی شان الکوثر کا فیض جاری کردیا ہے۔ ان کے قلم کا تنوع اور ان کی زبان کا ہر موضوع کا احاطہ کرنا۔۔۔ ہر علم پر اُن کی دسترس کا ہونا۔۔۔ ہر مجلس میں ان کا شمعِ محفل ہوجانا۔۔۔ ہر جلیس کے دل میں اِن کا اتر جانا۔۔۔ ہر ایک کو اپنا کرلینا۔۔۔ ہر علم کی وادی کو سر کرلینا۔۔۔ ہر وصفِ جمیل میں بحرِ بے کنار ہوجانا۔۔۔ یہ سب شیخ الاسلام کی ذات میں ایک بحر الکوثر کے جاری ہونے کی نشاندہی کرتا ہے۔
(3) حکمت و بصیرتِ نبوی ﷺ کا فیض
منصبِ قیادت پر فائز ہونا جہاں ایک بہت بڑا اعزاز ہے وہاں یہ ایک بہت بڑی ذمہ داری بھی ہے۔ اگر تقاضائے ذمہ داری اور حقِ ذمہ داری ادا نہ کیا جائے تو یہ انسانی عزت کو ذلت میں بدل دیتا ہے، انسانی رفعت کو پستی دے دیتا ہے اور انسانی عظمت کو خاک میں ملادیتا ہے۔ یہ منصب اپنے قول، فعل اور خلق کو حکمت آشنا کرنے کا تقاضا کرتا ہے۔ حکمت وہ سوچ ہے جس تک عام انسانوں کی رسائی آسانی سے نہیں ہوتی۔حکمت، حکم شارع کی علت کی طرح ہے۔ علت کی طرح حکمت بھی اپنے اظہار میں عام انسانی عقول کی سطح پر زیادہ تر پوشیدہ ہی ہوتی ہے۔حکمت اپنے اظہار کے وقت اپنی عظمت لوگوں سے خود منوالیتی ہے۔اسی بنا پر قرآن نے حکمت کو خیرِ کثیر قرار دیا ہے۔ ارشاد فرمایا:
وَ مَنْ یُّؤْتَ الْحِكْمَةَ فَقَدْ اُوْتِیَ خَیْرًا كَثِیْرًا ؕ
’’ اور جسے (حکمت و) دانائی عطا کی گئی اسے بہت بڑی بھلائی نصیب ہوگئی۔‘‘
حکمت و بصیرت وہ عنصر ہے جو قیادت میں فضائلِ محمودہ کی طرف اشارہ کرتی ہے۔ یہی حکمت قیادت میں محاسنِ کثیرہ کا اظہار کرتی ہے۔رسول اللہ ﷺ کی حیاتِ طیبہ کا مطالعہ کیا جائے تو قدم قدم پر حکمت و بصیرت کے چراغ روشن دکھائی دیتے ہیں۔ اس سلسلہ میں معاہدہ حلف الفضول میں شرکت، حجرِ اسود کی تنصیب کے وقت ردِعمل، مکی زندگی کے 13 سالوں میں صبرو برداشت کا اظہار، ہجرتِ مدینہ، مواخاتِ مدینہ، میثاقِ مدینہ، معاہداتِ قبائل، صلح حدیبیہ، جملہ غزوات اور ان کے دوران بروئے کار لائے جانے والے اقدامات، سلاطینِ وقت کو لکھے جانے والے خطوط اور فتح مکہ کے واقعات حکمت و بصیرتِ نبوی ﷺ کے عظیم مظاہر ہیں۔
رسول اللہ ﷺ کو بطور خاص جو احکامِ شریعت عطا کیے گئے ان کی علل و حکم کو بھی آپ ﷺ پر ظاہر کیا گیا اور ہر حکمِ شریعت کو ایک خاص علت و حکمت پر قائم کیا گیا۔ رسول اللہ ﷺ کے فرمودات میں حکمت و علت کا یہی سبب تھا۔ رسول اللہ ﷺ سے قبل شرائع میں حکم کی تعمیل کو علامتِ اطاعت اور عدمِ تعمیل کو نشانِ طغیان سمجھا گیا۔ یوں حکم ماننے کو فرمانبرداری شمار کیا گیا اور حکم نہ ماننے کو نافرمانی تصور کیا گیا۔ رسول اللہ ﷺ نے ہر حکمِ شریعت کی علت و حکمت سے امت کو اپنی سنت کے ذریعے آگاہ کیا یہی آپ ﷺ کی خصوصیت اور آپ ﷺ کی فضیلتِ قیادت کا اظہار اور ثبوت ہے۔
اب ہر زمانے کی لیڈر شپ اگر اپنے تمام تر امور میں حکمت و دانائی کو شامل رکھے گی تو اس کی قیادت لوگوں کے دلوں میں مضبوط و مستحکم رہے گی اور اس کے اثرات جلد یا بدیر ہرکس و ناکس پر ظاہر ہوجائیں گے اور ہوجاتے ہیں۔ عصرِ حاضر میں اس چشمۂ سیرت اور قیادت کے اس مخزن سے حکمت و دانائی کو اپنے دامن میں جس شخصیت نے بہت زیادہ جمع کیا ہے، وہ ذات و شخصیت شیخ الاسلام کی صورت میں ہمیں نظر آتی ہے۔ تحریک کے روزِ اول سے ہی اس کے ہر قدم کو حکمتِ نبوی پر استوار کیا گیا ہے۔وقت کے ساتھ ساتھ حکمتِ نبوی کا یہ فیض شیخ الاسلام کی ذات و شخصیت سے بے پایاں ظاہر ہوتا گیا۔
تحریک کے پیغام کو عصرِ حاضر میں کس مؤثر ترین ابلاغ اور ذریعۂ ابلاغ کے ذریعےپہنچانا ہے۔۔۔ جماعت سازی کو کیسے اور کس طرح اثر انگیز بنانا ہے۔۔۔ تحریکی پیغام کی فروغ پذیری کے لیے کون کون سے مناہج و اسالیب کو اختیار کرنا ہے۔۔۔ کیسے قریے اور نگر میں کس طرح کا چراغ جلانا ہے۔۔۔ مقبولیت کے بعد مخالفت اور عداوت کی آندھیاں اٹھیں، حسد و کینہ کے طوفان بپا ہوں تو کیسے اور کس طرح کا ردِعمل دینا ہے۔۔۔ ردعمل کس وقت دینا ہے اور کس اسلوب سے دینا ہے۔۔۔ اس ردعمل کے لیے الفاظ و کلمات کا چناؤ کیسا اور کونسا کرنا ہے۔۔۔ ردِعمل کو کس حد تک محدود کرنا اور کس پر حکمِ سکوت وارد کرنا ہے۔۔۔؟ ان سب کا فیصلہ قیادتِ عصر اپنی دانش و حکمت سے کرتی ہے اور اس تناظر میں شیخ الاسلام نے تحریک کی موافقت اور مخالفت پر ردِعمل فطرتی اسلوب میں بے پناہ حکمت کے ساتھ دیا ہے۔
اسی حکمت نے تحریک کو ہمیشہ بڑے بڑے طوفانوں اوربڑی بڑی طغیانی موجوں سے محفوظ کررکھا ہے۔ یوں مسلسل قدم قدم پریہ احساس جاگزیں ہوتا ہے کہ تحریک کی ناؤ لگاتار اور مسلسل اورہر لحظہ حکمتِ نبوی ﷺ کے کھلے بحر میں چل رہی ہے۔ اس کی حفاظت میں غیر مرئی دستِ حکمت کارفرما ہے، جو مسلسل اسے اپنی حفاظت میں لیے ہوئے ہے۔ اگر کوئی طغیانی موج اس سے ٹکرائی بھی ہے تو تحریک کی رفتار میں ممکن ہے کوئی معمولی سا فرق پڑا ہو مگر وہ تحریکی سفر رکا نہیں۔ اس طغیانی کے تھمنے کے بعد تحریک پھر اپنی پہلی حالت کی طرح منزل کی طرف رواں دواں اور تیزی کے ساتھ جاری و ساری ہوگئی۔
تحریک منہاج القرآن کی 44 سال کی تاریخ کا مطالعہ بتاتا ہے کہ تحریک کا مذہبی، تبلیغی اور دعوتی فیز اپنے اندر اپنی نوعیت کے بے شمار چیلنجز لیے ہوئے تھا۔ ہر روز ایک نیا حملہ آور سامنے آتا تھا۔اس کی زبان و بیان پہلے حملے سے بھی سخت ہوتی تھی اور اس دعوتی و تبلیغی فیز کا بھی ہر دن ایک نئی خیر اور ایک نئی شر کے ساتھ طلوع ہوتا تھا مگر تحریک کی ناؤ مسلسل الوہی پناہ اور نبوی فیضان کی بناء پر اور حکمت و دانائی کے چشموں سے سیرابی کی وجہ سے ہمیشہ حفاظت میں رہی ہے۔
اس تبلیغی و دعوتی فیز کے بعد تحریک کا اصلاحی اور انقلابی فیز شروع ہوتا ہے۔ اس فیز کے بھی اپنے انتہائی خطرناک چیلنجز تھے۔ اس فیز کا دشمن بھی پہلے فیز کے دشمن سے کم نہ تھا بلکہ اس سے کئی درجے بڑھ کر خطرناک و خوفناک اور طاقت و قوت کی وجہ سے ہولناک تھا۔ پہلے فیز کا دشمن ایمان پر حملہ آور تھا اور دوسرے فیز کا دشمن جان پر حملہ آور تھا۔ دونوں دشمنوں سے بچنا تحریک کی حیات و بقا کے لیے ضروری تھا۔ یقیناً اس بچاؤ اور حفاظت کا اہتمام چشمۂ حکمت سے مکمل فیضیابی کےبغیر ممکن نہ تھا۔ یہ موضوع بہت وسیع ہے، طوالت کا اندیشہ ہے، سرِدست موضوع کے لیے اتنا بیان ہی کافی و شافی ہے۔ البتہ اتنی بات ضروری ہے کہ حکمتِ نبوی کا فیضان، عصرِ حاضر میں منہاج القرآن ہے اور اس حکمتِ نبوی کی عملی برہان کا عنوان قیادتِ عصر اور نابغہ عصر شیخ الاسلام ہے۔
(4) ’’اَللہمّ اُمَّتِیْ‘‘ کا فیض
قیادت کے لیے لازم ہے کہ وہ اپنے لیے نہ جییں بلکہ ان کا جینامرنا دوسرے لوگوں کے لیے ہو۔ ان کے جینے سے دوسرے لوگوں کے لیے جیناممکن ہو۔۔۔ ان کی سانسوں سے دوسرے لوگوں کی سانسیں قائم ہوں۔۔۔ ان کا وجود دوسروں کے لیے سراسر رحمت اور باعثِ منفعت ہو۔ اسی وصف کی حامل قیادت کو قیادتِ عصر کہتے ہیں۔ قیادت اپنے ذاتی غم کھانے اور اپنے ہی غموں میں گھلنے کا نام نہیں ہے بلکہ دوسروں کے غموں، دکھوں اور مصیبتوں کو دور کرنے کا نام ہے۔ دوسرے لوگوں کی حاجات اور ضروریات کو پورا کرنے کا نام قیادت ہے۔اپنے لیے جینا تو ہر کسی کو آتا ہے مگر انسانیت کا کمال اور قیادت کا حسن و جمال دوسروں کے لیے جینا ہے اور ان کے جینے کو پرآسائش اور آسان و سہل بنانا ہے۔ یہ کام اس وقت تک نہیں ہوسکتا جب تک قیادت کو دوسروں کا درد نہ ہو اور دوسروں کی خیر خواہی مقصود نہ ہو۔
اس بناء پر قیادت کے اس امتیازی وصف کو دنیا کے عظیم قائد اور بے نظیر رہبر اور بے مثل راہنما کے اسوہ و قدوہ میں شامل کرتے ہوئے قرآن مجید اس کا ذکر یوں کرتا ہے:
وَ یَضَعُ عَنْهُمْ اِصْرَهُمْ وَ الْاَغْلٰلَ الَّتِیْ كَانَتْ عَلَیْهِمْ
’’ اور اُن سے اُن کے بارِگراں اور طوقِ (قیود) - جو اُن پر (نافرمانیوں کے باعث مسلّط) تھے، ان کو دور ہٹاتے ہیں۔‘‘
(الاعراف، 157/7)
یہ آیہ کریمہ واضح کرتی ہے لوگوں کو بھاری بوجھوں نے دبا رکھا تھا اور اُن کے ہاتھ پاؤں زنجیروں میں بندھے ہوئے تھے۔ رسول اللہ ﷺ نے اپنی قیادت کے ذریعے لوگوں کو ان ناروا بندشوں، ستم آشنا قیدوں، ظالمانہ زنجیروں اور دلخراش بندھنوں سے آزاد کرایا۔ اس لیے باری تعالیٰ نے سارے انسانوں کا اور سب زمانوں کا آپ کو قائد اور رہنما بناکر بھیجا ہے۔
آپ ﷺ کے سامنے مکہ کے رہنے والے کفار و مشرکین، مدینہ میں رہنے والے یہود اور اوس و خزرج کے قبائل اصرو اغلال میں مبتلا تھے۔ یہ لوگ افعالِ قبیحہ اور اخلاقِ رذیلہ کے اسیر تھے۔ ان میں انسانیت کے جذبے کا فقدان تھا۔ توہمات کا راج تھا، انسان انسانوں کے غلام تھے، خواتین کی قدرو منزلت نہ تھی، غیراللہ کی عبادت کی جاتی تھی، بتوں کے نام قربانیاں دی جاتی تھیں، جذبہ انتقام اور کینہ کو اچھا سمجھا جاتا تھا، فواحش اور قبائح کا معاشرے میں رواج تھا، حسب و نسب پر فخر کا اظہار کیا جاتا تھا، دوسرے قبائل کو رذیل و حقیر سمجھا جاتا تھا، باہمی عداوت اور منافرت عام تھی،خاندانی رسوم قانون و مذہب سے بڑھ کر حاکم تھیں، حریت رائے پر رسوم کا غلبہ تھا، دشمن قبیلے کو نیست و نابود کرنے کے لیے طرح طرح کی سازشیں کی جاتی تھیں۔
رسول اللہ ﷺ نے اپنی قیادت کے ذریعے ان سب چیزوں کا خاتمہ کیا اور اہلِ عرب کی زندگی کو سارے انسانوں کے لیے مثالی اور اُن کے طرزِ زندگی کو دوسروں کے لیے قابلِ رشک بنایا۔
رسول اللہ ﷺ کی منصبی ذمہ داریوں میں سے تھا کہ ہر وہ شخص جو کسی بھی مذہب سے تعلق رکھتا ہو، جو اپنے عقیدے اور عمل سے بھٹک گیا ہو، جس نے اپنے مذہب کو اپنی خواہش کے تابع کرلیا ہو اور اپنی خواہش کو اس نے شریعت بنالیا ہو، آپ ﷺ کا مقصود اس کی اصلاح کرنا تھا اور اس کو صراطِ مستقیم پر گامزن کرنا تھا۔
آپ ﷺ کے اسوۂ حسنہ کی روشنی میں آج بھی ہر سطح کے قائد کے لیے لازم ہے کہ وہ معاشرے میں موجود ہر طرح کی اور ہر شعبے کی خرابیوں کی اصلاح کا فریضہ ادا کرے۔ سیاسی لیڈر، سیاست میں آنے والے چیلنجز اور مسائل کو حل کرے اور سیاست میں جو طرح طرح کی خرابیاں آئی ہیں، ان کو دور کرے۔ مذہبی لیڈر کی ذمہ داری ہے کہ اللہ کی منشا کے مطابق ابلاغِ حق کرے، لوگوں کے درمیان وحدت و یگانگت کو فروغ دے، لوگوں کو باہم جوڑے، ان کے درمیان سے نفرتوں اور کدورتوں کا خاتمہ کرے، ان کو اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے لیے یکجا کرے۔ الغرض ہر شعبے کا لیڈر اپنے اپنے میدان میں کارہائے نمایاں سرانجام دے، اپنے شعبے میں ایک مثال بنے اور دوسروں کے لیے قابلِ تقلید نمونہ بنے۔
ہر قوم اپنے اپنے زمانے کے حساب سے کچھ نہ کچھ اصر و اغلال اپنے کندھوں پر اٹھائے پھرتی ہے۔ وہ ان سے آزادی بھی چاہتی ہے اور اس کے ساتھ ساتھ ان کو بآسانی چھوڑنے کے لیے بھی آمادہ نہیں ہوتی۔ وہ قوم اپنی تقدیر کے حوالے سے ایک عجیب و غریب کشمکش میں رہتی ہے۔ ان حالات میں درد دل رکھنے والی قیادت ہی ان کی صحیح راہنمائی کا فریضہ سرانجام دیتی ہے۔
شیخ الاسلام نے اپنی تحریکی زندگی کو روز اول ہی سے لوگوں کی اصلاح اور بہتری کے لیے وقف کیے رکھا ہے۔ ان کی ہر کاوش، ہر جدوجہد، ہر مہم، ہر خطاب، ہر کتاب، ہر نشست، ہر میٹنگ، ہر جلسے اور ہر کانفرنس کا یہی مقصد رہا ہے کہ لوگوں کے احوال کی اصلاح ہوجائے۔۔۔ ان کی زندگیوں میں بہتری آجائے۔۔۔ ان کے پژمردہ چہروں پر مسکراہٹ آجائے۔۔۔ ان کے دکھ دور ہوجائیں۔۔۔ ان کے غم ختم ہوجائیں۔۔۔ ان کی زندگی پُرسکون اور پُرراحت ہوجائے۔ اس مقصدِ رفیع کے حصول کے لیے انھوں نے اب تک اپنی زندگی میں بے مثال مذہبی جدوجہد بھی کی ہے اور بے مثل سیاسی تگ و دو بھی کی ہے۔
ان کی سعی و کاوش پر لیل و نہار کا نظام گواہ ہے کہ وہ جدوجہد اور وہ محنت و سعی قوم کی اصلاح، قوم کی بہتری اور قوم کی عزت و عظمت کی بحالی کے لیے تھی۔ قوم کے درد کو انھوں نے اپنا درد جانا۔۔۔ قوم کی خاطر انھوں نے آرام کو بھی ترک کیا۔۔۔ اپنی درد بھری آواز قوم کے ہر فرد کے کانوں تک پہنچائی۔۔۔ قوم کو اپنے حقوق میں تمام آئینی و دستوری ضابطوں کی روشنی میں باشعور کیا۔۔۔ قوم کی فلاح و اصلاح کے لیے ہر ایوان میں صدائے حق بلند کی۔۔۔ ہر ظلم و ستم کا مقابلہ کیا۔۔۔ ہر قارون کو دولت کے نشے سے باہر نکالا۔۔۔ ہر فرعون کے کانوں میں آوازِ حق پہنچائی۔۔۔ ہر طاقت ور کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالیں۔۔۔ ہر ظالم کے ظلم کو بے نقاب کیا اور ہر ستم گر کے ستم سے قوم کو آگاہ کیا۔۔۔اپنی جدوجہد کو مروج ضابطوں کا پابند بنایا۔۔۔ اپنی زبان کو اپنے مخالف کے لیے تہذیب سے عاری نہ ہونے دیا۔۔۔ اپنا سارا سرمایہ، اپنی ساری قوت اور اپنی ساری توانائی، قانون کے دائرے میں رکھی مگر ہر حال میں، ہر محاذ پر اور ہر متکبر اور ہر قوت کے نشان کے سامنے ڈٹے رہے۔۔۔ حق سے نہ پھرے۔۔۔ باطل سے سمجھوتہ نہ کیا۔۔۔ سچ کو جھوٹ نہ کہا۔۔۔ مجرم کو معصوم نہ کہا۔۔۔ باطل کو حق نہ کہا۔۔۔ ظالم کو مظلوم نہ کہا اور فاسق کو متقی نہ کہا۔
شیخ الاسلام اور اُن کے جانثار کارکنان و رفقاء ظلم کے خلاف سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن گئے، یہاں تک کہ قربانیاں دیں مگر کسی بھی مرحلہ میں باطل کے ساتھ سمجھوتہ نہ کیا۔ مگر افسوس کہ ظالم سے مقابلہ کے لیے یہ قوم بیدار نہ ہوئی اور اس نے اصلاح و تبدیلی کے لیے سرد مہری دکھائی مگر دنیا گواہ ہے کہ شیخ الاسلام نے اپنا حقِ قیادت اچھی طرح ادا کردیا۔
شیخ الاسلام آج بھی قوم اور ملتِ اسلامیہ کے لیے میدانِ عمل میں ہی ہیں اور دوسرے محاذ سے آئندہ آنے والی نسلوں کے ایمان کو محفوظ رکھنے اور مصطفوی معاشرے کے قیام کے لیے اُن کی رہنمائی کا فریضہ سرانجام دے رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ اس نابغۂ روزگار شخصیت کو صحت و سلامتی کے ساتھ عمرِ خضر عطا فرمائے اور ہمیں اس مصطفوی مشن میں اُن کی معیت و صحبت میں استقامت عطا فرمائے۔
آمین بجاہ سیدالمرسلین ﷺ